اقبال کا فی میل شاہین

اسما مغل
اگرچہ سکول کے دنوں میں ہم پر زیادہ پابندیاں تو نہیں تھیں لیکن پھر بھی مرغیوں کی طرح کڑیوں بالیوں کو بھی کہیں نہ کہیں سے تو ڈکنا ہی پڑتا ہے، سو ہم پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوا۔پھر بھی ہم نظر بچا کر کبھی کوئی ایسی حرکت کر ہی لیتے جس کے جرمانے سے بعد میں استانیاں سموسے پکوڑے کھاتیں اور ہمیں مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق چارو ناچار گھر سے لایا اچار پراٹھا ہی زہر مار کرنا پڑتا اور اس وقت تو سینے پر’’ سانپ‘‘ ہی لوٹ جاتے جب جرمانہ وصولنے والی استانی صاحبہ سکول کی کینٹین سے دہی بڑے کی پلیٹ لانے کے لیئے بھی ہمیں ہی بھیج دیتیں ،واپسی کا راستہ پل صراط سے کم نہ لگتا کہ منہ سے ٹپک رہی رال بھی سنبھالنی ہوتی اور ہاتھ میں پکڑی دہی بڑو ں کی پلیٹ بھی۔راستے میں کتنی ہی ایسی ’’کڑیاں ‘‘نظر آتیں جس کے کانوں میں جھمکے لٹک رہے ہوتے اور زور و شور سے ہل ہل کر اپنے ہونے کی گواہی بھی دے رہے ہوتے تو کسی کی بازو میں کہنی تک چڑھی چوڑیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہوتیں ۔خیال آتا کہ اسمبلی میں آخر ہم ہی کیوں صیاد کے دام میں آجاتے ہیں جرمانہ بھرنے کے لیئے ؟پھر یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے کہ ’’گرتے ہیں شہہ سوار ہی میدانِ جنگ میں‘‘ خیر بات ہو رہی تھی پابندیوں کی ۔سکول میں رہتے بس ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح کا لج پہنچ جائیں ۔کیوں کہ یقین واثق تھا کہ کالج جا کر تھوری بہت تو ہِل جُل کی اجازت مل جائے گی اور روک ٹوک سے خلاصی ہوگی مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ کالج کے درو دیوار بھی ہماری سادگی دیکھ کر اپنی نادیدہ انگلیاں دانتوں میں دبا لیتے ہیں لیکن اصل سنگدل گھڑی تو وہ ہوتی ہے جب کوئی کڑی بال کھولے آنکھوں میں کاجل کے لمبے ڈورے کھینچے مدھوبالا کی بھرپور کاپی کرتی سفید یونیفارم میں ملبوس خوشبو ؤںمیں بسی ہمارے پاس سے گزر تی تو جون جولائی میں اپنے ہی کپڑوں سے اٹھتی پسینے کی بو سے دماغ پھٹنے لگتا اوردل پر آریا ں چلنے لگتیں ہیں کہ ہمیں تو اماں کی طرف سے تبت کریم لگانے کی بھی اجازت نہ تھی۔
کالج میں کچھ حسینائیں ایسی بھی تھیں جو منہ پر باقاعدہ میک اپ تھوپ کر آتیں، انہیں مکھن پسند کرنے والی استانیوں کی سر پرستی حاصل تھی یہی کڑیاں اکثر اپنی چیلیوں کے منہ پر بھی لیپا پوتی کرتی دکھائی دیتیں اور ہماری اماں کا خیال تھا کہ ہماری جلد ابھی کچی ہے رنگ و روغن سے معصومیت ختم ہو جاتی ہے اور کڑیاں بائیس سال کی عمر میں بیالیس کی لگنے لگتیں ہیں ۔بریک ٹائم میں یہی کڑیاں گروپ کی شکل میں بیٹھ کر خود کو شمیم آرا ء سمجھ رہی سہیلی کے منگیتر کے رومان پرور کم اور بیہودگی سے بھرپور اوصاف و کردار پر پڑنے والی مفصل روشنی میں اسنان کرتیں اور خشوع و خضوع ایسا کہ اگر سانس بھی لیں گی تو کہیں سب کے طوطے ہی نہ اُڑ جائیں ۔چہروں پر حسرت اور حسد کی ملی جلی کیفیت ایسی کہ کاش یہ بندہ جس کا تذکرہ ہو رہا ہےان کے سامنے ہو تو اس ہرکولیس کے لیئے سہیلی کو قتل کرنے سے بھی گریز نہ کریں ،مگر سچائی سے پردہ تب اٹھتا جب وہی سہیلی چھٹی کے وقت کالج گیٹ کے عقب میں لگے ٹرانسفارمر کی چھاؤ ں میں ایک عجیب وغریب انسان نما مخلوق کے ساتھ کھڑی شرما لجا کر دہری تہری ہو رہی ہوتی۔
جی تو چاہتا کہ بڑے بڑے پتھر اٹھا کر دور سے ہی اس کے دماغ کا نشانہ لیں پر جی مسوس کر رہ جاتیں اگلی صبح اس چھچھوندر کے بارے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تو سہیلی صاحبہ منہ مبارک کے آڑھے ترچھے زاویے بناتے ہوئے کہتیں کہ ۔۔ہونہہ!انگور کھٹے ہیں۔اور بندر کیا جانے ادرک کاسواد ۔ہمارے نزدیک بندر کون تھا یہ آپ کو بھی سمجھ تو آہی رہا ہوگا ۔خدا خدا کرکے کالج سے جان چھوٹی تو یونیورسٹی میں داخلے پر سوئی جا اٹکی ۔آنکھوں میں ہزاروں سپنے سجائے ابو جی کی انگلی تھامے یونیورسٹی پہنچے۔ گیٹ پر ہی رنگ و نور کا سیلاب امڈا آرہا تھا جس پر بند باندھنے والی بھاری نفری بھی ایک سائیڈ پر موجود تھی۔ اند ر گئے تو مانو ہماری تو دنیا ہی بدل گئی بار بار اپنے آپ سے استفسار کرتے رہے کہ آیا ہم ایک تعلیمی ادارے میں ہی آئے ہیں یا غلطی سے کسی شادی خانہ بربادی کی تقریب میں آگھسے ہیں ۔چادر کا پلو سنبھالتے آگے بڑھے ،گراؤنڈز اور راہداریوں میں کڑیوں بالیوں کے ساتھ بالے بھی مٹھائی پر گندی مکھیوں کی مانند چپکے بیٹھے تھے ۔قوی گمان تو یہی تھا کہ جگہ کی تنگی کے باعث مونگ پھلی اور شکر والی گچک بننے پر مجبور ہیں لیکن آنے والے دنوںمیں یہ عقدہ بھی خود بخود حل ہو گیا کہ یہ یونیورسٹی کی بے باک فضاؤں کا اثر ہے کہ جہاں بالی بالے کے بیچ سے ہوا بھی نہیں گزر پاتی۔
دو سمسٹر آنکھیں پھاڑے منہ کھولے حیرت کے سمندر میں غوطہ زنی کرتے بسر ہوئے ۔اساتذہ سے اچھی سلام دعا کے باعث اکثر اردو ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں بیٹھ کر کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا معمول بن چکا تھا ایک روز وہیں بیٹھے اردو کے استاد محترم نے اقبال کے شاہین کا ذکر چھیڑا تو اپنے ارد گرد بیٹھے شاہین دیکھ کر چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کودل چاہا ۔لیکن سرکار دل تو بچہ ہے جی اس کی ہر بات پر لبیک کہنا بیل کو دعوت پر بلا کر مار کھانے کے مترادف ہے۔
ایک روز گراؤنڈ میں بیٹھے گول گپے کھا رہے تھے کہ سامنے والے ڈیپارٹمنٹ کے ٹیرس کے آگے ہجوم جمع ہو گیا۔چند لمحوں بعد معلوم ہوا کہ کوئی کُڑی اپنے محبوب کی بے وفائی کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے خالق حقیقی کو پیاری ہونا چاہ رہی تھی لیکن ستیاناس ہو ان سکیورٹی گارڈز کا جنہوں نے بروقت وہاں پہنچ کر اس ’’فی میل شاہین ‘‘کو بخیرو عافیت زمین پر لینڈ کروا دیا ۔خیر بات چلتی ہوئی کچھ زیادہ ہی دور نکل آئی ہے۔ ایک سال یونیورسٹی کی مسحور کردینے والی صبحوں اور مدہوش کر دینے والی شاموں کے سنگ بتانے کے باوجود ہمارے اندر اماں کے چھتر کا خوف باقی تھا۔ مال روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھے چمڑخ سی بالی کی پنڈلیوں پر چڑھا ٹراؤزر دیکھتے تو فوراً کھڑے ہو کر اپنے پائنچے درست کرنے لگتے کلاس روم میں ساتھی کُڑی جب فیس پاؤڈر کے کیس میں جڑے آئینے کو پچھلی کرسی پر بیٹھے بالے کے تھوبڑے پر سیٹ کر کے آل ریڈی لالو لال ہوئے ہونٹوں پر دوبارہ سرخی پھیرتی تو ہمارے تو تراہ ہی نکل جاتے اور فی الفور اپنی پانی کی بوتل منہ کو لگا لیتے ۔مختلف ہیر سٹائل دیکھ کر اپنے بالوں کی نادیدہ لٹیں کس کر کی گئی چوٹی میں اڑستے رہے۔ فورتھ سمسٹڑ میں پہنچ کر تو اپنا آپ جھلا باولا سا محسوس ہونے لگا تھا اور دوستوں کا خیال تھا کہ ہم اماں فوبیا کے شکار ہیں ۔اماں کی کڑیوں کو مرغیوں کی مانند ڈک کر رکھنے کی عادت نے ہمیں کسی فیشن جوگا نہ چھوڑا تھا لیکن اب بھی یہ خیال اکثر ستاتا ہے کہ اقبال زندہ ہوتے تواپنے’’ فی میل شاہین ‘‘کی اڑان دیکھ کر ایک بار تو ان کا بھی ہاساہی نکل جاتا ۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply