سخن ور کی گزر بسر۔۔۔ڈاکٹر مدیحہ الیاس/اختصاریہ

جانے کب سے وہ کانٹا لیے سمندر کے کنارے بیٹھا تھا۔ تخیلات کے سمندر کے کنارے۔۔۔۔ کب دھوپ نے اپنے پَر پھیلائے, کب سمیٹے, وہ بے خبر تھا۔ بھوک پیاس کے سب نوٹیفکیشنز کو اگلے آٹھ گھنٹے کیلئے وہ سائلنٹ موڈ پر لگا چکا تھا۔ وہ جنون کا پاور پیک ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا اور اسی کے بل پہ جیتا تھا۔

گھنٹوں بعد کوئی تخیل کی اعلی نسل کی مچھلی اس کے کانٹے میں پھنستی اور وہ فوراً سے اپنے کاغذ کی کٹوری میں نظر بند کر لیتا اور پھر دوسری مچھلی کے شکار کےلیے کانٹا سمندر میں پھینک دیتا۔۔۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ بعض اوقات اسے سوچوں کے سمندر کی تہہ میں مقیم سیپ میں محجوب سفید موتی کی تلاش میں غوطہ لگانا پڑتا۔۔۔ الفاظ کے سچے موتی جمع کر کے وہ گہنے بناتا تھا۔ اور ان گہنوں سے اپنی تحریر سجاتا تھا۔ اور پھر ان تحریروں کی شہر ادب میں نمائش لگاتا اور ستائش کماتا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام کو حوصلہ افزائی کے چند سکے سمیٹ کر رئیسانہ چال سے جب گھر لوٹتا تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی تھی گویا دنیا جہاں کی دولت کما کر لایا ہو۔۔یوں روزانہ اسے دو وقت کی روٹی ہضم کرنے کا سامان میسر آ جاتا اور گزر بسر اچھی ہو جاتی ۔۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply