• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جلتا کشمیر اور حکومت پاکستان کی پھونکیں۔۔۔محمد منیب خان

جلتا کشمیر اور حکومت پاکستان کی پھونکیں۔۔۔محمد منیب خان

“مسئلہ کشمیر” آج کا مسئلہ نہیں یہ بہتّر سال پرانا مسئلہ ہے اور کشمیر کے باسی گزشتہ بہتّر سال سے اپنے حق خود ارادیت کے لیے اقوام عالم کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کی آواز بنا۔ پاکستانی عوام کی کشمیر اور کشمیریوں سے محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہندوستان سے لڑی جانے والی تینوں بڑی جنگوں کو سلگانے والا بھی مسئلہ کشمیر کا دہکتا انگارہ ہی تھا۔ کشمیر اور کشمیریوں سے محبت ہمیں درسی کتب کے ذریعے گھول کر پلائی گئی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب پاکستان ٹیلی ویژن واحد چینل ہوتا تھا اس وقت رات نو بجے کے خبرنامہ میں روزانہ کشمیر کا سیگمنٹ شامل ہوتا تھا۔ جس میں کشمیر کی صورتحال پہ باقاعدہ رپورٹ مرتب ہوتی تھی۔ پی ٹی وی کا مشہور زمانہ گیم شو، نیلام گھر جو بعد میں طارق عزیز شو کے نام سے ٹی وی پہ چلتا رہا اس کے میزبان محترم طارق عزیز (اللہ ان کو صحت عطا کرے) کسی بھی حوالے سے پروگرام میں کشمیر کا نام آتے ہی یہ شعر ضرور پڑھا کرتے تھے۔

یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت

جنت کسی کافر کو ملی ہے نا ملے گی

چینلوں کی بھرمار ہوئی تو اس لگن کے ساتھ کشمیر کا کیس پیش ہونا بند ہو گیا شاید پی ٹی وی  پہ اب بھی ایسا ہوتا ہو لیکن باقی  نیوز چینل کے پاس شاید ائیر ٹائم میں اتنی جگہ نہ رہی۔ اور کسی گیم شو میں اب کوئی طارق عزیز جیسا باذوق میزبان نہیں بچا۔
اس کشمیر جنت نظیر کا امتحان ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ کشمیریوں کی بہتّر سالہ جدوجہد ہر چند سال بعد ایک ایسی  ہی انگڑائی لیتی ہے جس سے امید کے سارے دیے روشن ہو جاتے ہیں اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہی “میک اور بریک” کا لمحہ ہے۔ لیکن پھر یہ معاملہ کسی طرح وقت کی گرد میں اقوام عالم کی بے اعتنائی سے دب جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اس سال اگست سے پہلے آخری بار مجاہد برہان وانی کی شہادت سے دنیا بھر کی نظروں میں آیا۔ برہان وانی کشمیر کا پہلا شہید نہیں تھا لیکن وادی کا بیٹا اپنی قربانی سے اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑ گیا اور کشمیر کا مدفون کیس جھاڑ کر دوبارہ اقوام عالم کے سامنے رکھ گیا۔ اس سے پہلے بھارت پاکستان پہ کشمیر میں دراندازی کا “الزام” عائد کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی کشمیر میں پراکسی اپنی جگہ لیکن برہان وانی کی شہادت نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ آزادی کی جنگ کشمیریوں کی اپنی جنگ ہے۔ برہان کے گاؤں والوں نے اس کی شہادت کی لاج رکھی اور مئی میں منعقدہ بھارتی الیکشن میں برہان وانی کے گاؤں سے کسی شخص نے اپنا ووٹ نہیں ڈالا۔

اس وقت کشمیر میں کیا سماں ہے۔ اس کا اندازہ محض ان باتوں سے کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں پانچ اگست سے لگائے جانے والے کرفیو کے بعد سے موبائل، انٹرنیٹ، ٹی وی اور حتی کہ زمینی فون بھی منقطع ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ پُر تشدد کاروائیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حریت قیادت کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سابقہ کٹھ پتلی حکمران بھی نظر بند ہیں۔ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی کو سری نگر ائیرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ بی بی سی سمیت نشریاتی ادارے انسانیت سوش مظالم پہ ڈاکومنٹریز دیکھا رہے ہیں ۔ لیکن عالمی امن کے ٹھیکیدار لمبی تان کر سو رہے ہیں۔اس حالیہ جبر و استبداد کے خلاف پاکستان ایک بار پھر اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کی حکومت سفارتی سطح پہ متحرک ہے۔ لیکن چند سال سے معاشرے میں گہری ہوتی سیاسی تقسیم حکومت کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

میں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی وساطت سے دو سوالات اٹھائے۔

1: اگر اس وقت تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو وہ ایسے کونسے اقدامات کرتے جو موجودہ حکومت نہ کر سکی؟

2: اگر اس وقت عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو کیا وہ حکومت کے موجودہ اقدامات سے خوش ہوتے؟

کوئی بھی ذی شعور اگر اس بات پہ دیانتدارانہ رائے قائم کرے گا تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ اگر اس وقت کسی اور جماعت کی بھی حکومت ہوتی تو سفارتی سطح پہ کم و بیش یہی کچھ ہو رہا ہوتا۔ خارجہ امور کبھی بھی کلی طور پہ سیاستدانوں کے اختیار میں نہیں رہے۔ لہذا یہی بھاگ دوڑ وہ جماعتیں بھی کر رہی ہوتیں۔ البتہ ماضی قریب کے کسی حکمران کی نسبت عمران خان زیادہ بڑ بولے اور پُر تیقن لہجے کے مالک ہیں لہذا وہ ہر تقریر میں اپنے مزاج کے مطابق زیادہ بولتے ہیں۔ سو وہ کشمیر کے حق میں اور مودی کے خلاف بھی زیادہ بول رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف اگر اس وقت عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو یقیناً اور اس وقت کے وزیر اعظم کو مودی کے یار کا سرٹیفیکٹ تھما چکے ہوتے مزید وہ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں بارے جذباتی رائے بھی قائم کر چکے ہوتے۔ وہ شاید اس وقت کو کلبھوشن کی پھانسی کے لیے بھی مناسب تصور کرتے۔ لیکن کم از کم مسند اقتدار نے ان کی طبعیت میں کچھ ٹھہراؤ پیدا کر دیا ہے۔ اور اب وہ اس قسم کے بیانات سے گریز پا ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں کم و بیش تین ہفتوں سے لگے کرفیو کے بعد پاکستان کی حکومت نے بالآخر احتجاج کی کال دی۔ عوام نے اس کال پہ لبیک کہا۔ لوگ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر باہر نکلے۔ احتجاج موثر رہا دنیا نے پاکستانیوں کی کشمیر کاز سے یک جہتی کو دیکھا لیکن میں ابھی تک اس تذبذب کا شکار ہوں کہ اس احتجاج میں سڑکیں بند کر کے ٹریفک روکنے کی بھلا کیا منطق؟ ۔۔جب اداروں اور تنظمیوں کی سطح پہ لوگ بھر پور طریقے سے اکٹھا ہو رہے ہیں تو مسافروں کو اس گرمی میں آدھ گھنٹہ بیچ سڑک میں روکے رکھنے کی منطق سمجھ سے بالا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس نکتے پہ غور کرے۔ ٹریفک کو روکنا کسی طور مناسب نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری طرف میں ورطہ حیرت ہوں کہ کشمیر کاز سے وابستہ بہت سی تنظیمیں  اس وقت سامنے نہیں۔ ان تنظیموں کا ماضی میں کیا کردار رہا ؟وہ لوگوں کی کیا اور کیسی ذہن سازی کرتی رہیں ؟۔۔یہ الگ معاملہ ہے۔ لیکن یکدم ان کا سامنے سے ہٹ جانا، ان کی پہلی، دوسری  اور تیسرےسے چوتھے درجے کی لیڈر شپ کا بھی منظر سے غائب ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ دفاع پاکستان کونسل تو بنائی ہی کشمیر کے مسئلہ پہ تھی۔ انڈیا کے عالمی سطح پہ مضبوط سفارتی تعلقات کو بھانپتے ہوئے میرا خدشہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ دورہ امریکہ میں شاید ان کو بھارت کے اقدام کی خبر دے دی گئی ہو گی۔ کیونکہ میں نے حالیہ تاریخ سے یہی سیکھا ہے کہ انسانی حقوق کی کوئی بھی خلاف ورزی اس وقت تک اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو نہیں جھنجھوڑتی جب تک کہ اس پہ امریکہ مضطرب نہ ہو۔ لہذا امریکہ کا سکون اور نیم سکوت ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس بارے کچھ نہ کچھ خبر رکھتا تھا۔ پھر عمران خان کے ساتھ ہونے والی میڈیا ٹاک میں ٹرمپ نے مودی کی طرف سے ثالثی کروانے کا خود ذکر کیا۔ اس دورے کے بعد پاکستان میں  آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہوئی۔ یقیناً اس میں افغانستان میں جاری امریکی کشمکش ایک بڑا فیکٹر ہے لیکن انڈیا اور کشمیر کا معاملہ بھی پس پشت نہیں ڈالا  جا  سکتا۔ دوسری طرف اب حکومت پاکستان کشمیریوں کے لیے”حق خود ارادیت” کا لفظ کم کم استعمال کر رہی ہے۔ جمعہ کو ہونے والے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے سارا زور اس بات پہ رکھا کہ اگر مودی نے آزاد کشمیر میں کوئی شرارت کی تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ لہذا یہ سب نقطے ملاتے جائیے۔ ہر جمعہ کو آدھ گھنٹہ احتجاج کرتے رہیں ممکن ہے اس سے اقوام عالم کا ضمیر جاگ جائے ورنہ کم از کم کشمیری  بھائیوں کو تو یک جہتی کا پیغام پہنچ جائے گا۔ لیکن شاید یہ پھونکیں کشمیر کی آگ نہیں بجھا سکیں گی۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply