سوتیلی بیوی(قسط 1)۔۔محمد خان چوہدری

پیش لفظ
” زر، زن اور زمین “
انسانی تاریخ میں مصدقہ امہات الفساد تو یہی تین ، زر ،زن اور زمین ہیں۔۔زر وہ جو بندے  کے پاس ہے، زن وہ جو اسکے ساتھ ہے اور زمین وہ جس پر اس کا قبضہ ہے۔
ہمارا نہ تو کوئی  دانش مند ہونے کا دعویٰ  ہے نہ ہی ہم تاریخ دان ہیں۔
لگ بھگ نصف صدی میں جو حالات دیکھے ان سے جو تھوڑی بہت سمجھ آئی  اس کے بل بوتے پر کاوش ہے کہ ان تینوں سے نمو پانے والی سماجی چپقلش، جھگڑے اور خاندان میں مخاصمت کے اسباب پر بات کی جائے۔پنجاب کی رسومات، روایات اور ان تینوں سے جڑی بندشیں سمجھنے کی کوشش بھی ہے۔

انگریز سرکار نے جنگ آزادی ،یا غدر کے بعد پنجاب پر قبضہ مستحکم کیا، نہری نظام، ریلوے اور دیگر تنصیبات ،راولپنڈی میں ناردرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر، مختلف شہروں میں چھاؤنیاں اور سرکاری املاک بنا دیں، لیکن مغلوں کے بنائے زمین کے بندوبست ، محکمہ مال میں پٹواری، گرداور، لٹھا، خسرہ، کھیوٹ، شاملات ، سکنی، چائی، مزروعہ، بنجر قدیم غیر ممکن حصہ داران و دیگر اصطلاحات کو بدلنا تو درکنار انکے نعم البدل بھی نہ بنا سکے، نہری نظام میں مربعے بنائے گئے ، شمالی پنجاب میں تو یہ نظام بن ہی نہیں  سکتا تھا، نہری مربعے تو گھوڑی پال، مزارات، کے طور زمین اپنے وفاداروں کو الاٹ کیں لیکن پوٹھوہار اور ملحقہ علاقے میں بخشش کے لئے یہاں چنیدہ معاونین کو سردار کے لقب اور بیس، پچیس گاؤں کا چارج دیا گیا، پرانے محکمہ مال کے مروجہ ریکارڈ میں زمین کی ملکیت اور کیفیت بدستور رہی،ایوب خان کی زرعی اصلاحات میں اشتمال کا ڈول ڈالا گیا جو یہاں ناکام رہا، زمینداروں نے بڑے رقبے خاندان اور مزارعوں کے نام کرتے بچا لئے۔ سرکار نے ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبے کی مزید تقسیم اور انتقال پر پابندی لگا دی۔یہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی جائیداد کے لئے ، ایویکیو پراپرٹی ٹرسٹ، اینیمی پراپرٹی بورڈ جیسے محکمے بن گئے۔

بھارت سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے کلیم طے کرنے اور انکی خرید و فروخت سے متروکہ جائیداد میں اب سکنی اور کمرشل پراپرٹی بھی زد میں آ گئی، لیکن مغلوں ، خاص طور پر اکبر بادشاہ کے معاونین بیرم خان ٹوڈر مل اور دیگر کا مرتبہ محکمہ مال یہ سب جھٹکے برداشت کر کے بھی ابھی تک فعال ہے اور جھگڑے نپٹانے کی آخری پناہ گاہ ہے، بنیادی طور پر ہر صوبے کی سرکاری زمین اسی صوبے کی ملکیت ہوتی ہے، جسے وہ ضرورت کے مطابق اداروں اور افراد کو ملکیت تفویض کرنے کی سرکار مجاز ہوتی ہے،الغرض یہ طے ہے کہ جہاں زر اور زن منقولہ ملکیت ہیں وہاں زمین غیر منقولہ ہے، اس پر فائق حق موجودہ قابض کا ہی تصور کیا جاتا ہے ،مثل مشہور ہے کہ زمین پر قبضہ نوے فیصد ملکیت ہے۔ان حقائق کے پیش نظر ہم یہ کہانی “سوتیلی بیوی” مترئی رن، ایک تمثیل کی شکل میں پیش کرنے جا رہے ہیں۔

دوبارہ وضاحت کر رہے ہیں کہ ہم نہ تاریخ دان ہیں نہ ہی زمین سے جڑے امور کے ماہر ہیں۔یہ کہانی لکھنے کا مقصد اس بیک گراؤنڈ کو قلمبند کرنا ہے کہ نئی نسل اس سے آگاہ رہے،نوے فیصد خاندانی جھگڑے جو قتل اور طلاق پر منتج ہوتے ہیں ان کی اصلیت سے روشناس ہو،امید ہے احباب اسے اصلاح کی کاوش کے طور پڑھیں گے اور بھول چوک کی نشاندہی بھی کریں گے۔

الاحقر۔ محمدخان

سوتیلی بیوی

ایک باوا جی فرمایا کرتے تھے کہ دسواں پہاڑہ سب سے آسان ہے لیکن یہ دھنی واس اسی پر پہنچ کے پھنس جاتے ہیں۔اسے کراس اور پاس کر لیں تو انہیں سولہویں تک جانے سے کوئی  روک نہیں سکتا ، چوہدری فیروز خان گھکڑ تو میٹرک ہونے کی تیاری میں تھا لیکن بڑے باوا جی نورخان گھکڑ بیمار ہو گئے، انکی بیوی فوت ہوئے سال گزر چکا تھا ، انکی دیکھ بھال اب اکلوتے بیٹے کے ذمہ تھی دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں ، بابا نوکروں کے حوالے   کرنا معیوب تھا۔

پہلا کام بابے کو کھُوہ والے ڈیرے سے واپس شہر والی حویلی میں شفٹ کیا، بابا یوں تو اٹھنے بیٹھنے سے عاری تھا،لیکن ڈاکٹر کو دکھانے اور ہسپتال داخل ہونے سے انکاری تھا ۔اسکے حکم پہ  حکیم کو بلوایا گیا، جس نے دو دن معجون، کُشتہ اور عرق دیئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ کہ ساری دوائیاں آنتوں سے ہوتی پانی کی طرح پاخانے میں بہنے لگیں۔چارپائی  کی بنُائی  کاٹی گئی ،ادوائن سے باندھی اور نیچے ریت ڈال کے ترامی رکھی گئی۔

فیروز خان نے حکیم کو اس کی حکمت سمیت گھر سے نکالا۔ دو تین بالٹیاں گرم پانی لیا، دو نوکر ساتھ رکھے اور بابا جی کو اچھی طرح نہلا کے دھو ڈالا، نوار کی چارپائی  پر کپڑے  بدل کے نئے بستر پہ  لٹایا، بڑی بہن پہنچی تو فیروز سائیکل پہ  سول ہسپتال گیا، بڑے ڈاکٹر کو صورت حال  بتائی۔ ۔اسے ڈسپنسر کے ہمراہ گھر لے آیا۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ کہانی انجام پر ہے، لیکن مریض کو پُرسکون رکھنے کو آدھا انجکشن لگایا، ساتھ ایک انجکشن توانائی  بحال کرنے کو بھی لگا دیا، چھوٹے پیشاب کے لئے ٹیوب لگا دی اسکی نکاسی کو بالٹی رکھی گئی۔
یہ حالت کتنے دن رہی یہ راز ہے، بابا جی راضی برضا فوت ہو گئے۔

چوہدری فیروز کی عمر اندازہ ہے بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ باپ کا سایہ سر سے ہٹتے فیروز ایک ذمہ دار جوان ہو گیا۔جنازہ تجہیز و تکفین ، سوئم چوتھا اور چالیسواں سارے فنکشن جن میں علاقے بھر سے معززین جمع ہوتے ،بہت منظم طور  پر ہو گئے۔ چوہدری فیروز کی دستار بندی ہوئی  اور زمینداری کا بوجھ اس کے سر آ گیا۔
اگلے دو سال مویشیوں کی دیکھ بھال، نوکروں سے سارے کام کرانے ، آیا گیا دیکھنا، تو پرانی روٹین پر چلتا رہا ،بڑا اور مشکل کام بابے کے نام پر موجودہ مزروعہ اور بنجر زمین بشمول شاملات دو کھُوہ ان سے ملحق چاہی زمین غرض جائیداد غیر منقولہ کے محکمہ مال میں انتقال درج کرانے تھے۔

خوش قسمتی سے پٹوار کے حلقے میں تعینات ہونے والا نوجوان پٹواری فیروز کا دوست اور اس کا معاون ریٹائرڈ بزرگ پٹواری بابے مرحوم کا پروردہ تھا، یہ فیصلہ تو پہلے ہی کیا گیا کہ یہ کاروائی  مخفی ہو گی، پبلک نہیں  کی جائے گی۔باوا نور خان گھکڑ مرحوم نے محکمہ مال کے تعاون سے جو ہاتھ مارے ہوئے تھے، ان کو جوں کا توں رکھنا ضروری تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments