• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی کا کھتارس/ کچھ بھی ہوا، کپتان کو جھورے کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔۔۔ اعظم معراج

پاکستانی کا کھتارس/ کچھ بھی ہوا، کپتان کو جھورے کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔۔۔ اعظم معراج

1972میں میرے خاندان نے کراچی ہجرت کی۔ میری عمر اس وقت نوسال تھی ۔ اخترکالونی میں ہماری رہائش تھی۔ یہاں زیادہ تر گھرانے و ہی تھے۔ جو پنجاب کے گاؤں دیہاتوں سے آکر آباد ہوئے تھے۔ لیکن چند گھرانے وہ تھے۔ جو اندرون شہر کے محلوں سے آکر یہاں آباد ہونے تھے۔ہمارے و ہی ہم عمر بچے ہمارے شہر کے بارے میں گائیڈ بھی تھے۔ ہمارے یہ ہم عمر دوست شہر کے بارے میں ایسے ایسے ہوشربا انکشافات ہم پر آشکار کرتے کہ  خدا کی پناہ۔ یہ شہر سے ہمارے رابطوں کا  ذریعہ بھی تھے۔ہم بچہ لوگ نے ایک ٹھاہ فٹبال کلب بنائی ہوئی تھی۔ جس کے لئے گراؤنڈ شروع میں اختر کالونی کی غیر آباد بڑی گلیاں اور بعد میں ڈیفنس فیز ون کے خالی رہائشی پلاٹ تھے۔ ان دنوں ایک برساتی و نکاسی آب کا نالہ موجودہ اقراء یونی ورسٹی والی جگہ پر بہتا تھا۔اور دوسرا موجودہ کشمیر کالونی والی جگہ پر بہتا تھا، ان دونوں برساتی و نکاسی آب کے نالوں کو ہم نے بلکہ اہل محلہ نے ندیوں کے نفیس نام دے رکھے تھے۔ جب ڈیفنس فیز ون والے خوبصورت گراؤنڈز (خالی پلاٹوں پر) بنگلے بننے لگے تو ہمارے فٹبال و کرکٹ گراؤنڈز ان دونوں ندیوں کے درمیان والی خالی جگہ جہاں پر کچھ اراضی پر کھیتی باڑی ہوتی تھی، کچھ  پر کیکروں کے چھوٹے جنگل نما قطعات اور باقی خالی جگہ ہمارے میدان تھے۔یہ کھیتیاں اسی گندے پانی سے سیراب ہوتی تھیں ۔

ایک ان کھیتوں کا رکھوالا تھا جو بابا کھنڈو کے نام سے مشہور تھا۔ ان کھیتوں میں زیادہ تر ٹماٹروں کی کاشت کی  جاتی تھی، جب ٹماٹر کا سیزن نہ ہوتا تو چارا وغیرہ اُگایا جاتا۔ دو گندے نالوں کے درمیان یہ جزیرہ نما پر کھیت اور گراؤنڈ آس پاس کے چار پانچ غریب محلوں کے رہائشیوں کے لئے ایک پکنک پوائنٹ تھے۔ یہ سنہ 73 یا  74 کی بات ہے۔ اس دو چار گلیوں کے بچوں کی ٹھاہ فٹبال کلب کی کپتانی مجھے سونپی گئی۔ ہمارے پرانے شہری محلے داروں میں سے کسی نے اندرون شہر میں رہنے والی کسی ٹیم سے میچ فکس کیا۔یہ میچ شاید جناح ہسپتال کے اندر جو دو تین بستیاں آباد ہیں۔ ان میں سے کسی سے تھا۔اب مہمان ٹیم کو وقفے کے دوران پانی پلانے اور میچ کے اختتام پر ریفریشمنٹ کے لئے بحث مباحثہ شروع ہوا ،جس میں کولڈ ڈرنکس اور بسکٹ وغیرہ جیسے کئی مہنگے آپشن زیر بحث آئے لیکن کیونکہ نہ تو ٹیم کا کوئی سرپرست اعلیٰ تھا اور نہ ہی باقاعدہ کوئی فنڈز وغیرہ جمع  کرنے کا رواج تھا۔حالانکہ شہری ٹیم ممبران نے کئی دفعہ اس طرح کی فضول تجاویز دی تھیں لیکن ہم سمجھ دار دیہاتی بچوں نے اکثریت کے بل بوتے پر اس طرح کی ہر فضول تجویز کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا تھا۔ لہذا  بہت ساری برین اسٹار منگ کے بعد یہ طے پایا کہ ہمارا محدود بجٹ صرف اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ہم مہمان ٹیم کی تواضع ہاف ٹائم میں سادہ پانی اور اختتام پر ٹماٹروں جیسی انمول سوغات سے کیا جائے۔

یہ تجویز سن کر ہمارے اقلیتی تعداد والے شہری ممبران کے چہرے سفید پڑ  گئے۔انہوں نے احتجاج کیا۔لیکن اکثریت نے ٹماٹر تواضع بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ ہم دیہاتی نوشہری بچوں کا یہ خیال تھا کہ یہ شہری اور انکے شہری مہمان کیا جانیں  تازہ سبزیوں اور پھلوں کی افادیت۔ ٹماٹروں کا سیزن زوروں پر تھا۔ ٹیم کے ایک وفد نے گندے نالے کو عبور کرکے بابے کھنڈو سے مذکرات کرکے دو تین روپے کی خطیر رقم سے دس کلو ٹماٹروں کا بھاؤ تاؤ کرلیا تھا۔جو کہ ہمارے خیال میں دونوں ٹیموں کے لئے کافی ہوتے۔

میچ کا وینویو فیز ون میں بارہ  تیرہ  اور سولہ اور سترہ ایسٹ اسٹریٹ کے درمیان پلاٹوں کا خالی بلاک تھا۔
یہ ایک قدرتی گراؤنڈ تھا۔ چاروں طرف اونچی سڑکیں تھیں۔یہاں جب بڑے لڑکوں کے میچ ہوتے تو اگر کبھی کوئی 5 سات تماشائی ہوتے تو وہ سڑکوں پر بیٹھ کر کھلاڑیوں کو داد دیتے۔ بارشوں کے موسم میں اس پورے بلاک میں پانی بھر جاتا۔ جو دو تین مہینوں میں قدرتی طور پر ہی سوکھتا خود پانی نکالنے کا رواج ڈی ایچ یا کنٹونمنٹ بورڈ میں شروع سے ہی نہیں ہے۔ بارشوں کا یہ میٹھا  پانی زمین میں موجود کلر شورے سے اتنا کھارا ہوجاتا کہ جب پانی بالکل خشک ہو جاتا تو نمک کی ایک موٹی تہہ جم جاتی، جسے گدھا گاڑیوں پر آنے والے بنگالی بابے بھر بھر کر لے جاتے۔

اس نمکین پانی سے میرے بچپن کی ایک اور دلچسپ یاد وابستہ ہے۔ہمارے کچھ  رشتے دار جمہوریہ کالونی میں پہاڑی کے اوپر رہتے تھے۔ ہمارے خاندانوں کا وہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ یہ سفر ہمیشہ پیدل ہی کیا جاتا تھا۔ ہم جمہوریہ کالونی پہاڑی سے نکل کر طوبیٰ مسجد المعروف گول مسجد کے عقب وپہلو میں سلیرز کوارٹرز کے  درمیان سے گزر کر کورنگی روڈ کراس کرتے۔ فیز ون میں داخل ہوتے۔ڈی ایچ اے کراچی کے آفس کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔تیرہ  ایسٹ اسٹریٹ سے سیدھے اختر کالونی میں داخل ہوجاتے۔

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ عموماً ہماری یہ واپسی رات گئے ہوتی۔ جب ہم سیلرز کوارٹرز سے گزرتے تو وہاں کنکریٹ کی پکی روشیں اور سفید عمارتیں روشنی سے جگمگا رہی ہوتیں ۔ آگے آکر پھر یہ ہی دودھیاں  بتیاں مجھے ڈیفنس آفس کے ساتھ جڑے ہوئے سفید گھر کے باہر نظر آتیں، یہ دودھیا روشنی مجھے پہلی دفعہ گوجرانولہ شہر میں امی  کے ساتھ انکے کسی مذہبی تعلیمی ٹرپ پر ہاسٹل میں نظر آئی تھی۔یہ دوھیا روشنیاں دوسری بار ذرا ہوش میں خانیوال اسٹیشن پر میں نے دیکھی ۔ آج بھی یہ پینڈو جسے شہر میں رہتے پچاس سال ہونے کو آئے ہیں۔لیکن کہیں بھی زیادہ روشنی خصوصاً زیادہ دودھیا روشنی دیکھ کر مجھے بچپن کے پہلی دفعہ بتیاں دیکھنے کے چاروں واقعات میں سے کوئی ایک آدھ ضرور یاد جاتا ہے۔

ہفتے پندرہ دن میں ایک آدھ دفعہ فیز ون کے آس  پاس گھر کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ضرور ہوتا ہے۔یہ گھر بھی اتفاق سے ابھی ٹوٹا نہیں بلکہ ابھی تک ایسے ہی سفید رنگ میں ہی اپنے شاندار ڈیزائن والےاسٹرکچر کے ساتھ سفید رنگ میں جوں کا توں کھڑا ہے۔اور مجھے میرا بچپن یاد دلاتا ہے۔ ایک دن ہمارا یہ قافلہ  جب واپس گھر کی طرف محو سفر تھا تو جب ہم  گراؤنڈ کے پاس پہنچے  تو ہمارے گاؤں سے مہمان آئے ایک چاچے خوشی نے رفع حاجت کے لئے اندھیرے میں اس پانی کے کنارے کا رخ کیا۔ ہمارے گاؤں سے آنے والے مہمانوں کے لئے گھروں میں بنے ہوئے غسل خانے استعمال کرنا ایک عذاب ہوتا۔ اور وہ ہمیشہ ایسی کھلی جگہوں کی تلاش میں ہوتے۔ چاچا جب واپس آیا تو بار بار بڑبڑاتا جاتا اور ہنس کر ابا سے کہتا “پھا ذرا جلدی ٹرو، اے پانی جیڑا میں استعمال کر بیٹھا بڑا زہریلا سی” (بھائی ذرا جلدی چلیں پانی جو میں نے استعمال کرلیا ہے۔بہت زہریلا تھا۔) پھر گھر تک پہنچنے تک چاچے کی اسپیڈ سب سے زیادہ تھی۔

خیر ٹھاہ فٹبال کلب کے میچ کی طرف واپس چلتے ہیں۔ خدا خدا کر کے میچ کا دن آ پہنچا ،مہمان ٹیم باقاعدہ یونی فارم اور فٹبال کھیلنے والے جوتوں میں ملبوس تھی ہماری اکثریت شلوار قمیض اور ننگے پاؤں تھی کھیل شروع ہوا تو وہ باقاعدہ کھیل رہے تھے۔وقفے تک انہوں نے ہمیں کئی گول کئے۔وقفے کے دوران  مہمان ٹیم جب پانی پینے میں مشغول تھی ۔تو ہمارے کیمپ میں کچھ کھسر پھسر  ہوئی ،جو بعد میں چھینا جھپٹی میں بدل گئی۔ یہ چھینا جھپٹی کھلاڑیوں اور تماشائی کم جوتوں کے رکھوالوں کے درمیان تھی۔ جوتوں کے رکھوالے عموماً ٹیم ممبران کے چھوٹے بھائی جنھیں ٹیم میں کھیلنے کا موقع دینے کا جھانسہ دیکر ساتھ لایا جاتا تھاہوتے۔ چھینا جھپٹی جب بڑھی، تو ہمارے ایک ٹیم ممبر آمین صدیق کے چاچا زاد جس کا نام تو شاید  منظور تھا لیکن اسکا نک نیم جھورا تھا، نے ٹماٹروں والی ٹوکری اٹھائی اور بھاگ پڑا ،کچھ تماشائی اور کھلاڑی اس کے پیچھے تھے۔ میں نے جب یہ دیکھا تو بطور کپتان اپنی یہ ذمہ داری سمجھی کہ  ان ٹماٹروں کی حفاظت سب سے زیادہ مجھ پر لازم ہے۔

اب صورتحال یہ تھی کہ جھورے کے پیچھے بھاگنے والوں میں ،مَیں سب سے آگے تھا اور ہم گراؤنڈ میں بھاگ رہے تھے۔ خیر جھورا ٹماٹروں کی ٹوکری پھینک کر بھاگ گیا۔ جیسے تیسے میچ  ختم ہوا۔ٹیم میں اس نا خوشگوار واقعے پر تناؤ تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میچ ہم بری طرح ہار گئے۔ شام کو گھروں کے باہر بنے تھڑوں پر ریویو کمیٹیوں کے اجلاس شروع ہوئے۔یہ اجلاس کئی دن چلتے رہے۔میرے لئے شرمندگی کی بات یہ تھی کہ سب کمیٹیوں کی متفق رائے یہ تھی کہ کچھ  بھی ہوا تھا کپتان کو جھورے کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔

اس واقعے نے میرے دل میں یہ بات بٹھا دی،کہ جب آپ کو کوئی منصب والی ذمہ داری دی جائے تو آپکی ذمہ داری اور رکھ رکھاؤ عام آدمی کے مقابلے میں سو گنا بڑھ جانی چاہیے۔ اس لئے زندگی میں ایک آدھ دفعہ  پھر جب بھی ایسا موقع آیا ٹھاہ فٹبال کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نقطہ ہمیشہ ذہن میں رہا۔
“کہ کپتان کو نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔”

طلال چوہدری (یقیناً  چوہدری لکھتے ہوئے تکلیف ہورہی ہے۔لیکن کیا کریں اسکا نام ہے)والا واقعہ  جتنا شرمناک ہے۔وہ ہمارے سماج کا عکس   بھی ہے۔ یہ لعنتی جمہوری نظام میں دوسو اکتالیس جمہوری غلام بھرتی کرنے کے غلیظ اور غیر جمہوری طریقے کی پیداوار ہے۔ مسلم لیگ نون نے اب تک جو رویہ اپنایا ہے۔یہ رویہ ایسے واقعات کی وجہ ہے۔ عورت کا ہمارے لئے ایک بے توقیر شے ہونے والا مائنڈ سیٹ اس ایسے واقعات کا ذمہ دار ہے۔ہمارے معاشرے کے تضادات بھرے منافقانہ طور طریقے ایسے واقعات کے منبع ہیں۔ کچھ  بعید نہیں کہ ریاست کے تینوں ستونوں کے گھن کے فضلے پر پلنے والے چوتھے ستون کے ارسطو کل طلال سے اس ملک کی قومی سلامتی پر ماہرانہ رائے لیا کریں گے۔ ہمارےان سماجی رویوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔لیکن وزیراعظم عمران خان کا  اپنی تقریر میں طنزیہ اس واقعے کو دہرانا اس کا شرمناک ترین پہلو ہے۔ اس سے بھی شرمناک پہلو یہ ہے۔کہ کپتان کی ٹیم میں ٹھاہ فٹبال کلب کے بچوں جتنی دانش اور جرآت والا بھی کوئی نہیں ،جو سرعام یہ کہہ سکے۔کہ اس واقعے پر کپتان (وزیراعظم کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا)۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں کتابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔