عُروجِ محبت۔۔۔محمد یاسر لاہوری/حصہ اوّل

ٹوٹتے، بُجھتے اور ڈوبتے دل کے ساتھ میری لکھی ہوئی یہ تحریر محبتوں کے ان سوداگروں کے نام جو اپنی سچی اور پاک محبتوں کو بطور زینہ استعمال کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے نافرمانی کے ہتھیار ڈال کر خود کو سنوار لیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارش کی ابتدائی بوندیں جیسے ہی اس کے چہرے پر پڑیں، اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ گرد و نواح کا جائزہ لیا تو اسے یاد آیا کہ وہ آدھی رات گئے اپنا گھر اور بستر چھوڑ کر مسجد میں آ گیا تھا۔ وہ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر خود کو سوچوں کے گہرے جنگل میں چھوڑے پوری رات سردی میں خود کو سزا دیتا رہا تھا۔ اسی دوران اس پر نیند نے غلبہ پا لیا تھا۔ یہ کیسی سزا تھی؟ جو وہ خود کو دے رہا تھا۔ اس بات کو تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کے اندر ایک پھانس تھی۔ ایک خلش تھی۔ جو اس کے دل و دماغ میں آندھی کے جھکڑوں کی طرح طوفان برپا کیے ہوئے تھی۔

آخر کیوں وہ کسی اور کو سراہتی ہے؟ اس کے لبوں پر نام آئے تو صرف میرا نام آئے۔ وہ کسی اور کا ذکر تک کرنا اپنے اوپر حرام کیوں نہیں کر لیتی ہے؟ اس کی آنکھوں میں صرف مَیں رہوں، اس کی سانسوں کی مہک میں صرف میں بسوں۔ اس کے ریشمی ہاتھوں میں فقط میرا ہاتھ ہو۔ اس کے تصورات، جذبات اور احساسات پر صرف میرا راج ہو۔ وہ مسکرائے تو میرے لئے، وہ ہنسے تو صرف میری آغوش میں۔ اس کے آنسو میرے نام ہو جائیں۔

اس کی دنیا مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ختم ہو۔ ہاں! وہ صرف میری ہے۔ اس کے خیالات کا محور و مرکز صرف میری ذات ہونی چاہیے ۔ ہاں! میں تو اس کے سائے تک کو چھپا کے رکھوں گا۔ وہ بس میری ہے۔ اس کا نام جڑے گا تو فقط میرے نام کے ساتھ۔

وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ کھلا، نماز فجر کے لئے آنے والے مسجد کے ایک بزرگ نمازی مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ اسے صحن کے بیچوں بیچ یوں گم صم بیٹھا دیکھ کر پہلے تو ٹھٹکے پھر آگے آ کر بولے “میاں! رات سے یہیں ہو یا ابھی آئے ہو؟ اس کے پاس جواب تھا، مگر وہ بولنے سے کترا رہا تھا۔ اندر کا حِزن و ملال اور ٹوٹ پھوٹ اس کے وجود کو تہہ و بالا کر چکا تھا۔ آنکھوں میں آنے والے آنسوؤوں کو جب باہر آنے کا راستہ نہ  دیا جائے تو وہ گلے کا پھندہ بن جاتے ہیں۔ جب آنسو گلے کا پھندہ بن جائیں تو پھر الفاظ کی کیا مجال جو زبان تک رسائی پا سکیں۔ یہی اس کے ساتھ ہوا تھا۔ بزرگ نمازی اس کی طرف سے کوئی جواب نہ  پا کر اسے دیکھتے رہ گئے۔

اور وہ چپکے سے اٹھا اور وضوء خانے میں جا کر وضو کرنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ میری زندگی کو کیا ہو گیا ہے؟ میں اچھا بھلا تو تھا پھر یہ بے چینی، بے قراری اور سانسوں کے ساتھ جسم میں سرائیت کرتی یہ جان لیوا تپش مجھے دنیا و مافیہا سے کیوں بے خبر کرتی جا رہی ہے؟ یہی باتیں سوچتے سوچتے اس نے وضوء مکمل کیا اور فجر کی سنتیں ادا کیں۔

اتنے میں جماعت کا وقت ہوا۔ نماز کے لئے اقامت ہوئی۔ سفید داڑھی اور چہرے پر ہمیشہ کی طرح انتہاء کا سکون رکھنے والے امام صاحب مصلی پر آئے اور نماز پڑھانی شروع کی۔ وہ اپنے پروردگار کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا، امام صاحب ٹھہر ٹھہر کر کلامِ الہی کے الفاظ کی قرآءت فرما رہے تھے۔ اس کے لئے آج کی نماز ہی الگ تھی۔ رات سے بند باندھے جن آنسوؤں کو اس نے روک رکھا تھا۔ اب وہی آنسو لاشعوری طور پر اس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر اس کے رخساروں کو سلگا رہے تھے۔ اب وہ بھی خود کو اس کیفیت کے حوالے کئے چپ چاپ نماز میں کھڑا تھا۔

اس کا دل تھا کہ جیسے ہچکولے کھا رہا تھا۔ اکثر اوقات انسان کسی خواہش پہ روتا ہے۔ کسی ضرورت کے تحت اپنے پروردگار کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ اسے پکارتا ہے۔ آنسوؤں سے اپنے مالک کو راضی کر کے کسی چیز کا سوال کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ بس رونا چاہتا تھا۔ لیکن ہاں! دور کہیں اس کے خیالوں میں وہ چہرہ اب بھی ضرور موجود تھا جس کے حُسن کی تپش نے اس کی زندگی کو جلا کر راکھ کر ڈالا تھا۔ دور کہیں سے اس کی سماعت میں اپنی ماہ جبیں کی آواز، اس کے ہنسنے کی کھنکھناہٹ اور لب و لہجہ صاف سنائی دے رہا تھا۔

ہاں وہ نماز میں ہی کھڑا تھا لیکن اپنے پروردگار کے سامنے وہ مکمل دیانت داری نہیں برت پا رہا تھا۔ اس کے دل کے گمنام گوشوں میں وہ اب بھی یونہی بسی ہوئی تھی جیسے ساری رات بسی رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ تعلق جتنا پرانا ہو، بچھڑنے پر یا بچھڑنے کے ڈر سے پیدا ہونے والے خوف پر اسی قدر تکلیف دیتا ہے۔ مگر اس کا تعلق اس سے اتنا پرانا تو نہیں تھا۔ پھر بھی وہ اس کی چاہتوں کا مرکز بن گئی تھی۔ کئی بار انسان پر برسوں کی وفائیں، دیدارِ محبوب اور چاہتیں بے سود رہتیں ہیں اور کئی دفع محبوب کے چہرے پر سجی مسکراہٹ، لبوں کی جنبش اور آواز کا سحر چند لمحو میں انسان کے دل کو اپنی جاگیر بنا لیتا ہے۔ یہی تو اس کے ساتھ ہوا تھا۔

ماہ جبیں کی یادوں، باتوں اور ذات سے منسلک ہر چیز کے ساتھ گزارے چند دن اس کی ساری زندگی میں برپا ہونے والی تمام تر رونقوں پر سبقت لے چکے تھے۔ ہاں! وہ شاید مر مٹا تھا اس پر، پوری دل و جان کے ساتھ۔ اسے یہ اختیار تھا کہ وہ اس کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہیں دور چلا جائے۔ اپنا موبائل فون بند کر دے۔ اس کے حسن کی جھلک دیکھنا بند کر دے۔ یہ سب وہ کر سکتا تھا۔ لیکن وہ یہ سب کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ سچ تھا کہ اس کی زندگی میں آنے والی یہ محبت اسے تکلیف دے رہی تھی، درد اتنا تھا کہ وہ چُور ہو چکا تھا۔ مگر اس درد میں جینا اسے اچھا بھی تو لگ رہا تھا۔

نماز مکمل ہوئی۔ امام صاحب نے حدیث مبارکہ پر درس دیا۔ سرخ آنکھوں کے ساتھ اس نے جب ایک نظر امام صاحب کی طرف دیکھا تو امام صاحب درسِ حدیث کے الفاظ پر ڈگمگاتے ڈگمگاتے رہ گئے۔ تمام لوگوں کے جانے کے بعد امام صاحب اس کے پاس آئے۔ بولے خیریت ہے نا فہد بیٹا؟ بخار سے تپ رہے ہو۔ میں نے رات کھڑکی سے تمہیں یہاں صحن میں لیٹا دیکھ لیا تھا۔
اپنے بچپن کے مشفق استاد محترم امام صاحب کے استفسار پر جیسے وہ  بس سا  ہو کر رہ گیا اور   بولا: امام صاحب! دل پر بڑا بوجھ ہے۔ کیا کروں؟
امام صاحب پاس ہوئے اور اس کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر یہ کہتے ہوئے کہ “سچی اور پاکیزہ محبتوں کے بوجھ اٹھانے والے بوجھ کی تکلیف سے تلملایا اور کراہا نہیں کرتے” چلتے بنے۔

امام صاحب کی بات پر ایک بار پھر اس کی آنکھیں کسی فلک بوس پہاڑ سے بہتے اس جَھرنے کی طرح بہنے لگیں کہ جس جَھرنے کے مقامِ آغاز کا تو پتہ ہو لیکن اس جَھرنے کا مقامِ انتہاء نا معلوم ہو۔ اسے ان دو چار دنوں میں اس محبت نامی استاد نے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ ابھی گزرے کل ہی کی بات تھی کہ اس نے اپنے ایک ایسے حریف سے معذرت خواہانہ گفتگو کر کے اس حریف کی ناراضگی کو ختم کر لیا تھا۔ ایک ایک کر کے اپنی بری عادات کو اس نے اس محبت کی خاطر چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ اس ماہ جبیں کی محبت اور چاہت ہی کی بدولت اس کی برسوں سے خشک آنکھیں دوبارہ سے آنسو بہانے لگی تھیں۔ اس کے لاشعوری طور پر نکلنے والے اَشک اس کی نمازوں کا حسن نکھارنے لگے تھے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ یہ محبت اس پر نازل ہو رہی تھی۔

وہ خود کو لمحہ لمحہ، لحظہ لحظہ اس محبت میں غرق ہوتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ بوجھل دل و دماغ اور ساتھ نا دے سکنے والے جسم کے ساتھ وہ مسجد سے نکلا، گھر آیا اور اوندھے منہ بستر پر گر پڑا۔ جسم تپ رہا تھا بخار سے۔ اعصاب رات کی ٹھنڈ سے ایسے کِھنچ سے گئے تھے۔ نیم بیہوشی کی حالت میں بھی فہد کے خیالات کی سکرین پر اس کی “محبت” کا چہرہ ابھرا ہوا تھا۔ ہاں! وہی چہرہ جس چہرے نے اس کی کایا ہی پلٹ دی تھی۔ جس چہرہ کو دیکھے بغیر اب سکون نہیں مل رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ تالی دونوں  ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ لیکن عشق و محبت میں یہ مثال پوری طرح صادق نہیں بیٹھتی۔ بعض اوقات یہاں تالی دو ہاتھوں سے بج رہی ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات کوئی ایک محبت کرنے والا ایک ہی ہاتھ سے تالی بجانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اِدھر فہد کا سکون و چین لُٹ گیا تھا تو ہو سکتا ہے وہاں اس کی محبت (ماہ جبیں) بھی جاگ جاگ کر راتیں گزار رہی ہو۔ یہ بھی تو ممکن تھا کہ ماہ جبیں فہد کی محبت کو کچھ نا سمجھے!
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ ماہ جبین اس کی محبت کو سنجیدہ ہی نہلے رہی ہو۔ قبل از وقت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن فہد اپنی ہی ایک خیالاتی کائنات بسا چکا تھا۔

نجانے کیوں اسے یہ یقین تھا کہ جو آگ اس کے اندر بھڑک اٹھی ہے، اس کی چنگاریاں ماہ جبیں کے دل کے آنگن میں پڑی محبت کی خشک بیل کو آگ پکڑنے میں آسانی دیں گی۔
“ضرور ماہ جبیں بھی میری طرح تڑپی ہو گی رات بھر، ضرور ماہ جبیں کا لب و لہجہ بھی اس محبت نے بدل کے رکھ دیا ہو گا۔ یقینًا ماہ جبیں بھی میری محبت میں بالکل اسی طرح بے چین ہو رہی ہو گی جیسے میں اس کی یادوں میں سُلگ رہا ہوں۔ وہ بھی میرا نام لے لے کر خود سے چہ مگوئیاں کر رہی ہو گی”

نجانے ایسے کتنے ہی خیالات و تصورات کسی خوش فہمی کی طرح فہد کے ذہن میں اپنی الگ ہی دنیا بسائے نظر آ رہے تھے۔ ہو سکتا تھا کہ فہد کا ہر تصور ہر خوش فہمی “بالکل ریت کے اس گھر کی مانند ہو، جسے بچے بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر جب دل بھر جاتا ہے تو ایک ہی ٹھوکر میں اسے تہہ و بالا کر دیتے ہیں”
یا یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ماہ جبیں واقعی اس کے لئے تڑپ رہی ہو۔ کیا پتہ یہاں تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہو۔ بہرحال اس بات کا جواب تو وقت ہی دے گا کہ ماہ جبیں کے دل میں وہ بس پایا تھا یا نہیں۔

لیکن فہد کی حالتِ دل کی گواہی وقت دے چکا تھا۔ فہد بخار میں پڑا تڑپ رہا تھا لیکن اس کی زبان پر اپنی ماہ جبیں کا نام تھا۔ اس کے خیالوں پر اس کی ماہ جبیں چھائی ہوئی تھی۔ ہاں! فہد اپنی ماہ جبیں پر مر مٹا تھا۔ وہ اپنی ماہ جبیں سے پاک اور سچی محبت کرنے لگا تھا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply