• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بے دھیانی میں بھی دھیان کے ساتھ لڑئیے۔۔۔اسد مفتی

بے دھیانی میں بھی دھیان کے ساتھ لڑئیے۔۔۔اسد مفتی

امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے ایک ریویو میں بتایا ہے کہ اسرائیلی 25سالہ ایک لڑخی نے اسرائیل کی جبری بھرتی کیخلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے،اور اس نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں جاکر ڈیوٹی دینے اور فلسطینیوں سے جنگ کرنے کے لیے نہ تو میں ذہنی طور پر تیار ہوں،اور نہ ہی اسے قبول کرتی رہی ہوں۔

اس سے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک خبر میں بتایا تھا کہ 60اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے کی پٹی میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے،انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے،جس میں اپنے فیصلے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی عوام سے زیادتیاں اور توہین آمیز سلوک کررہی ہے،اخبار کے مطابق 2003سے اب تک1700اسرائیلی فوجی فلسطینی علاقوں میں جانے سے انکار کرچکے ہیں،ان میں کئی فوجیوں کو سزا بھی دی گئی ہے،لیکن میں نے اپنے کالم کے آغاز میں جس اسرائیلی لڑکی کا ذکر کیا ہے،وہ صنفِ نازک سے تعلق رکھنے والی خاتون ہے،جس نے علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔

میرے حساب میں یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صیہونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلہ پر سخت نظریاتی اختلاف ہیں،مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی ہیں،اور ان پر جو ظلم ڈھائے جارہے ہیں،وہ قطعی مناسب نہیں ہیں،کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے،

ان کا یہ کہنا بھی معقولیت پر مبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے،اگر وہ متحد اور مضبوط ہوجائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا،یہ سمجھنے کے لیے عقلمند ہونے کی ضرورت نہیں،لیکن صیہونی سیاست کے زیرِ اثر جن کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے،مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کی آواز موثر نہیں،اس کے باوجود مذۃبی عقائد کے حامل یہودی(اور اب فوجی جوان بھی)اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ فلسطینیوں کی تائید و حمایت میں جلوس نکالے جاتے ہیں،ان میں یہودی مذہبی رہنما(ربّی)بھی شریک ہوتے ہیں،جو سمجھتے ہیں کہ صیہونیت نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ یہودیوں کے لیے بھی خطرناک ہے،یہ حقیقت ہے کہ صیہونی سخت نسل پرست ہیں،دنیا کی غیر یہودی آبادی سے انہیں ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں ہے،امریکی اور عرب ان کی نظروں میں برابر ہیں،بارہ سو سال کی تاریخ میں ہر قوم اور ہر ملک نے یہودیوں کے ساتھ ناانصافیاں رواء رکھی ہیں،اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی یہودیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی،اور نہ ہی کبھی یہودیوں کو شکایت کا موقع ملا،یہودیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کبھی بھی کشیدہ نہیں رہے،جب بھی کسی ملک میں بالخصوص عیسائی مملکت میں ان کے ساتھ ناانصافیاں حد سے بڑھ جائیں تو وہ اسلامی ملکوں میں پناہ لیتے،لیکن آج انہوں نے اپنی اغراض کے تحت امریکہ کی پشت پناہی حاصل کی ہے۔

تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں،صیہونی لابی یہ چاہتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی،اور عربوں کے بڑھتے ہوئے جذبات اور عالم اسلام کی صیہونیت سے بڑھتی ہوئی نفرت کی تاب نہیں لاسکتے،اس لیے امریکہ جیسی سُپر پاور کی بھرپور تائید حاصل کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے،صیہونی ادارے یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے،اس سے دوگنی تیزی سے وہ ان کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں،صرف مقبوضہ فلسطین کی مجموی آبادی میں فلسطینویں کی افزائشِ نسل کی شرح قریباً 5 1/2 فیصد ہے،آبادی میں اضافے کی رفتار اگر ایسے ہی رہی تو 2020میں مقبوضہ فلسطین کی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 68فیصد ہوجائے گا،اس بات کا انکشاف اسرائیلی یونیورسٹی کے ایک سروے میں کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی حالیہ آبادی 15سالوں میں 18لاکھ سے بڑھ کر 24لاکھ ہوجائے گی،جبکہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ان کی آبادی 30 لاکھ سے بڑھ کر58لاکھ ہوجائے گی۔

اس سروے کی وجہ سے جہاں ایک طر ف اسرائیل کی صیہونی لابی مستقبل میں فلسطین میں “آبادی بم”سے شدید اندیشے محسوس کررہی ہے،وہیں یورپ میں یہودیوں کی تعدادمیں کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کے باعث یورپین یہودیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، انہیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ مغربی یورپ میں ہونے والی ہوش رُبا آبادتی تبدیلی کے منفی اثرات اور خطرناک نتائج وہاں کے (مغربی یورپ)یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہوں گے، مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبرا کر بین الاقوامی یہودی کانگریس نے اپنی ایک رپورٹ میں “یورپ میں اسلام کا فروغ”کے نام سے ایک سروے کیا ہے،اس رپورٹ میں یہودی کانگریس نے لکھا ہے کہ”بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یورپ میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں غیر معمولی آبادیاتی انقلاب رونما ہوا ہے”۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ”آج کل یورپ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہورہا ہے،چنانچہ یہاں یورپین یونین میں شامل ممالک میں 2کروڑافراد ایسے ہیں،جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں “۔۔(لفظ سمجھتے ہیں،پر غور کیجیے)رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ”حالیہ عرصہ میں یورپ کے مسلمان قابلِ لحاظ حد تک سیاسی طاقت کی نمائندگی کررہے ہیں “۔۔۔اگر مستحکم سیاسی نمائندگی کا یہی رجحان رہا تو 2020میں یورپ کی عام آبادی میں ان کی شرح کا تناسب10فیصد ہوگا،”
یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لاحق ہونے والے خطرات کے ثبوت میں یہادی عالمی کانگریس نے دو مثالیں بھی پیش کی ہیں،پہلی مثال فرانس کی ہے،رپورٹ کے مطابق فرانس اس وقت قانونی طور پر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 58لاکھ ہے،جبکہ غیر قانونی طور پر لاکھوں تارکین وطن آتے جاتے رہتے ہیں،یورپ کے تیسرے بڑے ملک جرمنی میں مسلمانوں یا اپنے آپ کو”مسلمان سمجھنے”والے افراد کی تعداد ہے،اس کے بارے میں حکومت آئندہ ہفتے رپورٹ شائع کرنے والی ہے،جو میرے آئندہ کالم میں آئے گی۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply