ملالہ

کسی مخصوص نظرییے سے انسلاک واقعات اور نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور اس کی مثالیں روزمرہ زندگی سے لے کر عالمی قوانین اور فیصلوں تک ہم دیکھ سکتے ہیں. نظریات اور تسلیم شدہ معتقدات سے بالاتر ہوکر کسی واقعے کا معروضی جائزہ ہی دراصل درست نتیجے تک پہنچانے کا ضامن ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے.
ملالہ یوسف زئی قدامت پسندوں اور جدت طرازوں کے مابین ایک خط فاصل کا استعارہ ہی نہیں ایک واضح لکیر بھی بن چکی ہے قدامت پسند حلقہ گولی لگنے کو تشکک کی نذر کردینے سے ملالہ یوسفزئی کے نوبل انعام اور پاکستان آمد کی اطلاعات تک کو شک اور سازش کی نگاہ سے دیکھنے پر اصرار کرتی ہے.
جب کہ “عقل میرا امام آخری آخری” کے حواری اور اشیاء کو الہامی ہدایات سے توڑ کر زمینی حقائق پر پرکھنے والے احباب شدت سے ملالہ یوسف زئی کے گولی لگنے سے نوبل انعام تک ہر بات میں ملالہ کی اہلیت، استحقاق اور مظلومیت پر ایمان بالغیب رکھ رہی ہے.
ان دو شدتوں کے بیچ، دونوں رویوں سے زک گزیدہ اور نظریاتی سطح پر کورے کاغذ کی مثال رکھنے والا شخص ملالہ کی وہ خدمات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ملالہ کی عالمی سطح پر شہرت اور ناموری کا ذریعہ بنتی ہیں. سوائے چند اوراق کی ڈائری کے جس پر قدامت پرست حلقے کا اصرار ہے کہ ملالہ کی اپنی لکھی ہوئی نہیں ہے.
اگر ہم مباحثہ سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھانی ہے ہے کہ ملالہ کی ڈائری ملالہ کی تصنیف ہے بظاہر اس میں کوئی اشکال بھی نہیں آزادی کی معصوم خواہش ہر انسان میں موجود ہوتی ہے اور ملالہ کی عمر کی بچیوں پر اگر قوت حاکمہ بن کر حجاب و قیود مسلط کی جائیں تو رد عمل میں جو لکھا سامنے آئے گا وہ وہی ہوگا جو ملالہ نے تحریر کیا. پختون ثقافتی نکتہ نگاہ اور ہمہ پہلو تفکر سے عاری وہ ڈائری ایک گھٹن زدہ بچی کی دل کی آواز محسوس ہوتی ہے لیکن یہ سوال اپنے پیچھے شک کی ایک مدہوش کن مہک چھوڑتا ہے کہ آیا ملالہ کی ڈائری کا تاثراتی اور بیانیہ انداز اس قدر شدید تھا کہ اس کی پذیرائی ملالہ کے پورے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دے..؟
اس کا جواب ہم قاری پر چھوڑتے ہیں.

خوش گوار حالات تخلیق کیلئے موت ہیں جبکہ کاو کاو حیات بہترین تخلیق کا محرک….
ملالہ کے مصائب جیسے مصائب سے پاکستان جیسے ملک میں کئی بچے گزرتے ہیں ان کے کارنامے لیکن عالمی نہیں ملکی میڈیا میں بھی وہ جگہ نہیں بنا پاتے کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ملالہ کی مخالفت ایک مخصوص طرز تشریحِ مذہب کی ضرورت تھی یا پھر ملالہ کی آواز عالمی طاقتوں کو اپنے عزائم سے مماثل نظر آئی.
ملالہ کی مشہور کتاب بھی “میں ملالہ ہوں” بھی ملالہ کی ذاتی تصنیف نہیں بلکہ اس میں ملالہ کا کردار فقط ایک راوی کا ہے جس کو قلمایا مشہور قلمکار کرسٹینا لیمب نے ہے.
پاکستان میں ملالہ کی پذیرائی کا ایک ممکنہ سبب یہ ہوسکتا تھا کہ اقوام متحدہ کی سفیر بننے کے بعد ملالہ اپنے ملک کے متنازعہ امور مثلا کشمیر اور آبی قلت کیلئے آواز اٹھاتی. لیکن یہ بھی نہ ہوسکا.
کسی بھی کیمپ سے غیر متاثر شخص کے یہ سوالات اپنا وجود رکھتے ہیں جن کے جواب ملالہ کے حامی اور مخالف کے ذمے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

شاد مردانوی

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ملالہ

  1. حضرت شاد مردانوی کیسی بات کرتے ہیں!
    جناب ملالہ یوسفزئی کوشہرت ملنے پیچھے مخصوص مائنڈ سیٹ کیسے ہو سکتا ہے کیا آپ ملالہ کے کام سے واقف نہیں ہیں؟
    ملالہ گولی لگنے سے پہلے بھی پاکستان امن ایوارڈ حاصل کر چکی تھیں، طالبان نے انہیں گولی نو اکتوبر 2012 کو ماری تھی. کیا آپ نے ان کے سن 2010 کے انٹرویو نہیں دیکھے؟
    سن 2011 کا یہ انٹرویو بھی نہیں دیکھا جو جیو نیوز کو دیا گیا؟ لنک حاضر ہے
    https://youtu.be/ziePTRHCrQU

Leave a Reply