عمر بھر کی سنگ زنی۔۔اعجاز اعوان

ہائیکنگ ، ٹریکنگ پر جانے والے یا صحرا میں سفر کرنے والے افراد ہی جانتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک گھونٹ پانی بھی کتنی اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ چاہے کہیں سے بھی ملے ، کیسے بھی ملے، بس پانی ہو جس سے پیاس بجھانا ممکن ہو ۔ لیکن کسی پُر آسائش کمرے میں بیٹھا شخص جس کے ایک اشارے پر دنیا کا بہترین ڈرنکنگ واٹر حاضر کر دیا جائے وہ کبھی بھی پانی کے اس ایک قطرے کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا۔ یہی سوچتا ہے کہ یہ کوئی  بیوقوف  ہی تھا جو پانی کے لئے اتنا بے تاب تھا ، بھلا پانی بھی اتنا نایاب ہو سکتا ہے کہ اس کو چند قطرے بھی نہ مل رہے ہوں ۔

کچھ ایسی ہی سوچ ہمارے اہلِ  وطن کی ہے ۔ کون سا الزام ہے ۔ کون سا طعنہ ہے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نہیں دیا ۔ کیا وہ آپ کا مقروض تھا ؟ کیا آپ نے اسے ہالینڈ بھیجا تھا ؟ یہ کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ 71 سقوط ِ مشرقی پاکستان کے بعد ملک کے حالات کیسے تھے ؟ قوم کی سوچ کیسی تھی ؟ مشرقی پاکستان چھیننے کے بعد بھارت کا مورال کتنا بلند ہو چکا تھا ۔ اس کی ہلکی سی جھلک 1998 کے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد کے خیالات یا پھر دو سال قبل بالاکوٹ میں بھارتی سٹرائیک کے بعد دیکھی جا سکتی ہے ۔ پاکستان پر اتنا بُراوقت کبھی نہ آیا تھا، جیسا 71کے بعد تھا ۔ لیکن آج کے پُر آسائش دور میں یہ سب کچھ سمجھنا اتنا آسان نہیں ۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا وقار پوری دنیا میں بلند کرنے کیلئے کوشاں تھے ۔

دوسری طرف  پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو شروع کئے بیس سال ہو چکے تھے مگر کامیابی کی منزل کوسوں دور تھی ۔ یہ ویسی ہی صورتحال تھی جیسی ایک ہائیکر کو اس وقت درپیش ہوتی ہے جب وہ پہاڑوں کی بلندیوں پر ہو اور اس کے پاس پانی کی ایک بوند تک نہ ہو ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی پاکستان کے مسیحا بن کر سامنے آئے اور انہوں نے جس کا بیڑا اٹھایا ، اس کو کامیاب کر دکھایا ۔ چند ہی سالوں میں وہ اپنا سینٹری فیوگل ڈیزائن بنا چکے تھے جو ایٹم بم بنانے کیلئے اہم ترین حیثیت رکھتا ہے ۔ متعلقہ پُرزوں کی تلاش ، ان کا حصول ضروری تھا۔ جو کسی بھی طریقے سے حاصل کیا گیا ۔ اس سلسلے میں جتنی بھی کہانیاں لکھی جاتی ہیں وہ سب سچائی پر مبنی ہیں ۔ایٹم بم بن گیا چاہے جیسے بھی بنا ۔ یہ ایٹم بم ہی ہے جس نے ہمیں بوسنیا جیسے انجام سے بچائے رکھا ۔اور اب تک بچائے ہوئے ہے۔

المیہ مگر یہ ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس عظیم کارنامے کو سراہنے کی بجائے ہمارے دانشوروں نے اپنے مالکوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد عبدالقدیر خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے کا کریڈٹ دینا چاہا تو نواز شریف کے اشارے پر لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے دانشوران نے عبدالقدیر خان پر تنقید کی بوچھا ڑ کر دی ۔ ان کا مذاق اڑایا جانے لگا ۔ طعن و تشنیع سے لاہور کی اخباریں بھر دی گئیں ۔ محض اس لئے کہ ان کے مالک نواز شریف کو عبدالقدیر پسند نہیں تھا ۔ خدا نے محسن کش نواز شریف کو اس کا صلہ بھی خوب دیا ۔ وزیر اعظم ہاؤس  سے سیدھا جیل کی تاریک کوٹھڑی ان کی منزل بن گئی۔

مشرف نے عبدالقدیر خان کے ساتھ جو کیا اس کے بارے خود عبدالقدیر خان نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کبھی کبھی ایک شخص کی قربانی دے کر ملک بچایا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم بنانے کے آلات عبدالقدیر خان کوٹ کی جیب میں چھپا کر ایران ، لیبیا یا شام کو دے آتے تھے ان کی عقل کو سلام ہے ۔

ایران کو ایٹم بم بنانے کی دستاویزات دی گئی تھیں ا ور جب امریکہ نے اس کے پیچ کسے تو اس نے صاف صاف بتا دیا کہ پاکستان اسے ایٹم بم بنانے کی دستاویزات دیتا رہا ہے ۔ قذافی کے قتل کے بعد اس کے محل سے ایٹم بم بنانے کے جو نقشے دستیاب ہوئے وہ بھی پاکستان سے بھیجے گئے تھے ،اسلامی ممالک نے احسان کا بدلہ خوب چکایا ۔ اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے مطابق ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کرنا ایک سخت جرم ہے ۔ جب دنیا نے پاکستان پر پابندیاں لگانا چاہیں تو مشرف کی درخواست پر عبدالقدیر خان نے یہ جرم اپنے سر لے لیا اور ستر کی دہائی کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کو ایک کڑے امتحان سے نکال لیا ۔

آج بھی بعض دانشور عبدالقدیر خان کی وفات پر خاموش بیٹھے ہیں ۔ ان کی مجبوریاں ہیں وہ انتظار میں ہیں کہ ان کو تنخواہ دینے والے مالک عبدالقدیر کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ پھر وہ بھی یہی راگ الاپنا شروع کر دیں گے ۔ ایک قصہ حاضر ہے۔۔

“ایک ریاست کے مہاراجہ کو ایک طوائف پسند آ گئی اور اپنے وزیر سے اس کے حسن کی بہت تعریفیں کرتا رہا ۔ وزیر نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی ، کچھ دن بعد مہاراجہ کو اس طوائف پر غصہ آ گیا تو اس نے اسے جی بھر کر گالیاں دیں ، وزیر نے بھی اس کی برائیاں شروع کر دیں ، جب مہاراجہ نے کہا کہ تم تو چند دن پہلے اس کے حسن کی تعریف کر رہے تھے ۔ تو وزیر نے جواب دیا کہ حضور میں تو آپ کا ملازم ہوں ، آپ نے اسے خوب صورت کہا تو میں نے بھی خوبصورت کہہ دیا ۔ آپ نے بُرا کہا تو میں بھی بُرا ہی کہوں گا ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو گزر گئے مجھے تو سو فیصد یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائے گا اور انہیں بلاحساب جنت الفردوس میں داخل فرمائے گا ۔ آپ اب اپنے دوستوں کی پوسٹیں دیکھنا شروع کریں ۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کون ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے محبت رکھتا تھا اور کون اپنے مالکان کے اشارے پر دم ہلاتا جا رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ زیادہ تر دم ہلانے والے ہی ہوں گے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply