لاوارث شہر کراچی۔۔۔سلمان نسیم شاد

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ جو دنیا کاچھٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کے  شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔

موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا دخول ہوا۔

مگر بدقسمتی سے کراچی کے ساتھ سب سے پہلی نا انصافی 1959 میں ہوئی جب پاکستان کا رار الحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت کی تبدیلی کے بعد ساٹھ کی دہائی میں اردو اسپیکنگ طبقے میں ’’احساس محرومی‘‘ کی پہلی لہر نے جنم لیا۔ اِ س احساس محرومی کو ایوب خان کا مارشل لا ختم کرسکا نہ ہی سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ احساس مٹ سکا۔ ملازمتوں میں شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم کے ذریعے میرٹ کا خاتمہ کیا گیا تو محرومی کا احساس مزید پروان چڑھا۔

جب سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ اندرون سندھ میں تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں اس لیے اسے دس سال کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران اندرون سندھ میں تعلیم کی بہتری کے لیے انفرا اسٹرکچر بنا لیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ دس سال میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔

سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سندھ کے دیہی علاقے کے لوگوں کو شہری علاقے کے لوگوں کے برابر لانے کیلئے چند سال کیلئے کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تھا لیکن آج کئی برس گزر جانے کے باوجود کراچی کے عوام اس کوٹہ سسٹم کے عذاب کو سہہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے کراچی کی عوام کی حکومتی اداروں اور جامعات میں نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

دوسری طرف ملک اور صوبے کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کراچی کی  مختلف حکومتوں نے معاشی نا انصافی کی، جس کے باعث یہ شہر کچی آبادی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے شہر کے مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے اور ان کے حل کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی، کراچی کو پانی و بجلی کی عدم دستیابی فراہمی و نکاسی آب کے ناقص نظام اور صحت و صفائی کے شعبے کی تباہ حالی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے جس کے لیے شہر کے منتخب نمائندے مسلسل آواز اٹھارہے ہیں لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں۔

کراچی کی تباہ حالی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کے ایم سی کے پاس ریونیو کا کوئی خاص محکمہ باقی نہیں رہا، بلدیہ عظمی کراچی کا ریونیو کا بڑا ذریعہ   ضلعی اور اکٹرائے ٹیکس تھا جو اس سے چھین لئے گئے۔ دوسری طرف سندھ حکومت کی جانب سے او زیڈ ٹی کی مد میں سالانہ چھ ارب روپے کے ایم سی کو کم دئیے جارہے ہیں۔

بی سی اے کو ایس بی سی سے بناکر سندھ حکومت نے اپنے ماتحت کرلیا، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے سالانہ دو سے ڈھائی ارب سندھ حکومت کو ملتے ہیں، پراپرٹی بیٹرمنٹ ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسز کی مد میں سندھ حکومت کو اچھا ریونیو مل رہا ہے۔

میئر کراچی وسیم اختر کے مطابق تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔ سالانہ آمدنی ایک ارب روپے کے قریب ہے جبکہ اخراجات دس ارب روپے سے زائد ہیں۔ کے ایم سی میں تنخواہوں کا شارٹ فال 7 کروڑ سے بڑھ کر 12کروڑ ہوگیا ہے،

متحدہ قومی مومنٹ سے ہم لاکھ اختلاف کرلیں مگر یہ حقیقت ہے متحدہ قومی مومنٹ میں توڑ پھوڑ سے پہلے تک ایم کیو ایم اور اس سے پہلے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کے دور حکومت میں کراچی کو لاوارث نہیں کہا جاسکتا تھا۔

اس دور میں ترقیاتی کاموں کی رفتار قدرے بہتر تھی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کراچی میں سب سے زیادہ ترقی کام اس دور میں ہی انجام پائے۔

دوسری طرف متحدہ قومی مومنٹ نے عوام کی مدد کے لئے ایک بہت بہترین سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس میں انھوں نے خورشید میموریل ہال میں اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہفتہ وار دن مقرر کررکھے تھے جہاں بیٹھ کر وہ عوامی مسائل سنا کرتے تھے۔ اس طرح عوام کی رسائی با آسانی اپنے حلقے کے رکن اسمبلی تک  ہوجایا کرتی تھی۔

مگر ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد عوام کی پہنچ اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے دور ہوتی چلی گئی۔ اور آج دیکھیں تو کراچی لاوارث نظر آتا ہے۔ سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر کراچی آج گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ اور اس کی سب سے زیادہ زمہ دار سندھ حکومت ہے جس نے بلدیہ عظمی کے متعدد ریونیو دینے والے محکمہ اپنی تحویل میں لے رکھے ہیں۔

سندھ حکومت نے مالی سال 2018-19 میں کے ایم سی کو اے ڈی پی کی مد میں پانچ ہزار ملین روپے دینے تھے تاہم سندھ حکومت نے اب تک اس مد میں صرف 2500 ملین روپے دیے ہیں۔

فنڈز کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے کے ایم سی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔

ملک کا بجٹ بنانے والا شہر کراچی پورے ملک کو پالتا ہے اسے ملتا کيا ہے؟ يہاں کے بچے کھمبوں سے کرنٹ لگ کر مررہے ہيں، یہاں کی عوام ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال سڑکوں پر سفر کرنے پر مجبور ہے۔ گٹر لائنیں ابل کر گلیوں اور شاہراہوں پر تعفن پھیلا رہی ہیں۔ یہاں کے عوام پانی کو ترس رہے ہیں۔ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کراچی کا پيسہ کراچی پر نہيں لگ رہا۔

آدھا کراچی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ آدھے کراچی کو پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے۔ شہر میں نہ سرکلر ریلوے ہے، نہ میٹرو یہاں تک کہ بڑی بسوں کی سواری بھی اہل کراچی کو میسر نہیں۔

جو شہر شہر ملک کو سالانہ 3000 ارب روپے کما کر دیتا ہے اس کے حکمران اس شہر کو اس کا حق کیوں نہیں دیتے اس شہر کی اس بدحالی پر فنڈز کیوں جاری نہیں کرتے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا گمان ہوتا ہے کہ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت کراچی اور اس کی عوام کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply