جانے کب سے وہ کانٹا لیے سمندر کے کنارے بیٹھا تھا۔ تخیلات کے سمندر کے کنارے۔۔۔۔ کب دھوپ نے اپنے پَر پھیلائے, کب سمیٹے, وہ بے خبر تھا۔ بھوک پیاس کے سب نوٹیفکیشنز کو اگلے آٹھ گھنٹے کیلئے وہ سائلنٹ موڈ پر لگا چکا تھا۔ وہ جنون کا پاور پیک ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا اور اسی کے بل پہ جیتا تھا۔
گھنٹوں بعد کوئی تخیل کی اعلی نسل کی مچھلی اس کے کانٹے میں پھنستی اور وہ فوراً سے اپنے کاغذ کی کٹوری میں نظر بند کر لیتا اور پھر دوسری مچھلی کے شکار کےلیے کانٹا سمندر میں پھینک دیتا۔۔۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ بعض اوقات اسے سوچوں کے سمندر کی تہہ میں مقیم سیپ میں محجوب سفید موتی کی تلاش میں غوطہ لگانا پڑتا۔۔۔ الفاظ کے سچے موتی جمع کر کے وہ گہنے بناتا تھا۔ اور ان گہنوں سے اپنی تحریر سجاتا تھا۔ اور پھر ان تحریروں کی شہر ادب میں نمائش لگاتا اور ستائش کماتا تھا۔۔
شام کو حوصلہ افزائی کے چند سکے سمیٹ کر رئیسانہ چال سے جب گھر لوٹتا تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی تھی گویا دنیا جہاں کی دولت کما کر لایا ہو۔۔یوں روزانہ اسے دو وقت کی روٹی ہضم کرنے کا سامان میسر آ جاتا اور گزر بسر اچھی ہو جاتی ۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں