تحریک آزادی کشمیر اورآرٹیکل 370 ۔۔۔وقار احمد بگا

16 مارچ 1846کو جب ریاست جموں وکشمیر کو عہد نامہ امرتسر کے ذریعہ انگریزوں نے ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کر دیا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کا کل رقبہ 84471 مربع میل تھا۔اگر اعداد و شمار اور حساب کتاب کھولا جائے تو یہ سر زمین تقریباً 155 روپے فی مربع میل اور اُس وقت کی آبادی کے حساب سے انسانوں ک ی قیمت تقریباً 7 یا سوا سات روپے فی کس پڑتی تھی۔انگریز وہ جو کبھی کشمیر کے وارث ہی نہیں تھے انہوں نے کشمیر کا سودا کردیا۔مہاراجہ نے 84471 مربع میل پر حکومت کی اور بعد ازاں اپنے بیٹے پرتاب سنگھ کو ولی عہد مقرر کیا جوکہ انتہائی چالاک،ہوشیار اور دور رس سمجھ بوجھ کا مالک تھا۔مشہور ہے کہ اُسے افیون کی لَت  تھی جس کی وجہ سے وہ دن بھر خمار  آلود غنودگی کے عالم میں رہتا تھا۔مہاراجہ بے اولاد تھا اور اپنی جانشینی کے لئے اپنی برادری کا ایک لڑکا منتخب کر رکھا تھا جو کہ ہری سنگھ کے باپ امر سنگھ کو گوارا نہ تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو ریاست کا وارث بنانا چاہتا تھا،امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ انتہائی بدکردار تھا اور ایک انگریز عورت کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر کافی ذلت،بدنامی اور مالی نقصان اٹھا چکا تھا مگر امر سنگھ کی ریاست میں بچھائی گئی  سازشوں کے نتیجےمیں انگریزوں نے پرتاب سنگھ کے منتخب لڑکے کے بجائے ہری سنگھ کو ہی ریاست کی گدی پر بٹھایا۔1929 کو مہاراجہ ہری سنگھ تخت نشین ہوا اور اپنی بدمستیوں اور عیاشیوں میں مگن ہو گیا،ڈوگرہ ہندو ملازمین کو موقع ملا اور انہوں نے ایک صدی سے زائد ڈوگروں اور سِکھوں کی غلامی میں پھنسے ہوئے مسلمانوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑے۔اسی دور میں نوجوانان کشمیرکے رویے میں تبدیلی کا عنصر شامل ہوا اور مسلمان نسل کے رحجان نے سر اُٹھانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ تحریکیں شروع ہو گئیں۔ان تحریکوں میں بھی نوجوان گرفتار،تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنے اور یوں کشمیر یوں کی نسل کشی کاایک سلسلہ چل نکلا۔1933 میں سرینگر تپھر مسجد میں مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی گئی۔شیخ عبداللہ صدر اور چودھری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور پھر 1935 میں پہلی دفعہ انتخابات ہوئے تو شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے۔سات سال شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس نے کشمیرکی عوام میں سیاسی روح پھونکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔مسلمانوں کو منظم اور بیدار دیکھ کر ہندوؤں نے منصوبہ سازی شروع کر دی اور مسلم کانفرنس کے قیام کے دو سال بعد ہی آر۔ایس۔ایس نے اپنا کام شروع کر دیا اور سرینگر،جموں،میرپور،کوٹلی،سانبہ،اودھم پور اور کھٹوعہ کے علاوہ کئی دیگر مقامات پر اپنی عسکری تربیت گاہیں قائم کر لیں۔جو ہندوں اقلیتوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگی تربیت دے رہے تھے۔ادھر راشٹریہ سیوم سیوک سنگ نے اپنا کام شروع کیا تو ادھر آل انڈیا کانگرنس نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ ملانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی بلآخر 1939 کو شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس میں عزتوں کی بلندیوں سے ہندو کانگرنس کی پستی میں جا گرے اور پھر اسی منصوبہ بندی کا شکار ہو کر جموں کشمیر نیشنل پارٹی کی بنیادڈالی۔ایک ہی تھالی میں کھانے والے اور کشمیری عوام کے حق کی جنگ لڑنے والے دونوں لیڈر الگ ہو چکے تھے۔چودھری غلام عباس نظریہ پاکستان کے حامی ہو گئے اور شیخ عبداللہ نظریہ ہندوستان کے۔8 سال میں مزید بے شمار تحریکیں چلیں۔3 جون 1947 کو جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑا گیا جو اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کر لیں۔مگر کشمیر کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی قتل و غارت،لوٹ گھسوٹ،خواتین کی بے حرمتی اور نوجوان بچیوں کو اغوا کیا گیا۔چودھری غلام عباس کی بچی کو بھی اغوا کر لیا گیا۔غرض کے انسانی تاریخ کا بدترین ظلم کشمیر میں کیا گیا۔اسی اثناء میں مہاراجہ ہری سنگھ اپنی جان اور قیمتی مال سمیٹ کر سرینگر سے جموں چلا گیا اور بھارت حکومت نے دوسرے روز ہی کشمیر میں اپنی فوج اتار دی۔اسکے بعد دونوں ممالک کی افواج کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصے دونوں ممالک کے کنٹرول میں آگئے۔جنگ بندی کے بعد مسلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پہنچ گیا۔اقوام متحدہ میں 1952 سے 1985 تک ڈاکٹر گراہم نے ممکنہ فارمولوں کی بنیاد پر چھ رپوٹیں سلامتی کونسل کو پیش کیں۔تقریباً ہر رپورٹ پاکستان منظور اور بھارت نامنظور کرتا رہا۔اقوام متحدہ میں 1965 تک کبھی بھارت اور کبھی پاکستان کی درخواست پر مسئلہ کشمیر کو 133 دفعہ زیرِ بحث لایا گیا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل استواب رائے شماری ہی نکلا تھا،اقوام متحدہ کے مطابق پہلے دونوں فریق ممالک ریاست جموں و کشمیر سے اپنی افواج کا انخلا کریں اسکے بعد یو۔این۔او کے تحت شفاف رائے شماری ہو جس میں کشمیریوں کو حق دیا جائے کہ  وہ خودمختاری،پاکستان یا بھارت کسی ایک کا انتخاب کریں اگر فیصلہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے حق میں آتا ہے تو افواج داخل کرنے کا حق صرف اس ملک کے پاس ہو گا مگر بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔اور پھر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم شاستری کے ساتھ روس کی ثالثی میں معاہدہ تاشقند پر 10 جنوری 1966 کو دستخط کر کے مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کا ذاتی مسئلہ بنا کر مسئلہ کشمیر کو مزید کمزور ترین سطح پر پہنچا دیا۔اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں متروک الاستعمال ہو گئیں اور دونوں ممالک نے اچھے ہمسائے بننے کی کوشش کی۔ معاہدہ تاشقند کے 6 سال بعد 1972 کو مسئلہ کشمیر میں شملہ معاہدہ کے ذریعے آخری کیل ٹھوک دیا گیا اور کشمیر کے مسئلہ کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔اب اقوام متحدہ کی قراردادیں کہیں دب کر رہ گئیں ہیں اور شاید دقیانوسیت کی وجہ گرد میں تقریباً منسوخ ہو چکی ہیں۔
عمران خان نے 13 فروری 2016 کو آزادکشمیر کے ایک ریاستی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کا بہترین حل تین حصوں میں تقسیم ہے۔عمران خان کے پہلے دورہ امریکہ میں صدر امریکہ ڈونلڈٹرمپ نے عمران خان کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے پاکستان نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور وزیراعظم عمران خان کی کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ گردانا  اور عمران خان کی پاکستان واپسی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں وادی نیلم کے مقام پر بھارتی افواج سویلین آبادی پر کلسٹر بمبوں سے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتی رہی۔ لائن آف کنٹرول پر پریشر بنا کر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چپے چپے پر فوج کھڑی کر کے کرفیو نافذ کر دیا اسکے بعد بھارت میں تمام قوم پرست اور سیاسی قائدین کو نظر بند کر دیا۔ کشمیر کی آئینی تبدیلیوں سے متعلق بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایک بل راجیہ لوک سبھا (ایوان بالا) میں پیش کیا۔بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ کاسٹ ہوئے۔اپوزیشن کے شور شرابے  کے باوجود 5 اگست 2019 کو بھارت اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا اور آرٹیکل 370 میں ترمیم جبکہ 35A ختم کر دیا گیا۔مگر ہمیں ضرورت ہے تو اس وقت صرف یہ سمجھنے کی کہ آرٹیکل 370 اور 35A ہے کیا۔آرٹیکل 370 تقسیم برصغیر کے بعد 1954 میں ہندوستان کے آئین کا حصہ بنایا گیا۔اور اس کی اس وقت بھی بھرپور مخالفت کی گئی تھی۔15 اگست 2019 کو جب ختم کیا گیا تب بھی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے کیونکہ ہم لوگ سمجھ ہی نہیں رہے کہ ہو کیا رہاہے بس بھیڑ چال چلتے جا رہے ہیں جبکہ ہمیں 35A پر شور کرنا چائیے اور عالمی سطح پربھارت  پر آئین کی بحالی کی لیے دبا ؤ ڈالا جائے۔آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تعین کرتا تھا اور یہ آرٹیکل معاہدہ الحاق ہندوستان کے باعث وجود میں آیا۔370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کے خارجی امور،دفاع اور کرنسی ہندوستان کے پاس تھے جبکہ دیگر تمام اختیارات بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر کی اسمبلی کے پاس تھے۔جبکہ پاکستانی اور بھارتی زیر انتظام کشمیر میں 35A بالکل ایک جیسا ہی ہے اور جو کہ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو تحفظ دیتا ہے جس کے ذریعے کشمیر کے اندر صرف کشمیر کا شہری ہی جائیداد خریدنے اور ملازمت کرنے کا حقدار ہے۔اسکو اب بھارتی زیر انتظام کشمیر سے ختم کر دیا گیا ہے اور یہی ہمارے لیئے ایک مسئلہ ہے۔کیونکہ آرٹیکل 370 معاہدہ الحاق ہندوستان سے مشروط تھا لہذا اسکے ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی کبھی عدالتی فیصلوں اور بِلوں کی ردو بدل سے آزادی کی تحریکوں کو دبایا جا سکتا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل متھلی وجے کمار کا کہنا ہے کہ “آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد بھارت کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور اس کی حیثیت قبضہ کرنے والے ملک کی ہوگئی ہے “۔معاہدہ کراچی جو کہ پاکستان اور آزادکشمیر کی قیادت نے کیا اور پھر گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ ختم کرنا بھی اسی طرح کا قدم ہے جو بھارتی زیرانتظام کشمیر میں عمل لایا گیا جسکی وجہ سے اب دونوں فریق ممالک تحریک آزادی کشمیر کیلئے مشکوک ہو چکے۔وزیراعظم عمران خان کا نریندر مودی کو پسندیدہ ہم منصب قرار دینا،ٹرمپ سے ملاقات اور امریکہ کی طرف سے ثالثی پیشکش،بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جارحیت اور پھر امریکہ کا سابقہ ثالثی کا ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ اِدھر تم اُدھر ہم کا فارمولا اپلائی کیا جا چکا ہے۔صرف مناسب وقت کا انتظار ہے۔
پاکستان اور بھارت کشمیر کے فریق ہیں اور پاکستان کے مطابق بھارت ہر بار پاکستان پر الزام تراشی اور حیلے بہانے کر کے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے بھاگ جاتا ہے تو اس کا واحد حل آزادی کے بیس کیمپ (آزاد کشمیر) کو نمائندہ ریاست کے طور پر دونوں فریق ممالک امریکہ،چائینہ،روس ترکی اور متحدہ عرب ریاستوں کی ثالثی میں تسلیم کریں تاکہ ریاست جموں کشمیر کے نمائندے عالمی سطح پر خود اپنا مسئلہ بیان کر سکیں اور اسکے حل کیلئے دنیا کو متوجہ کریں۔اگر یہ نہیں ہو سکا تو آزادی کی تحریک اسی طرح چلتی رہے گی اور مزید شہادتیں،قربانیاں اور مظلوموں کا خون ہمارا مقدر ہو گا۔اگر پاکستان مسلہ کشمیر کے حل کیلئے اس وقت آزاد کشمیر کو نمائندہ حقوق دلوانے کی کوشش بین الاقوامی سطح پر کرتا ہے تو ماہرین کے مطابق 5 اگست 2019 کا بھارتی اقدام مسلہ کشمیر کے حل کی پہلی سیڑھی ثابت ہو گا۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply