خودمختار جموں کشمیر ،تجزیہ، نتائج اور اطلاق۔۔۔زاہد سرفراز

مجھ سے اکثر دوست یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر پاکستان خودمختار کشمیر کی حمایت کیوں نہیں کرتا، تو اسکی بہت سادہ سی وجہ ہے ۔۔اور وہ یہ ہے کہ اس صورت میں پاکستان اور بھارت دونوں کو کشمیر سے مکمل طور پر ہاتھ دھونے پڑیں گے اور ظاہر ہے یہ دونوں اس جنت نظیر ملک کے وسائل پر کیے گئے قبضے سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ خطہ ناصرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، بلکہ انھوں نے یہاں انویسٹمنٹ بھی کر رکھی ہے جس میں خاص طور پر گلگت بلتستان میں سی پیک منصوبہ اور ریاست میں چائنہ کی شراکت میں دیگر پاکستانی انویسٹمنٹ ہے اس کے علاوہ کشمیر کے دیگر معدنی، قدرتی وسائل اور گزر گاہوں اور معاشی منڈیوں پر قبضے سے دونوں ممالک کے مفادات وابستہ ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ شملہ معاہدے کے دوران دونوں ممالک نے آپس میں یہ بھی طے کیا تھا کہ ریاست میں اٹھنے والی ہر اس تحریک کو دونوں مل کر کچلیں گے جو انکے مشترکہ مفادات کو زک پہنچائے گی، یہی وہ وجہ تھی کہ دونوں ممالک نے ملی بھگت سے ناصرف ریاست میں چلنے والی خودمختاری کی تحریک کو کبھی منظم نہیں ہونے دیا، بلکہ کشمیریوں کو بحیثیت فریق یو این کے ایجنڈے سے ہی خارج کروا دیا تاکہ یہ دونوں ملکر ریاست کی بندر بانٹ با آسانی کر سکیں ،اس طرح یہ مسئلہ دو فریقین کے درمیان محض ایک سرحدی تنازع  بن کر رہ گیا اور یو این بھی بحیثیت ثالث اس مسئلے سے باہر نکل گیا۔

طے یہ پایا کہ یہ دونوں اپنے متنازع  معاملات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے لیکن چونکہ انکے مفادات میں ٹکراؤ موجود تھا، اس لیے ان کے درمیان کبھی بھی اس طرح اعتماد کی فضاء قائم نہ ہو سکی جس طرح کہ دو پڑوسی ملکوں میں ہونی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انکے درمیان ہمیشہ جنگی جنون موجود رہا ،اس کے علاوہ دونوں نے جو اسٹیٹ پالیسیاں اختیار کیں وہ ایک دوسرے کی مخالفت اور دشمنی پر مبنی تھیں جسکے باعث دونوں ممالک کے عوام کی ذہن سازی بھی انہی خطوط پر ہوئی جسکے نتیجے میں جب کبھی حکومتی سطح پر ان دونوں ملکوں کو قربت کے مواقع میسر آئے ،اندرونی طور پر عوام انکی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے ،اس طرح دشمنی اور قربت کی یہ آنکھ مچولی چلتی رہی ،جو بہتر سالوں پر محیط ہو جاتی ہے ،جس کا سب سے زیادہ خمیازہ کشمیری عوام کو بھگتنا پڑا ۔بے چارے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان دانوں کی طرح پستے رہے۔

بالآخر مشرف کے دور میں یہ دونوں ممالک کشمیر کی باہمی تقسیم پر رضامند ہو گئے مگر اسے پبلک کے ذہنوں میں اتارنا   ذرا مشکل تھا ،تبھی اسی اثناء میں مشرف کی حکومت ختم ہو جاتی ہے اور بے نظیر کے قتل کے باعث عوامی ہمدردی کی وجہ سے پیپلز پارٹی پاکستان میں حکومت بنا لیتی ہے، چونکہ حکمران طبقے کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے ملک معاشی بدحالی کا شکار تھا، اس لیے وہ اسٹیٹ پالیسی جو مشرف کے دور میں بنائی گئی تھی اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا ،جبکہ اسی دوران بھارت میں کانگرس کی جگہ بی جے پی حکومت بنا لیتی ہے، جسکی وجہ سے دونوں ملکوں کی اسٹیٹ پالیسی میں پھر ٹکراؤ جنم لیتا ہے، مگر نواز شریف کے حکومت سنبھالتے ہی مودی گورنمنٹ سے پھر پینگیں بڑھائی جانے لگتی ہیں، لیکن جلد ہی نواز شریف کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے اور یوں عمران خان آرمی کے کاندھوں پر سوار ہو کر پاکستان کی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے، اب یہ وہ وقت ہے جب فوج کو اپنے جرنیل کی بنائی ہوئی اسٹیٹ پالیسی پر عمل کروانا تھا مگر پھر مودی کی گورنمنٹ کا ٹائم پورا ہونے پر بھارت میں دوبارہ سے الیکشن ہوتے ہیں اور مودی پھر دوبارہ سے بھارت کا وزیراعظم منتخب ہو جاتا ہے۔ جسے منتخب کروانے میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پلوامہ اٹیک ارینج کیا جاتا ہے جسکے بعد ہلکی پھلکی سرحدی جھڑپ ترتیب دی جاتی ہے، جس میں ڈرامائی انداز میں طیاروں سے حملہ ہوتا ہے، جو طیارے گرانے اور ابھیندن کی واپسی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اسکا اشارہ نیازی صاحب کے اس فرمان سے بھی ملتا ہے کہ مودی دوبارہ وزیر اعظم بنے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا ۔چنانچہ مودی کے منتخب ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکہ سے ڈوریاں ہلائی جاتی ہیں تو انکے درمیان طے شدہ تقسیم کے فارمولے پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے، جسکے عملی اظہار میں ایک فریق کو کمزور وکٹ پر کھیلنا تھا اور ایک نے جارح کا کردار ادا کرنا تھا اور اس طرح سے مودی کی طرف سے 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد جموں لداخ اور وادی کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر دیا جاتا ہے، اور جموں کشمیر کے عوام کو مکمل لاکڈاون کر دیا گیا جبکہ پاکستان اداکاری میں مصرف ہے اور ہلکے پھلکے مضحکہ خیز احتجاج کر کے  محض پبلک کے غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ اسی دوران ریاست میں یہاں سے خودمختاری کی تحریک شروع ہو جاتی ہے جو حقیقی معنوں میں ریاستی عوام کی نمائندہ تحریک ہے، جسکی قیادت جموں کشمیر کے اصل وارثوں کے ہاتھ میں ہے، گو کہ اس تحریک کو اپنی اٹھان کیلئے ٹھوس مادی وجوہات تو وادی کی آئینی حیثیت کی تبدیلی سے ملی ہیں مگر یہ تحریک آزاد کشمیر میں منظم ہو گی جو کہ اب مکمل طور پر منظم ہو چکی ہے، جو بتدریج طاقت پکڑ لے گی جسکی کال پر سب سے پہلے وادی کے لوگ آگے آئیں گے۔ جو بعد میں جموں اور لداخ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔۔ اس تحریک میں گلگت بلتستان سب سے آخر میں شامل ہو گا مگر تب تک ریاست میں ایک متوازی انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہو گا جو بعد ازاں ریاست کی مکمل خودمختاری اور آزادی کا باعث بنے گا اور اس طرح طویل ترین غلامی کے بعد ہمالیہ کے دامن میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف جموں کشمیر کا قیام عمل میں آئے گا جو عدل و انصاف پر قائم ایک انسان دوست معاشرے اور عوامی حقوق کے مکمل تحفظ کی ضامن اسٹیٹ ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply