میرے بابا میرے استاد ۔۔۔عامر عثمان عادل

دنیا بھر میں اساتذہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔ میرے بابا اپنے زمانے کے نامور استاد اور سخت گیر منتظم تھے ۔ دور کہیں ماضی کے جھروکوں سے آج کچھ یادوں نے دل دماغ کو گھیرے میں لے رکھا یے۔ بچپن میں مجھے کسی وجہ سے ننھیال بھیج دیا گیا۔ جہاں ایک پرائیویٹ سکول میں ابتدائی جماعتوں کی تعلیم حاصل کی۔ ایک دن کیا ہوا کہ بابا ملنے کیلئے آئے تو مجھے پاس بٹھا لیا۔ بستہ کھول کر اپنی کتابیں اور کاپیاں دکھانے اور کچھ پڑھ کے سنانے کو کہا۔ وہ میری کاپیاں دیکھ رہے تھے جبکہ میں ان کے چہرے کے بدلتے رنگ ۔ بس پھر میری شامت آ گئی۔ بابا اپنے روائتی انداز میں گویا ہوئے ” کھوتے دیا پترا تیرا تے بیڑا غرق ہویا ”
اسی وقت میرا بوریا بستر سمیٹا اور کان سے پکڑ کر واپس اپنے گھر لے گئے ۔

لو جی اب میری بنیاد نئے سرے سے رکھے جانے کا آغاز ہوا۔ دن میں کئی کئی بار تختی، سلیٹ پر الف ب لکھوائی  جاتی ۔املا ہوتی اور ریاضی کی مشق ۔ ابتدائی جماعتوں کا کورس اپنی نگرانی میں کروانے کے بعد مجھے ماسٹر جمیل صاحب کے حوالے کر دیا گیا جو اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھاتے اور پرائمری سکول حسن پٹھان لے جاتے ۔
بابا آپ اس دن کتنے خوش تھے جب آپ کے نالائق بیٹے نے پانچویں اور آٹھویں کلاس کا وظیفے کا امتحان نمایاں حیثیت میں پاس کر لیا ۔پھر آپ اپنے ساتھ مجھے گورنمنٹ ہائی سکول سہنہ لے گئے ۔
آپ نے کبھی اخلاقی معیار پر ہماری تربیت میں کوئی سمجھوتہ نہ کیا ،یاد ہے بچپن میں مجھے تختی پر لگاتے لگاتے ملتانی مٹی( گاچی، پوچا ) کھانے کی لت پڑ گئی۔ اور نجانے کس نے آپ سے مری شکائیت کر دی ۔آپ نے مجھے رسے سے باندھا اور گھر میں پانی کے کنویں میں لٹکا دیا۔ اب اندھیرے کنویں میں مارے ڈر کے میری چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں پکارے جا رہا تھا کہ مجھے باہر نکالیں۔ میں کبھی مٹی نہیں کھاؤں گا ۔ ساری زندگی پھر مٹی کی طرف دیکھا بھی نہیں۔

وہ دن مجھے آج تک نہیں بھولا جب آپ نے سارے سکول کے سامنے مجھے مرغا بنا کر دھنائی کی ۔ ہوا یوں کہ ہمارے میٹرک کے امتحان میں چند روز باقی تھے ۔ رولنمبر جاری ہو چکے تھے کہ ایک صبح سکول پہنچتے ہی خبر ملی کہ نصیرہ کا رہنے والا ہمارا ہم جماعت شبیر سکول آنے کے لئے بس پر سوار ہونے لگا تو ڈرائیور نے گاڑی چلا دی اس کا ہاتھ پھسلا اور وہ گاڑی کے نیچے آ گیا ۔ میں نے سکول کے لڑکوں کو ساتھ لیا اور سڑک بلاک کر دی۔ ہمارا احتجاج جاری تھا کہ بابا آپ کو خبر ہو گئی ۔ آپ نے چھڑی ہاتھ میں لی اور سڑک پر آگئے ۔ آپ کو دور سے آتا دیکھ کر تمام لڑکوں نے دوڑ لگا دی ۔ میں بھی بھاگنے لگا تو آپ نے تین چار لگائیں اور کہا سکول کی طرف جاوؤ۔ آپ سکول پہنچے سارے طلبہ اور سٹاف کو جمع کیا اور مجھے اسٹیج پر بلا لیا ۔ پوچھا بتاؤ  تمہارے ساتھ اور کون کون تھا اس احتجاج میں ۔ میں نے سوچا میری تو شامت آ کے رہنی ہے باقیوں کو تو بچا لوں۔ سو کہا میں نے ہی سب کو اکسایا تھا ۔ آپ پورے جلال میں گویا ہوئے تم نے میرا دس سالہ ریکارڈ خراب کر دیا ہے آج تک میرے سکول کے طلبہ کا باہر کوئی  جھگڑا ہوا نہ کوئی  ہڑتال ۔پھر اسٹیج پر مرغا بنا اور آپ کی چھڑی مجھ پہ برستی رہی ۔ یہ ایک سبق تھا کہ جب اصول توڑے جاتے ہیں تو پھر اپنے خون کو بھی معاف نہیں کیا جاتا

آپ نے ساری زندگی دیانت داری سے ملازمت کی ۔ ہمیں رزق حلال کے نوالے سے پالا۔ مجھے یاد ہے چھوٹے بھائی  کو کیڈٹ کالج میں داخل کروانا تھا ۔ اس کی تاریخ پیدائش مطلوبہ معیار سے محض دو دن زائد تھی ۔ بڑے بھائی  آپ کے پاس فارم لے کر آئے اور کہا کہ آپ سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ریکارڈ آپ کے پاس ہے۔ دو دن کا فرق پورا کر کے دستخط کر دیجیے ۔ اس کی زندگی بن جائے گی ۔ آپ نے جواب دیا ساری زندگی میں نے جو کام نہیں کیا اب سفید بالوں کے ساتھ مجھ سے کروانا چاہتے ہو ۔ تم چاہتے ہو اس کی زندگی بنائے کی خاطر میں اپنی عاقبت خراب کر لوں ۔ بھائی نے غصے سے فارم پھاڑ دیا ۔ یہ ایک اور سبق تھا ۔

بابا یاد ہے ایک دن گھر پہ مستری کچھ مرمت کر رہے تھے ۔ اور میں ان کے ساتھ رہنے کی بجا ئے کرکٹ کھیلنے چلا گیا ۔واپسی پر آپ نے ڈانٹا تو میں نے جواب میں کچھ کہہ تو دیا مگر سخت ملول ہو گیا ۔ مجھے ایک پل چین نہ آیا ۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ آج تک مجھے آپ کے سامنے بولنے کی جرات نہیں ہوئی  اور آج میں نے کیا کر دیا ۔ اور پھر پچھتاوے کی آگ میں جلتے آپ کا بیٹا آپ کے پاؤں میں گر گیا ۔رو رو کے آپ سے اس گستاخی کی معافی مانگی ۔ آپ نے اٹھا کر گلے سے لگایا تو مجھے چین آیا ۔ پھر ساری حیاتی آپ سب کو فخر سے بتاتے کہ میرے اس بیٹے نے کبھی گستاخی نہیں کی ایک بار اس سے غلطی ہوئی  تو اس نے پاؤں پکڑ لئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری زندگی کا سنہرا دن۔
انٹر میڈیٹ کا امتحان جاری تھا۔ میں سخت ڈپریشن اور اضطراب کا شکار ہو گیا۔ رات کو سویا ہی نہ جاتا ۔ انگلش کا ایک پرچہ اچھا نہ ہوا ۔ گھر واپس آیا تو حالت اور خراب ۔مایوسی ناامیدی کے عالم میں مجھے یوں لگا کہ زندگی ختم ہو گئی  ہو ۔ آپ نے اس دن مجھے ساتھ لیا اور واک کرنے کے بہانے کھلی فضا میں بھنڈر کی طرف چل پڑے ۔ چلتے چلتے کہا کیا خوف ہے تمہیں؟ پرچہ اچھا نہیں ہوا تو کیا ہوا زیادہ سے زیادہ کمپارٹ آ جائے گی ۔ تو یہ کوئی  انہونی بات نہیں ۔ اکثر لائق طلبہ کی بھی کمپارٹ آ جاتی ہے۔ یہ تو گویا ایک موقع ہوتا ہے اچھے نمبر لینے کا ۔ تم مکمل طور پر خود کو اس خوف سے آزاد کر لو ۔ اور باقی جو پیپرز رہ گئے ہیں ان پر توجہ دو۔مجھے یوں لگا جیسے دماغ پہ چھائی  دھند ایک دم سے چھٹ گئی  ہو ۔ مجھے تو یہ ڈر بھی لاحق تھا کہ آپ ڈانٹیں گے ۔ سخت سسست کہیں گے ۔ لیکن آپ کا یہ روپ میرے لئے نیا بھی تھا اور خوشگوار بھی ۔ بابا کیسے پیار سے آپ نے میری کونسلنگ کر کے ڈپریشن سے ایک لمحے میں نجات دلوا دی ۔
میں اس رات آرام سے سویا۔ اگلے دن انگلش کا پیپر B تھا جو بہت اچھا ہوا اور اسی طرح باقی سارے پیپرز۔
پھر کیا ہوا کہ آپ کا جو بیٹا فیل ہونے کے خوف میں مبتلا تھا۔
اس کا رزلٹ آیا تو اس نے پورے آزاد کشمیر میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے آپ کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔
بابا  آپ نے میری زندگی بنا دی۔۔
ایک نکمے آدمی کو انسان بنا دیا میں تو آپ کی تصویر کا پرتو ہوں جسے آپ نے سنوار دیا
آج دنیا جس عامر عثمان عادل کو جانتی ہے وہ سب آپ کی دعاؤں کا حاصل ہے
کاش اس لمحے آپ میرے پاس ہوتے جب آپ کا یہ نالائق بیٹا بھاری اکثریت سے پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہوا،
اللہ کریم آپ کو اپنے مقرب بندوں کے ساتھ کھڑا کرے!
آئی لو یو بابا !

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply