کہانی اک ادھوری ملاقات کی

حضرت ذوق نے کسی ہمدم دیرینہ کے ملنے کو ملاقات خضر ومسیح سے زیادہ بہتر قرار دیا تھا۔خضرومسیحا سے ملنا بھی ایمان افروز ہوگا ،لیکن چونکہ ہمیں اس کا تجربہ نہیں اس لئے راوی اس حوالے سے خامہ فرسائی کرنے سے عاجز ہے،لیکن دوستوں سے چونکہ ملاقاتیں وقت بے وقت ہوتی رہتی ہیں اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ دوستوں کی محفل میں گزارے لمحے زیست کا حاصل ہیں۔
بات بچپن سے شروع کرتے ہیں ۔سودا سلف کے ساتھ آنے والے اخبارات کے ٹکڑوں کوپڑھنے کی لت لگ گئی۔اگلے ’’اخبارات‘‘ کے آتے آتے جو مہینوں بعد ہی آتے ہم پہلے والی خبروں اور مضامین کو اتنی بار پڑھتے کہ زبانی یاد ہوجاتے۔یہ سلسلہ مدتوں چلتا رہا۔کبھی سالم اخبار نصیب نہ ہوا۔اسکول پہنچے تو معلوم پڑا کہ بچوں کے رسالے بھی شائع ہوتے ہیں۔خدایا یہ کس امتحان میں ڈال دیا۔مبلغ پندرہ روپے پاکستانی سکہ رائج الوقت کا یہ رسالہ ملتا،جسے ہم صرف کتابوں کی دکان پہ آویزاں ہی دیکھ پاتے۔
اس مشکل کا حل ہم نے یہ نکالا کہ اپنا ’’کاروبار‘‘ شروع کردیا۔گاوں والوں کی مرغیاں شہر میں لے جاکر بیچنے کا کاروبار،جس میں ہمیں مخصوص ’’کمیشن‘‘ ملتا۔ گو اس کاروبار میں ہمارے کپڑے اور ’’وقار‘‘ ہمیشہ داغدار ہوتے لیکن رسالے کی محبت میں ہم یہ بھاری پتھر بھی اٹھائے پھرتے۔مرغیاں اٹھائے جب ہم رسالے بیچنے والے کی دکان کے سامنے سے گزرتے تو دل کرتا مرغی اس کم بخت کو پکڑائیں اور رسالہ لے کے گاوں دوڑ جائیں لیکن پھر گاوں میں جو درگت بنتی اس کے تصور سے ہم ڈرجاتے اوردیانت داری کے ساتھ مرغیاں بیچنے پر توجہ مرکوز کرلیتے۔قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا ،آخر ہم رسالہ خریدنے میں کامیاب ہوئے اور جب لکھنے والوں کی تصویریں دیکھیں تو ہمارا بھی دل للچایا کہ لکھا جائے،مگر لکھنے کے لئے تو پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے جبکہ ہم نے میٹرک کا امتحان ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے دیا تھا۔
میٹرک کے بعد خوش قسمتی سے ہم پنجاب آگئے۔لائبریریوں تک رسائی ہوئی۔بیسیوں اخبارات مطالعہ کے لئے مہیا تھے۔ایک سے بڑھ کے ایک کالم نگار کو پڑھا اور ان کی محبت میں گرفتار ہوئے۔بڑی تگ ودو کے بعد اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کے ایڈریسز حاصل کئے اور انہیں خطوط لکھے مگر جواب ندارد۔پھر ہم نے سوچا یہ مصروف لوگ ہیں کیسے اس دور میں ’’لفافہ‘‘ خریدنے جائیں سو ہم نے اگلے خطوط جوابی لفافوں کے ساتھ ارسال کئے مگرجواب آج تک نہیں پہنچ پائے۔خوش گمانی کہتی ہے کہ محکمہ ڈاک کا دوش ہوگا مگر دل کچھ اور کہتا ہے۔دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں۔جب ہم نے یہ بیل منڈھے چڑھتے نہ دیکھی تو سوچا کیوں نہ اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کو ’’برقی خطوط‘‘ لکھے جائیں۔مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں ای میل کرنی نہیں آتی تھی۔ایک مہربان کو پکڑا کہ یار ای میل کرنی سکھا دے رام بھلی کرے گا۔آج سوچوں تو دیوانگی ہی لگتی ہے بلکہ بے وقوفی لیکن پہلی ای میل اس احقر نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو کی تھی کہ آج جن کا نام لینے کے بھی ہم روادار نہیں۔خلاصہ یہ کہ یہ مہم بھی ناکام ہوئی اور ہم نے بھی اپنے ’’پسندیدہ‘‘ لکھاریوں پر چار حرف بھیجے۔
مدتوں بعد ہمیں سماجی ذرائع ابلاغ بارے بھنک پڑی۔فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی ہمیں وہی لوگ نظر آئے جن پر ہم چار حرف بھیج چکے تھے لیکن دل میں دبی محبت نے جوش مارا ۔خلاصہ یہ کہ پھر چار حرف بھیجنے پڑے۔اللہ بھلا کرے انٹرنیٹ کا کہ اس پر بلاگنگ اور پھر ویب سائٹس کا دور دورہ ہوا۔فیس بک پرلکھاریوں کی بہار آگئی۔رنگا رنگ لکھاری اور رام بھلی کرے بالک مارک زاکربرگ کا کہ جس نے کمنٹ کا آپشن بھی ساتھ ہی دے دیا کہ جو منہ میں آئے لکھو اور اپنے من بھاتے لکھاریوں سے ہمکلام ہوجاو۔
فیس بکی لکھاریوں کی کوکھ سے ہی ’’ہم سب‘‘ کی پیدائش ہوئی۔یہ ویب سائٹ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگئی اور بھانت بھانت کے لکھاری یہاں نظر آنے لگے جن میں قدر مشترک ان سب کی دھانسو تحریر تھی۔یہاں پھر سے بچپن کی ناآسودہ خواہشیں سر اٹھانے لگیں۔لکھنے والوں سے پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کیں اور ہمیں حیرانی ہوئی کہ یہ لوگ جواب بھی دیتے ہیں۔یہاں لکھنے والوں کی اکثریت سے اک معمولی ہی سہی اک ذاتی تعلق بھی ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی لائنیں گھسیٹنی شروع کردیں۔بھگوان ان سب پر اپنی کرپا کرے۔
وکیل بابو المعروف انعام رانا حال مقیم لندن سے بھی ہمارا ابتدائی تعارف یہیں ہوا۔جس دن پہلا انباکسی ٹاکرا ہوا تو شکوہ کرنے لگے کہ آج سے پہلے ہم کیوں نہ ملے۔انعام رانا صاحب مدیر وبانی مکالمہ ہیں۔جب ویب سائٹ پیدائش کے ابتدائی مراحل طے کررہی تھی تو انعام رانا اور مجاہد حسین صاحب نے فقیر کو باقاعدہ گھیر کر اس ٹیم کا حصہ بنایا۔بننے کو تو ہم بن گئے اور لکھنے بھی لگے لیکن بعض فنی مشکلات کی وجہ سے وہ مقام بھی آیا جب ہم نے اس سفر کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔مدیر موصوف بھاگتے بھاگتے انباکس میں پہنچے کہ بھیا کدھر؟جواب آں غزل کے طور پر ہم نے سہ غزلہ لکھ ڈالا۔جناب نے جب وضاحتیں دینی شروع کیں تو الٹا ہم شرمندہ ہونے لگے کہ ہم بدظنی کے ماونٹ ایورسٹ پہ بیٹھے ایویں ہی مدیر صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے جبکہ مدیر صاحب ہمیں روک روک وضاحتیں دے رہے تھے اور ابھی نہ جاو چھوڑ کر کی تصویر بنے ہوئے تھے۔خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہم نے تو سنا تھا موصوف خودسر ہیں یہ تو باقاعدہ محبت کرنے والے انسان ہیں۔خیر جانے کی باتیں جانیں دیں اور مکالمہ کا حصہ بن گئے۔
کانفرسوں کی وبا ابھی عام نہیں ہوئی تھی بلکہ شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک دن بیٹھے بٹھائے مدیر صاحب کو ایک نیا شیطانی خیال آیا کہ کیوں نہ ایک عدد کانفرنس ہم بھی کھڑکا ڈالیں۔پلان بن آگیا مدیر صاحب کو یاد آیا کہ کانفرنس اگر لاہور میں ہے تو مجھے بھی پاکستان جانا ہوگا۔یوں مدیر موصوف پاکستان تشریف لے آئے۔”کانفرنسیں کونفرنسیں” بھگت گئیں اور ہم حسب روایت نہ پہنچ سکے تو بعد میں ملاقات کی درخواست کی کہ یا شیخ شربت دیدار ہی پلا دو۔
ملاقات کا دن طے ہوا تو کچھ مولویوں کو فکر ہوئی کہ اسلام خطرے میں ہے کیوں نہ اسلام بچاو ریلی نکالی جائے اور یوں ہماری ملاقات ایک ایسے تاریخی دن میں بدل گئی جس دن مجاہدین نے کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔راستے بند تھے لیکن دھن پکی ہو تو راستہ مل ہی جاتا ہے۔وقت مقررہ پر ہم مقررہ جگہ پہنچ ہی گئے۔سلام دعا کے بعد ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ محفل میں چند اور لوگ بھی موجود ہیں۔پتہ چلا ان میں سے جو زیادہ بول رہے ہیں وہ “مدیر صیب “کے استاد محترم ہیں۔اللہ آپ پڑھنے والوں کو انصاف کی توفیق دے۔اس تین گھنٹے کی محفل میں،میں اور رانا صاحب بس ہونقوں کی طرح سنتے ہی رہے۔استاد محترم جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوتے رہے۔سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے رہے مگر ان کی گفتگو میں مجال ہے کوئی فرق آیا ہو۔ادب سے لیکر سیاست تک استاد صاحب موتی ارزاں کرتے رہے۔استاد صاحب سے بہت کچھ سیکھا،لیکن ملاقات نہیں ہو پائی،یعنی مدیر صیب سے۔
جب محفل برخاست ہوئی تو میں اور مدیر صاحب ایک دوسرے کو اتنا ہی جانتے تھے جتنا انباکسی دعا سلام سے جانا جا سکتا ہے۔مجال ہے جو تعارف آگے بڑھا ہو۔جب ہم الوادع ہونے لگے تو مدیر صاحب سے عرض بھی گزاری کہ سائیں جانے سے پہلے ایک عدد اور جام دیدار پلائیے گا،کہ آج تو ہم اتنے سارے مصائب سے گزرکر آپ کے استاد محترم سے ہی ملنے پہنچے تھے،جس پہ وکیل بابو نے جاوید چوہدری مارکہ قہقہہ مارتے ہوئے ہمیں گلے لگایا اور وداع ہوگئے۔تفنن برطرف اس ملاقات میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔رانا صاحب نے ہمیں سندھی جانتے ہوئے چائے کے دو عدد کپ پلائے اور ثبوت بہم پہنچایا کہ ہمیں سندھیوں کی مہمان نوازی کرنی آتی ہے۔سندھ میں اگر آپ مہمان کو صدہا قسم کی مرغن غذائیں کھلائیں اور چائے نہ پلائیں تو سمجھیں آپ نے مرغن غذائیں برباد ہی کیں۔”مدیر صیب “سے جاتے جاتے ہم نے رسالہ مکالمہ کی پانچ عدد کاپیاں بھی ہتھائیں۔آباد رہے ساقی صدیوں تیرا میخانہ
حق تعالیٰ “مدیر صیب” کو جیتا رکھے اور ان کے معنوی بچوں یعنی تحریروں کو یونہی قبول عام اور شہرت دوام بخشتا رہے۔”مدیر صیب “آپ سے مل کے جی خوش ہوا۔یونہی آباد رہیں اور ہنستے بستے رہیں۔
جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply