سماج (24) ۔ توسیع/وہاراامباکر

جھوٹے جتھے قبائل بنے۔ سرداری نظام قبائل کو نگل گیا، اور ساتھ چھوٹے جتھوں کو۔ پھر ریاستیں بنی اور سلطنتیں۔ پیٹرن ایسا ہی رہا ہے، لیکن بالکل یکساں نہیں۔ یہ ہمیشہ ایک سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں رہا۔ ہر جگہ پر یہ سفر ایک سا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دریائے نیل کی وادی میں قدیم مصر کی تہذیب نے قدم جمائے۔ کئی جگہوں پر عظیم سلطنتیں بنیں جو دنیا کو لپیٹ میں لیتی رہیں۔
نیوگنی کے جزیرے میں کبھی بھی ریاست وجود میں نہیں آئی۔ کوئی ایک قبیلہ اسے بزورِ طاقت مکمل طور پر فتح نہیں کر پایا۔ اور یہاں پر کبھی چھوٹی ریاست بھی نہیں بنی۔ یہاں پر پہلی بار ملک کا قیام 1975 میں عمل میں آیا جو کہ پاپوا نیوگنی کہلاتا ہے۔ لیکن اس کے بہت سے شہریوں کو یہ علم ہونے میں بھی برسوں لگ گئی کہ ایک ملک ہے اپنا وجود رکھتا ہے۔ اور وہ اس کے شہری ہیں۔ اور اب بھی آبادی کے بڑے حصے کے لئے ان کی قبائلی شناخت ہی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیلتی سوسائٹی نے ہمیشہ مار دھاڑ سے ہی دوسروں کو اپنا حصہ نہیں بنایا۔ اِنکا سلطنت کی اس بارے میں پالیسی تھی کہ جارحیت کے بجائے اپنی طاقت کی نمائش کی جائے اور پھر بات چیت سے ہمسائے کے علاقے کو اپنا حصہ بنا لیا جائے۔ قتل و غارت کو آخری حربے کے طور پر رکھا جائے۔ اور اِنکا ریاست اس حربے میں بہت کامیاب رہی۔ اپنے عروج کے وقت اڑھائی ہزار میل تک پھیلی اس ریاست میں 100 سے زائد قومیتیں اس کا حصہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ریاستیں صرف پھیلتی نہیں رہیں۔ انسانی معاشروں کا ٹوٹتا بنتا عمل ہے۔ کسی وقت میں شاندار مایا سلطنت تھی۔ پھر بادشاہ کا تسلط ٹوٹ گیا۔ اشرافیہ منہدم ہو گئی۔ مقدس سمجھی جانے والی علامات کو روند دیا گیا۔ دارالحکومت سے دور علاقوں نے آزادی لے لی۔ آخری مایا سلطنت (مایاپین) جب ٹوٹی تو ایک معاشرہ سولہ میں تقسیم ہو چکا تھا۔ اور جب یورپی یہاں پر پہنچے تو یہ عظیم سلطنت ماضی کا قصہ تھی جس کے عوامی منصوبے کھنڈر ہو چکے تھے۔
جب رومی سلطنت منہدم ہوئی تو اس کے ٹوٹ جانے والے ٹکڑوں میں قیادت بڑی جاگیریں رکھنے والوں کے پاس آ گئی اور فیوڈل سسٹم کی تنظیم بن گئی۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ان کی آپس کی مشترک شناخت ماند پڑ چکی تھی۔ رومی شناخت کمزور پڑ جانے کا مطلب جاگیردارانہ نظام کے ابھرنے کی صورت میں نکلا۔
فتوحات اور انہدام کے یہ چکر ہمیں ہر جگہ پر ملتے ہیں۔ تاریخی ریکارڈ ایسی ریاستوں اور سرداری نظاموں کے ریکارڈ سے بھرے پڑے ہیں جو وقت کے ساتھ آبادی پر اپنا تسلط برقرار نہ رکھ سکیں اور مِٹ گئیں۔ سائز کا بہت زیادہ ہو جانا بھی سلطنتوں کے لئے مسئلہ رہا ہے۔ دور دراز کے لوگوں پر حکومت کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ دفاع اور خانہ جنگی سے بچاؤ مشکل ہو جاتا ہے۔ عملی طریقہ فتح کر لینے کے بجائے تجارت کا رہ جاتا ہے۔ ماضی کی شاہراہ ریشم یا پھر دوسرے تجارتی نیٹورک بنانا زیادہ مفید ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریائے دجلہ اور فرات کے ساتھ کے میدانوں میں میسوپوٹیمیا کی سوسائٹی آئی۔ پھر سمیر، اکادی، بابل، اسیریا اور دوسری ریاستیں آئی اور چلی گئیں۔ ان سب میں میسوپوٹیمیا کے آرٹ کے سٹائل سے لے کر نظریات میں مشترک چیزیں تھیں۔ لیکن پھر پہلی صدی عیسوی میں تین ہزار سال تک قائم رہنے والی یہ سوسائٹی غائب ہو گئی۔ کلچر کی روایات، سیاسی نظام اور بولیوں سمیت۔ جنوب اور مغرب سے آنے والے خانہ بدوشوں نے اس سب کا خاتمہ کر دیا۔
ایسا ہی میسوامریکہ میں ہوا۔ جنوبی امریکہ میں بہت دور دراز رہنے والے اپنے ہنر، روایتوں اور زبانوں میں مماثلت رکھتے ہیں جن کی وضاحت صرف اسی طریقے سے ہی ہو سکتی ہے کہ یہ تاریخ میں کبھی ایک معاشرے کا حصہ رہے ہیں۔
آثارِ قدیمہ کی ماہر اینا روزویلٹ کا کہنا ہے کہ ایمازون بیسن میں کبھی شہری مراکز تھے۔ اور سورینام میں سبزے کے قالین کے نیچے قدیم نہروں کے سراغ یہی بتاتے ہیں۔ ماضی کے بھولے بسرے شہر اور معاشرے ۔۔۔ جو ریاست کے انہدام کے بعد کھنڈر ہو گئے۔
بنتے بگڑتے اور کھنڈر ہوتے ان معاشروں کے ساتھ وقت اپنی دھن میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply