باپ؛ تپتے صحرا میں سایہ دار پیڑ ۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دنیا بھر میں ہر سال یونائیٹڈ نیشن آرگنائزیشن( UNO) کے زیر اہتمام جون کے تیسرے اتوار باپ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔امسال بھی یہ دن 19 جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ باپ کے عالمی دن کی اصل کہانی 1907 ء کے حقائق سے منسوب ہے۔جب ویسٹ ورجینیا میں کان کنی کی تباہی سے 361 مرد ہلاک ہوگئے جن میں 250 باپ تھے ۔ان سب کے تقریبا ً ایک ہزار 1000 بچے تھے۔

گریس گولڈن کلیٹن جس کے والد اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔اس نےاپنے مقامی چرچ میتھوڈیسٹ کے پاسٹر کو والدین کی یادگار دن منانے کا مشورہ دیا۔
تقریباً دو سال بعد 1909 میں اسپوکین واشنگٹن کی سنورا اسمارٹ ڈوڈ نامی( Sanora smart Dodd) ایک خاتون نے اپنے آبائی چرچ کے پاسبان ریورنڈ ڈاکٹر ہنری راسمو سن سے مدر ڈے کا خطبہ سنا۔اس نے اپنے جی میں سوچا کہ ایسا ہی ایک دن باپ کا بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ سنورا اسمارٹ ڈوڈ سمیت اس کے باپ نے پانچ بچوں کو پالا تھا۔اس کے باپ کی یہ خوبی تھی کہ اس نے نہ تو دوسری شادی کی اور نہ ہی اپنے بچوں کو دوسروں کے حال پر چھوڑا کیونکہ سنورا اسمارٹ ڈوڈ کی ماں پیدائش کے وقت ہی فوت ہو گئی تھی۔ سنورا نے اپنے باپ کی محبت اور وفاداری کو دیکھتے ہوئے جون 1910 کو نے اسپوکین مینسٹریل ایسوسی ایشن اور مقامی (YMCA ) ینگ مینز کرسچین ایسوسی ایشن کے ساتھ رابطہ کیا جس میں فادر ڈے کی سالانہ تقریب کا خاکہ پیش کیا گیا۔اسے زبردست حمایت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں 19 جون بروز اتوار کو پہلا فادر ڈے منایا گیا۔ لہذا فادر ڈے کے بانی کا سہرا سنورا اسمارٹ ڈوڈ کے نام ہی جاتا ہے ۔جس نے اس تحریک کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا۔ اس وقت تقریبا ًدنیا کے ایک سو گیارہ 111 ممالک میں ہیپی فادر ڈے منایا جاتا ہے۔البتہ دنیا کے کچھ ممالک میں اس کی تاریخ مختلف ہے ۔مثلا ً روس میں یہ دن 23 فروری کو منایا جاتا ہے۔اٹلی، پر تگال اسپین میں 19 مارچ کو، سوئزرلینڈ میں جون کے پہلے اتوار کو ، آسٹریا اور بیلجئم میں جون کے دوسرے اتوار کو ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ستمبر کے پہلے اتوار کو ، جرمن میں 30 مئی کو ، جبکہ لبنان مصر شام اردن میں یہ دن موسم گرما کے پہلے دن کو منایا جاتا ہے۔

امریکہ میں اس وقت 79 ملین باپ ہیں اور 29 ملین دادا ہیں۔اس دن کو منانے والے پہلے امریکی صدر ووڈرو ولسن ہیں جنہوں نے 1916 میں پہلا فادر ڈے منایا تھا۔ اس کو باپ کے عالمی دن کا مشاہدہ اس قدر پسند آیا کہ اس نے اس دن کو قومی تعطیل کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا لیکن اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے بعد 1924 میں صدر کیلون کوبع نے ریاستوں پر زور دیا کہ اس دن کو ملک بھر میں منائیں گے لیکن اسے بھی سرکاری تعطیل سے انکار ہو گیا۔1972میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اس دن کو مستقل تعطیل کےطور پر دستخط کر دیا تھا۔جسے تاحال
ہر سال امریکہ میں باپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔دیگر ممالک میں بسنے والے لوگ بھی اپنی اقدار و روایات کے مطابق اپنے اپنے باپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے باپ کی قربانیوں کا اعتراف بلاجھجک کرتے نظر آتے ہیں۔یقینا ً جو قربانیاں ایک باپ نے اپنی اولاد کے لئے دی ہوتی ہیں۔اس یاد کو زندہ رکھنے کے لیے باپ کی عزت افزائی کرنا ایک نیک اور ناقابل فراموش عمل ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔خواہ مشرق ہو یا مغرب ہو۔ باپ کا درجہ ہر جگہ یکساں ہے۔باقی اس کی محبت ہر قوم اور ہر نسل کے لیے روز اول سے ایک جیسی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اولاد پر جو باتیں فرض ہوتی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی عقیدت و محبت کا دلجمعی کے ساتھ ثبوت پیش کرکے ان کے دل میں اپنی محبت کا حقیقی اثر قائم کریں۔یقیناً  ہر انسان کے اندر ایک فطری جذبہ موجود ہوتا ہے جو اسے باپ سے محبت ، عقیدت ، ہمدردی ، اور وفا کرنا سکھاتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر ایسی ہمہ گیر صفات ہیں جو اپنائیت اور احساس کے چشموں سے لبریز ہوتی ہیں۔ ان کا بہاؤ اور کشش مقناطیس جیسی ہوتی ہے جو لوگوں کی نفسیات کا رخ اپنی طرف موڑ دیتی ہے۔ اور زندگی میں کبھی بھی محبت کا چراغ بجھنے نہیں دیتیں۔

یقینا ًجذبات کو گلدستہ سے سجانا ایک فطری اور خدا کی محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔کیونکہ اظہار وہ قوت ہے جو دوسرے کے دل میں گھر کر جاتی ہے۔اظہار جتنا موثر اور محبت کی زبان میں کیا جائے وہ اتنا ہی تاثیر اور سحر انگیز بن جاتا ہے۔ یقیناً مئی ماں کی محبت میں گزر گیا۔جبکہ جون اپنی تپش کے ساتھ باپ کی محبت لے کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ میرے نزدیک والدین یکسانیت کے لبادے میں لپٹے ہوئے انمول موتی ہیں۔بہرحال دنیا میں کوئی ماں کو زیادہ پیار کرتا ہے اور کوئی باپ کو۔ لیکن دونوں کی فضیلت اور درجے کشش ثقل کا درجہ رکھتے ہیں۔ جن کے دل و دماغ میں اولاد کی محبت مقناطیسی قوت جیسی ہوتی ہے۔

جہاں ان کی فطرت میں صرف اولاد کی محبت پنپتی نظر آتی ہے۔ حیرت اور کمال ہے ان کی فطرت سے اولاد کے لیے صرف محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔جن سے انہیں زندگی بھر فیض حاصل ہوتا رہتا ہے۔

اگر ہم روزمرہ زندگی میں باپ کی شفقت اور محبت کی خوبیوں کو گننا چاہیں اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر ان خوبیوں اور قربانیوں کا جائزہ لیں تو دل و دماغ سوچنے پر مجبور و بے بس ہو جائے گا۔ جیسے ہی خاندان میں اولاد کا جنم ہوتا ہے۔باپ کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔وہ اولاد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے شب و روز ایک کر دیتا ہے۔ اسے قدرت اس قدر قوت ارادی سے نواز دیتی ہے پھر نہ وہ رات کی تاریکی سے ڈرتا ہے نہ وہ تپتے صحرا کی گرمی سے گھبراتا ہے۔بلکہ وہ ہر وقت کھلتے گلاب کی طرح اولاد پر اپنی محبت اور شفقت بکھیرنے کو تیار رہتا ہے۔
وہ اپنی ہر خوشی اور خواہش اولاد پر قربان کر دیتا ہے۔دراصل اس کے اندر فرض اور ایمان کی قوت ہوتی ہے جو اسے محنت اور قربانی پر اکساتی ہے۔ہر باپ اپنی اولاد کے لئے سہانے سپنے دیکھتا ہے۔ان کی تعبیر چاہتا ہے۔جہاں تک اس کی قوت ارادی اس کا ساتھ دیتی ہے۔وہ اسے استعمال کرتا ہے۔یہ جذبات کا آنگن بھی بڑا عجیب ہے۔جس میں طبیعت ایسے لمحوں میں ڈھل جاتی ہے۔جہاں سوچ کا زاویہ ایسی تصویر کشی دکھاتا ہے۔جہاں امید کا دامن روشن ، دل اطمینان گاہ اور زندگی محبت کے سپنوں سے بھر پور نظر آتی ہے ۔باپ اپنی فطرت میں ایک جھکاؤ ، ہاتھ میں محنت کی کنجی تھامے بھاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی آسائشوں اور رنگینیوں کو پس پشت ڈال کر محنت میں اتنا مگن ہو جاتا ہے۔ جہاں اس کی اپنی شخصیت حالات کے ہاتھوں مسخ ہو جاتی ہے لیکن وہ بچوں کی شخصیت کو باوقار بنا دیتا ہے۔ اس کی آنکھ میں کوئی اور سپنا نہیں سجتا سوا ئے اولاد کی تعلیم و تربیت کا۔ قدرت انسان کی فطرت کو ایسے کنٹرول کر لیتی ہے جیسے وہ دن رات کو تبدیل کرتا ہے۔ ایک باپ ہر روز ایک نئی امید ، نیا جذبہ ، نئی ترکیب ، نئی خواہش ، نئی امنگ ، نئی ضرورت ، نئی سوچ لے کر نکل پڑتا ہے۔ حالات خواں کیسے ہی کیوں نہ ہوں ؟

اگر دل میں تڑپ ، لگن اور محنت کا جذبہ موجود ہے،تو امید کی نئی کونپلیں دیکھنا نصیب ہو سکتی ہیں۔باغیچے میں خوشحالی کے پھول اور کلیاں کھلی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یوں کہہ لیجئے یہ برکات کا پیالہ بھی ہے اور محنت کا اجر بھی۔ یقینا ًانسان جو کچھ دنیا میں بوتا ہے وہی پھل کاٹتا ہے۔ اگر فطرت میں اچھا بیج بوئیں گے کل یادوں کی اچھی فصل کاٹیں گے۔برعکس فطرت میں کڑوے دانوں کا چھٹا دینگے تو بغاوت کے کانٹے اُگےنظر آئیں گے جو ہر کسی کو زخمی کریں گے۔انسانی فطرت خوب صورت گلشن کی طرح ہے۔ اسی طرح اولاد باپ کے گلشن میں بہار کی طرح ہوتی ہے۔ وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔وہ موسمی اثرات سے بچاتا ہے۔ وہ دشمن کے حملوں سے بچاتا ہے۔وہ راستی اور حق کی تلقین کرتا ہے۔
اولاد کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے اوران کی زندگی کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔
ان کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ خواہ سردی ہو یا گرمی ۔وہ موسموں سے بے نیاز ہو کر مسلسل دوڑتا ہے۔
اگر ہم مجموعی سوچ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں تو یہ دن ہر گھرانے کے لئے بابرکت اور لازوال محبت کا باعث ہے۔کیونکہ جہاں باپ کو ایک گھرانے کی سرپرستی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ وہاں اس کے کاندھوں پر کفالت کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔جس سے اس کی ولولہ جوش قیادت محبت اور جدوجہد کی تصویر دوسروں کے لیے مثال بن کر ابھرتی ہے۔ جو زندگی بھر اس کی شخصیت کو ادھورا نہیں ہونے دیتی۔ اس کی عزت کو خاک میں ملنے نہیں دیتی۔ اگر اولاد اس دن اپنے باپ کی محنت ، سوچ اور خاندانی تعمیر و ترقی کا جائزہ لے۔ تو پرانی سوچ کی بند گرھیں کھل جائیں گی۔ ماحول اور معاشرے سے فرسودہ خیالات کی گھٹن ختم ہو جائے گی۔اولاد کے دل میں باپ کی محبت کا جوش ٹھاٹھیں مارے گا۔

آئیں کچھ باپ کے متعلق کہے گئے دانشوروں کے اقوال پر غور و خوض کرتے ہیں۔
” کوئی آدمی اس سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا جب وہ کسی بچے کی مدد کے لیے جھک جاتا ہے” (ابراہام لنکن )
” جو باپ بھی اپنی زندگی میں کسی بچے کی مدد کے لئے کچھ بھی کرتا ہے وہ ہیرو ہے ” (فریڈ راجرز )
” ایک باپ کی مسکراہٹ ایک بچے کے پورے دن کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے” (سوسن گیل )
” وہ اکیلی کھڑی نہیں تھی لیکن جو چیز اس کے پیچھے کھڑی تھی اس کی زندگی کی سب سے طاقتور اخلاقی طاقت اس کے باپ کی محبت تھی ” (ہارپر لی )
” ہر عظیم بیٹی کے پیچھے واقعی ایک حیرت انگیز باپ ہوتا ہے “( نامعلوم )
*” ایک باب سو سکول ماسٹر سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے”( جارج ہربرٹ )
* “ایک اچھا باپ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ گمنام نا قابل تعریف اور سب سے قیمتی اثاثہ میں سے ایک ہے” ( ڈاکٹر بلی گرام )
* جو چیز آپ کو آدمی بناتی ہے وہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک بچے کی پرورش کرنے کی ہمت کا نام ہے ” (باراک اوباما )

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیں آج کچھ وقت نکال کر باپ کے عالمی دن پر اس بات پر غور کریں کیا میں اپنے باپ کی عزت کرتا ہوں ؟
کیا میں نے کبھی اس کی خدمات پر غور و خوص کیا ہے ؟
اگرچہ آج وقت نے اولاد کو بے راہ روی پر ڈال دیا ہے۔دنیا پر بے شمار ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔بےدینی بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔لیکن وقت ہمیں ملامت کرتا ہے۔ ہم اپنے والدین کی عزت کریں۔ان کی محنت اور قربانیوں کا احساس کریں۔ کیونکہ مجھے اپنا باپ آج بھی تپتے صحرا میں کھلتے ہوئے گلاب کی طرح نظر آتا ہے۔اس کی محبت خوشبو بن کر آج بھی میرے نتھنوں کو احساس فراہم کرتی ہے۔آج دنیا میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی محنت اور شفقت کی بدولت ہوں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply