9مارچ 2007ء کو اس وقت کے ڈکٹیٹر صدر، پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان، افتخار محمد چوہدری کو ایک حکم سے غیر فعال کر دیا۔تب وکلاء برادری نے عدلیہ کی بحالی کے لئے آواز بلند کی۔ اور یہ ایسی زبردست تحریک کی صورت اختیار کر گئی کہ پرویز مشرف کو اپنے دورِ حکومت میں پہلے کبھی ایسی کسی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی وکلاء برادری کی طرف سے پہلے کبھی کوئی ایسا قابلِ ذکر رد عمل سامنے آیا تھا۔ تب کئی ایک حکومت نواز حلقوں کی طرف سے یہ الزام بھی لگائے گئے کہ یہ تحریک عدلیہ کی بحالی کے لئے نہیں، بلکہ فیورٹ ازم کی بنیاد پر ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے وکلاء برادری پہ لگے تمام الزامات کو غلط ثابت کردیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے چند ماہ کی سماعت کے بعد افتخار چوہدری کو اپنے عہدے پہ واپس بحال کردیا۔ اور مشرف کے اقدام کو غیر آئینی اور اختیارات کا ناجائز استعمال قرار دیا۔ لیکن پھر بھی عدلیہ اور حکومت میں مخاصمت بڑھتی رہی۔ جس کا واضح اظہار 12 مئی کو کراچی میں وکلاء کے اجتماع پر، جس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے خطاب کرنا تھا، تشدد کی صورت میں کیا گیا۔ جس میں تقریباً چالیس وکلاء اور کارکن جاں بحق ہوئے۔ سانحہ 12 مئی کے بعد وکلاء کو بہت سی مراعات اور اعلیٰ عدالتی سیٹوں کی پیش کش بھی کی گئی، لیکن باضمیر وکلاء جُھکے، نہ ہی بِکے۔
12 مئی کے سانحہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اور اس شعر کے مصداق
اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔۔
عدلیہ بحالی تحریک شعلہ جوالا کی صورت اختیار کر گئی۔ 3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ آئین اور بنیادی حقوق معطل کر دئیے گئے۔ اور جسٹس افتخار چوہدری سمیت ساٹھ ججوں کو معزول کرکے نظر بند کر دیا گیا۔ لیکن وکلاء پھر بھی ڈٹے رہے اور مسلسل دو سال تک مشکلات اور قید و بند کی سختیاں برداشت کیں۔اور بالآخر 16 مارچ 2009ء کو ایک کامیاب لانگ مارچ کی بدولت، جس کی قیادت وکلاء راہنماء اعتزاز احسن، علی احمد کرد وغیرہ اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کر رہے تھے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کروالیا گیا۔
تحریک میں وکلاء کو عوام اور میڈیا کی اخلاقی اور عملی سپورٹ حاصل رہی۔ اس عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی نے وکلاء کو ایک مضبوط اور مثبت کمیونٹی کے طور پر متعارف کروایا۔ اور تب ایک نعرے کو کافی شہرت ملی،
زندہ ہیں وکلا، زندہ ہیں
حکومتِ وقت کو باور کروا دیا گیا کہ وکلاء برادری قانون کی بالادستی کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔اور کالا کوٹ انصاف اور حق کی آواز کا استعارا بن گیا۔
لیکن حالیہ چند برسوں میں وکلاء کی طرف سے کچھ ایسے واقعات منظر عام پہ آ رہے ہیں۔ جس سے اس معزز پیشے کا مورال گر رہا ہے۔ اور پے در پے ہونے والے واقعات سے ایک نئی اصطلاح نے جنم لیا ہے۔
“وکلاء گردی”
اس اصطلاح کا 2015ء سے پہلے تک کوئی وجود نہیں تھا۔ بالکل ایسے ہی، جیسے پاکستان میں “دہشت گردی” کی اصطلاح 2005ء میں متعارف ہوئی۔ دراصل چند ایک وکلاء کی طرف سے کچھ ایسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی رویے، پُرتشدد اور ظالمانہ اقدامات سامنے آرہے ہیں کہ جنھیں وکلاء گردی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ ایک وکیل،جو کہ قانون کا رکھوالہ ہوتا ہے، جب و ہی قانون شکنی کا مرتکب ہوگا۔ اور فیصلہ کمرۂ عدالت میں کرنے کی بجائے کچہری کے برآمدوں میں خود کرتا رہے گا، تو پھر اس کے لئے ایسی ہی اصطلاحات استعمال ہوتی رہیں گی۔
گو کہ ایسے وکلاء کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پھر بھی، ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے، کے مصداق ایسے مٹھی بھر عناصر کی بدولت پوری وکلاء برادری کا ایک غلط تاثر سامنے آ رہا ہے۔ عوام ایسے وکلاء کے پُرتشدد رویے سے متنفر ہو رہے ہیں۔ اور سماجی سطح پہ اک مخاصمت کی فضاء جنم لے رہی ہے۔ وہی عوام اور میڈیا، جو کل عدلیہ بحالی تحریک میں معزز وکلاء برادری کی اقتداء میں کھڑے تھے۔ آج ان کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔
ایسا ہی نفرت بھرا ایک عوامی ردعمل ابھی پچھلے ماہ ہی سامنے آیا ہے۔ جب ایک وکیل صاحب کی گاڑی ایک سوزوکی بولان سے ٹکرائی۔نوبت جھگڑے تک پہنچ گئی۔ پھر عوام کے مشتعل ہجوم نے وکیل صاحب پر تشدد کیا۔ان کی گاڑی کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا۔ لیکن جو قابل غور بات تھی کہ اس دوران وکلاء برادری کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہوتا رہا۔قریب تھا کہ ایک اور سانحۂ سیالکوٹ رونما ہوتا۔۔کہ چند وکیل صاحبان موقع پہ پہنچے اور احسن طریقے سے ہجوم کو منتشر کیا۔
یہ واقعہ وکلاء برادری کے لئے ایک تنبیہہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون شکن وکلاء کے خلاف اقدامات نہ کرنے کی بدولت، ایک شدید نفسیاتی ردعمل سامنے آئے اور ایک معزز پیشہ، جسے اقبال اور جناح کا پیشہ کہا جاتا ہے، محکمہ پولیس کی مانند ‘ گالی’ بن کر نہ رہ جائے ۔یا پھر حالیہ واقعہ کی طرز پر عوام بھی اپنے فیصلے سرِراہ کرنے پہ مجبور ہوجائیں اور معزز وکلاء بھی گندم کے ساتھ گھن کی صورت پستے رہیں۔
ایسے میں معزز وکلاء برادری اور پاکستان بار کونسل کو چاہیئے کہ کالے کوٹ میں موجود کالی بھیڑوں کی شناخت کریں اور جملہ عناصر جو ایسے پر تشدد واقعات میں ملوث پائے جائیں اور وکالت جیسے معزز پیشے کی شرمندگی کا باعث بنیں۔ ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔اور ان سے قانونی ہاتھوں سے نبٹا جائے۔ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے دھڑوں کی بھی بیخ کنی کی جائے۔
یہ وقت “زندہ ہیں وکلا، زندہ ہیں” کے پُرجوش نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا ہے۔ وکلاء برادری کو اپنے اخلاقی طور پہ زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ورنہ عدلیہ کے ایک جج کو انصاف کرتے تو دیر ہو سکتی ہے، لیکن تقدیر کے قاضی کو فیصلہ کرتے دیر نہیں لگتی۔
نوٹ: راقم بھی قانون کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں