سیندک کا آنکھوں دیکھا حال ۔ قسط 2۔۔۔۔رشید بلوچ

تھوڑی دور جا کر ہماری بس دو منزلہ عمارت کے سامنے رک گئی۔ ایک ایک کر کے تمام ساتھی بس سے اترنے لگے۔ ہم جب بس سے اتر گئے تو عمارت کے اندورنی گیٹ پر چائنیز اور مقامی انتظامیہ نے مسکراہٹوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور ساتھ چلنے کا کہہ کر عمارت کے اندر لے گئے۔

اب ہم دوسری منزل کی سیڑھیاں چڑh کر ایک درمیانے سائز کے ہال نما کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ کمرہ کانفرنس روم تھی جہاں بڑے سلیقے سے کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ میزبانوں نے ہمیں میز کے دائیں جانب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک درمیانے قد کا چائنیز شخص اندر داخل ہوا۔ ان کے ساتھ دو، تین اور نوجوان چائنیز بھی داخل ہوئے۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ ہال میں موجود افراد اس شخص کے اندر آنے کے بعد تعظیما! سیدھے ہو کر کھڑے ہوگئے۔

اب نووارد ہونے والے شخص نے روایتی چائنیز انداز میں سر جھکا کر ہمیں سلام کیا اور ہم نے اپنی روایت کو فالو کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کے سلام کا جواب دیا۔ پھر ایک ایک کر کے ہاتھ ملانے کے بعد وہ مڑے اور میز کے بائیں جانب لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بریفنگ شروع ہونے سے پہلے تعارف کا سلسہ شروع ہوا تو اس درمیانے قد والے چائنیز نے اپنی زبان میں کچھ بولنا شروع کیا۔ ہم صرف اس کے لب ہلتے دیکھ سکتے تھے لیکن کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔

ہم ازراہِ تکلف اس کی طرف متوجہ ہو کر مُنڈی ہلا رہے تھے۔ جیسے ہی اس بندے کے لب ہلنا بند ہوئے تو دائیں طرف درمیانے عمر کے بیٹھی ایک خاتون نے انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے ان کا تعارف مسٹر خاشو پنگ کے نام سے کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ شخص ایم سی سی (MCC) کے چیئرمین ہیں۔ تب ہمارے کان کھڑے ہوئے، اور میں دل ہی دل میں بڑ بڑایا، “اڑے اسل مردم او ہمیشءِ!”

رسمی سلام دعا ہونے کے بعد ایک خوبرو چائنیز لڑکی نے اپنے سامنے پڑا لیپ ٹاپ آن کر دیا اور پروجیکٹر کے ذریعہ اسکرین کے توسط سے بریفنگ کا آغاز کر دیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایم سی سی (MCC)گذشتہ 30 سالوں سے سیندک میں مائننگ پر کام کر رہی ہے، اس کمپنی میں کل 1900سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں، ملازمین میں ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل افراد شامل ہیں، ان میں زیادہ تر مائنر اور اور فیکٹری ورکرز ہیں، گریڈ کے حساب سے ہی ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئی ہیں، تنخواہیں کم سے کم 300 ڈالر تک ہوتی ہیں، ملازمین میں جو آفیسرز رینک کے افراد ہیں ان کی تنخواہیں گریڈ کے حساب سے 300 ڈالر سے بھی زیادہ ہیں، اب تک سیندک سے 10 لاکھ ٹن سونا، چاندی اور تانبا نکالا جا چکا ہے، نکالے جانے والے ذخائر میں زیادہ تر مقدار تانبے کی ہے۔

بریفنگ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر یومیہ نکلنے والے ذخائر میں تانبا،چاندی اور سونا کتنی مقدار میں نکالے جاتی ہیں۔ بریفنگ ختم ہونے کے بعد سوال جواب کا سیشن شروع ہوا۔ اس دوران چائے سے ہماری تواضع کی گئی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سیندک کے چا ئنیز ہم سے بھی زیادہ دودھ والی چائے چسکی بھر کر پیتے ہیں۔

بریفنگ ختم ہونے کے بعد ہم جب باہر نکلنے لگے تو مجھے سگریٹ پینے کی اشد طلب ہو رہی تھی۔ ہال سے نکلنے والا سب سے پہلا بندہ میں ہی تھا۔ سیڑھیاں اترتے اترتے میں باہر آنے تک ایک سگریٹ پھونک چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ باقی لوگ بس میں سوار ہوتے اور مجھ پر فضائی آلودگی پھیلانے پر پانبدی عائد کر دیتے، میں نے جلدی سے دوسری سگریٹ سلگا دی۔ میری بد قسمتی یہ تھی کہ میرے علاوہ پورے گروپ میں کوئی بھی سگریٹ پیتا ہی نہیں تھا۔ اوپر سے مجھے سگریٹ نہ پینے کی تبلیغ بھی کرتے۔ ایک حساب سے سانجھا سگریٹی نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی مجھے یہ سفر بور بھی لگنے لگتا۔ عمومآ مجھے تبلیغ کرنے والوں پر بڑا تپ چڑھتا ہے؛ خصوصا کوئی سگریٹ کی برائی میں لمبی چھوڑی تمہید باندھے تب سخت غصہ چڑھ جاتا ہے۔ سوچنے لگتا ہوں اے کاش میں چنگیز خان ہوتا اور سامنے والا بغداد کا شہری تو میں جھٹ سے داعی کا سر دھڑ سے الگ کر پاتا۔ چون کہ نہ میں چنگیز خان اور نہ ہی سامنے والا بغدادی تو عافیت اسی میں سمجھتا ہوں کہ غصہ قابو کر کے بندے سے دور بھاگ جاؤں۔

جب تک میں سگریٹ پھونکنے سے فارغ ہوا، تب تک تمام ساتھی بس کی سیٹوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ صرف علی رضا مجھے بس کے آس پاس ٹہلتا نظر آ رہا تھا۔ میں بس کی جانب قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ ایک ٹربو گاڑی ریورس میں آ کر میرے عین سا منے اپنا رخ مین گیٹ کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو علی رضا پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا میری طرف جھانک رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو؛ “زوت سوار بُو شوم!”

میں نے اس سے پوچھا، گاڑی میں گنجائش ہے؟ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے بیک سائڈ والا دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ شیشہ کھول کر ہاتھ کے اشارے بس میں سوار ساتھیوں کو کہنے لگا، تم لوگ چلے جاؤ مجھے سواری مل گئی ہے۔ ہم خراماں خراماں (RDL) آر ڈی ایل سیکرٹریٹ کے مین گیٹ سے باہر نکل گئے۔

غالبآ 1975 میں منسٹری آف پیٹرو لیم اینڈ ریسورسز (Ministry of Petroleum and Natural Resources) نے سیندک میں مائننگ کا آغاز کر دیا تھا۔ جب کہ 1961 میں جیولوجیکل کل سروے آف پاکستان(Geological Survey of Pakistan) (GSP) نے سیندک میں سونا، چاندی اور تانبے کے ذخائر کا پتہ لگا لیا تھا۔ اس وقت چائنا کی کمپنی (RDL) آر ڈی ایل سیندک میں مائننگ کر رہی ہے اور یہ کمپنی (MCC) کمپنی کی ذیلی شاخ ہے۔ ایم سی سی (MCC) کو 1991 میں مرکزی حکومت نے مائننگ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس کے بعد 1995میں ایم سی سی (MCC) نے اپنی ذیلی شاخ آر ڈی ایل (RDL) کے ذریعے کام آغاز کر دیا لیکن باقاعدگی سے مائننگ نہیں کی جا سکی۔ کیوں کہ یہاں گیس، بجلی اور پانی کا بندوبست کرنا باقی تھا۔ مذکورہ چائنا کمپنی پانی بجلی اور گیس پلانٹ لگانے کے ساتھ ساتھ محدود پیمانے پر مائننگ کر رہی تھی۔ اس کمپنی نے باقاعدہ طور پر 2002 میں کام کا آغاز کر دیا۔

جس گاڑی میں، میں بیٹھ گیا تھا اس کے اندر مزید دو لوگ موجود تھے جن میں ایک ڈارئیونگ سیٹ پر جب کہ دوسرا اس کے ساتھ فرنٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ ان دونوں نوجوانوں سے میں گذشتہ رات کو سرسری مل چکا تھا لیکن وہ اب بھی میرے لیے اجنبی ہی تھے۔ میں نے علی رضا سے دونوں کا تعارف کرانے کے لیے کہا۔ تعارف کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں نوجوان سیندک میں ملازم ہیں، ان میں محمد وسیم بطور ایڈمن آفیسر جب کہ دوسرا محمد گل ڈپٹی ایڈمن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وسیم کا کوئٹہ اور محمد گل کا تعلق نوکنڈی سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری ایک بری عادت ہے کہ میں بہت جلد ہی لوگوں سے بے تکلف ہو جاتا ہوں، سو عادت سے مجبور دونوں نوجوانوں سے بے تکلفانہ انداز میں سلام دعا کی اور ایک ہی سانس میں سگریٹ پینے کی اجازت بھی چاہی۔ اب میں خوش تھا کہ کم سے کم گاڑی میں سگریٹ پھونک سکتا ہوں۔ میں نے جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکالے، سگریٹ سلگائی اور ہم مائننگ زون کی طرف بڑھنے لگے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply