بڑھاپے کا بیڈ روم۔۔محمد خان چوہدری

حاجی صاحب بیڈ پہ لیٹے تھے۔ دھوتی لانگڑ متروک کر کے برمودا شارٹس کے اوپر بنیان البتہ موجود تھی،
بڑھا ہوا پیٹ برہنہ تھا۔ ناف کے اوپر کی سلوٹ پہ آئی پیڈ ٹکا کر اس پہ رومانوی کہانی ٹائپ کرنےمیں اس قدر محو تھے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ انکی زوجہ محترمہ چاچی حجن بی بی کب کمرے میں آئی،۔ اس نے
دیوار گیر ڈریسنگ الماری کھولی اور کب اس میں کوئی سُوٹ تلاش کرتے ہینگرز پر لٹکے اپنے سارے سوٹ بیڈ  پرڈھیر کر دیئے۔،
حاجی صاحب تو ذہن کی ڈکشنری سے پیار و محبت کے جملے ترتیب دینے کو مناسب الفاظ کی تلاش میں مگن تھے،
ہاں کوئج لفظ گم ہوتا تو اَدھ کھلے پیٹ کو سہلاتے، اور سینے تک پھیلی داڑھی صاحبہ کو کھجلاتے ۔،
چند سال پہلے اگر یہ منظر ہوتا۔ ان کا بالوں سے بھرا سینہ کھلا ہوتا۔ پیٹ دکھائی دیتا تو بی بی کی کیا حالت ہوتی۔۔
یہ نظارہ اور گھر میں تخلیہ ، بیڈ روم میں کیا پیار و محبت کا طوفان بپا کرتا۔
آج دونوں کے نتھنے بند تھے کہ ایک دوسرے کی مہک سونگھنے سے عاری تھے،
بصارت معدوم تھی یا ہوش و حواس مفقود تھے۔ شاید کثرت استعمال سے ابدان شل ہو چکے کہ سات بچوںکی پیدائش ۔پرورش۔ تعلیم ۔ روزگار۔ شادی۔ انکے گھر بنانے اور بسانے میں، ان سے زندگی کا رس نچڑ گیا تھا،
حاجی جی اپنی دھن میں مگن کہانی لکھتے رہے اور بی بی صاحبہ ڈریسز کھنگالتے بہو رانی کی کارگزاری سنا رہی تھی،
الماری سے منہ پھیر کے ذرا بلند آواز میں اس نے سوال کیا ۔
“ کل آپ نے دیکھا ۔ بلو نے ڈریس کیسا پہن رکھا تھا “ ؟
حاجی جی بھی کہانی کے نازک موڑ پہ اسکی ہیروئن کا سراپا لکھ رہے تھے، تو جو فقرہ ذہن میں تھا بے دھیانی میں وہی بول بیٹھے۔ ،
“ اس لباس میں وہ کسی ساکت جھیل میں اترا چاند کا عکس لگ رہی تھی “ !
اب جیسے لوڈ شیڈنگ کے بعد اچانک بجلی آنے سے یو پی ایس پر مرے مرے سے چلتے فین یکدم سپیڈ پکڑ لیتے ہیں
چاچی حجن بی کو بھی جیسے بجلی کا جھٹکا لگا،۔ بیڈ پہ پڑے جوڑے فرش نشین ہو گئے، کمرے میں زلزلہ آنے کیکیفیت پیدا ہونے لگی۔
حاجی صاحب اس سے بالکل لاتعلق اپنی دھن میں مگن بولے !
حجیانی سُنو یہ شعر وزن میں برابر ہے !
جھیل کے کنارے رات اور ہُو کا وہ عالم۔۔
دوسرے مصرعہ کی ولادت ہی نہ ہو سکی، آنٹی حجن نے دوہتھڑ اپنی چھاتی پہ  ماتم کرنےکے انداز میں مارا۔۔
حاجی جی اس اچانک تبدیلی سے گھبرا گئے۔ پیڈ بند کیا۔ بنیان کھینچ کے پیٹ ڈھانپا۔ نیم دراز پاسچر سے دراز ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london


بیگماتی جلال کو جمال میں بدلنے کے ماہر ۔ سنی ان سنی کر کے بولے ۔
یار میں یہ لکھن لکھائی کیوں کروں ؟ اوہ اچھا کون سا سوٹ ڈھونڈا جا رہا ہے ؟ غصہ کس بات کا ہے ؟
بھئی میں تو اس کہانی میں بہو کو طلاق کا سین لکھنے والا تھا۔ وہ جو ظلم اپنی ساس پر کرتی ہے،وہ  سب لکھ دیئے
ویسے وہ آپ بلو کی کوئی بات کرنا چاہ رہی تھیں۔ بتاؤ ! بیٹھو ناں بیڈ پہ میرے پاس۔ ۔۔۔
چاچی شرما گئی۔ غصہ اُڑ گیا۔ حاجی نے کروٹ لے کے اپنی داڑھی چاچی کی گردن پہ رکھ دی۔۔
اور شکر قند لہجے میں چائے کے کپ کی فرمائش کی،پھر اٹھ کر فرش پہ پڑے سارے ملبوسات جھاڑ کے بیڈ پہ رکھنے لگا
چاچی نے سر جھکا کے کہا۔
قمیض پہن لو۔ پیٹ اس پجامے سے باہر لٹک رہا ہے۔
اور حاجی جی نے باتھ روم میں جا کے قمیض پہن لی ۔۔
آپ کیا سوچ رہے تھے ؟ کیا کچھ ہونا تھا ؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply