ہماری قیادت کو اب تو خود فریبی سے نکل کر تاریخی حقائق کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور پاکستان سمیت مسلمان ممالک کو دھوکہ دیا ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران روزانہ خبریں آتی تھیں کہ ساتواں بحری بیڑہ ہے جو پاک بھارت جنگ میں پاکستان کا ساتھ دے گا لیکن یہ ساتواں بحری بیڑہ آج تک نہیں آیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اسی طرح 1979ء سے قبل دنیا میں دو سُپر پاورز تھیں جو آپس میں دست و گریباں رہتی تھیں اور مسلمان ممالک سمیت ساری دنیا کی جان چھوٹی ہوئی تھی لیکن روس نے افغانستان پر حملے کرکے حماقت کی اور امریکہ کو بھرپور موقع دیا کہ روس کی قوت پر کاری ضرب لگا سکے اور ایسا ہی ہوا کہ امریکہ نے پاکستان میں موجود حکمرانوں، اہم اداروں، سیاستدانوں اور دینی جماعتوں کے لوگوں کے دماغوں میں یہ بات نقش کر دی کہ روس کا اصل حدف گرم پانیوں تک رسائی ہے اور وہ افغانستان کے بعد ہر صورت پاکستان پر قبضہ جمائے گا اسی لئے پاکستان کی تمام قوتیں روس کے تعاقب میں افغانستان پہنچ گئیں اور امریکہ کی جانب سے اسلحہ، ڈالر، اور ہر طرح کی کھل کر حمایت حاصل ہو گئی ،جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں موجود جہاد کے خواہش مند افراد کو پاکستان لا کر تربیت، اسلحہ، اور ڈالرز دیکر روس سے لڑنے بھیجا جاتا رہا اور امریکی جرنیل ہمارے ملک کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے طور خم بارڈر پر کلمہ شہادت کے نعرے لگا کر جوش میں مزید اضافہ کرتے رہے۔
افغان جنگ کے دوران ولی خان اور ائیر مارشل اصغر خان روس کے تعاقب کرنے اور خطے کو وسیع میدان جنگ بنانے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ امریکی مفادات کی جنگ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی اگلی چار نسلیں دہشت گردی، اسلحہ اور منشیات کا شکار بنیں گی، لیکن اس وقت انہیں روس کا ایجنٹ کہہ کر افغان جنگ کو پاکستان کی جنگ کہا گیا لیکن تاریخ کی عظیم حماقت کرنے کے چالیس سال بعد اب تمام لوگ اس جنگ کو امریکہ کی جنگ کہتے ہیں لیکن اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ نے ایک طرف تو روس کو سپر پاور سے ہٹایا اور دنیا کا ایس ایچ او بن گیا اور چن چن کر مسلمان ممالک کو تباہ کر رہا ہے تو دوسری طرف جہاد کے شوقین مسلمانوں کو پہلے جہادی پھر القاعدہ، پھر طالبان اور اب دہشتگرد قرار دیکر ان کیلئے زمین تنگ کر دی ہے۔ یہ خود فریبی کی دو مثالیں ہیں،اگر پوری پاک امریکہ تعلقات کی مکمل تاریخ لکھیں تو کتابیں چھپ جائیں۔ امریکہ کی جانب سے موجودہ والہانہ رویہ اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ امریکہ کو اب ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکہ افغانستان میں بری طرح پھنس چکا ہے اور امریکہ کو اس کمبل سے پاکستان ہی نجات دلا سکتا ہے ۔
اس کیساتھ ساتھ امریکہ ایران کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے اور یہ والہانہ رویہ اس بات کا خماز ہے کہ امریکہ ہمیں ایک بار پھر افغان جنگ کی طرح بیوقوف بنا کر ایران کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا لیکن ہماری قیادت کو امریکہ کی طوطا چشمی کو کسی صورت نہیں بھلانا چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پاکستان کو ہوا ہے لیکن پاکستان کو ہمیشہ ”ڈو مور“ ہی کا کہا جاتا ہے۔ ایران کی خارجہ پایسی بہترین ہے اور ایران نہ تو توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور نہ ہی کسی کی اجارہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اگر ایران کی خود مختار پالیسی کسی بھی اسلامی ملک کو پسند نہیں تو ہمیں ایندھن نہیں بننا چاہیے ، بلکہ تمام اسلامی ممالک کو باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر مسلم ریاستوں کو مضبوط بنانے کیلئے ایک موثر پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مسلم ممالک کی تمام سرمایہ کاری مسلم ممالک میں کرنی چاہیے۔ بہرحال ہمیں امریکہ سے ملنے والے کس بھی قسم کے ”ثمرات“ کا انتظار کرنے کے بجائے امریکہ سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے ورنہ یہ سراسر خود فریبی ہی ہو گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں