شام امن سے جنگ تک/آواز دو کہ حلب جل رہا ہے۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط17

16 دسمبر 2014ء کے دن کا گوآغاز ہوگیا تھا، مگر وقت تین بجے صبح کا تھا جب میری آنکھ کھل گئی تھی۔ دوبار ہ سونے کی کوشش کی۔ دائیں بائیں بہتیرے پلسٹے مارے، مگر نیند پلاّ پکڑانے میں نہ آر ہی تھی۔ میں اِس کی وجہ بخوبی سمجھتی تھی۔ اِن دنوں ”حلب“ زیر تحریر تھا۔ ملکی اخبارات تو کہیں موٹی موٹی خبروں سے ہی بے سکونی کا باعث تھے۔ مگر وہاں سے آنے والی ای میلیں ذہنی انتشار کا زیادہ باعث تھیں۔

فجر کی نماز کے بعد سونے کی ایک بار پھر کوشش کامیاب ہوگئی۔ کوئی ساڑھے دس تک سوتی رہی۔ اٹھی چہل قدمی کے لئے باہر لان میں آگئی۔
صبح تو کہیں سے بھی اداسی اور افسردگی میں ڈوبی ہوئی نہ تھی۔ چمکدار بھی تھی، روشن بھی۔ ۔سرد ضرورتھی مگراداس ہرگز نہ تھی۔ ناشتے کے لئے اندر آئی تو گویاجیسے ایک چیختی چنگھاڑتی خبر نے منجمد کر دیا۔میں نے کلیجے پر ہاتھ رکھ لیا۔ میرے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انتہا پسندوں نے جس طرح میرے دیس کے پھول سے بچوں کو لہولہان کیا ،اُس نے جیسے میرے وجود کو برف کے کسی گلیشئر تلے دفن کر دیا تھا۔لگتا تھا میرے اندر زندگی سے بھری کسی امنگ کا کہیں دور دور تک کوئی احساس نہیں، خالی خالی ہوں،امن کو ترسی ہوئی۔ تفکرات میں ڈوبی ہوئی۔۔

کوئی ہفتہ بھر بعد یونہی ذہن کو اِدھر اُدھر کرنے،ذرا اپنی دل گرفتگی کو کم کرنے کے لئے انٹرنیٹ کھولا ہے۔ بہت دنوں سے ڈاکٹرہدا کی میل میری منتظر ہے۔ پڑھتی چلی جاتی ہوں۔ کہیں ڈوب رہی ہوں، کہیں اُبھر رہی ہوں۔ میرے بہتے آنسو ،میرا گھائل ہوتا دل، سب ایک بار پھراضطراب میں ہیں۔
دیکھو ابھی ڈاکٹر حاتم مجھے بتا رہے تھے۔

شام کا شہر رقااِس داعش کا اب انتظامی اور تعلیمی مرکز بن گیا ہے۔ مزے کی بات دیکھو، نصاب سے آرٹ، موسیقی، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سائنس اور حتیٰ کہ دینیات تک نکال دیا ہے۔ کوئی پوچھے باقی کیا بچا؟۔۔ کس اسلام اور اسلامی ریاست کی کون سی اصلاحات کا نفاذ کرنا ہے اُنہیں۔ طالبات کے لئے نئے لباس کا ضابطہ بھی جاری  کردیا گیا ہے۔

اب احمدمیرے کزن نے لکھاہے کہ میں بچوں کو اسکول نہیں بھیج رہا ہوں، مگر گھروں پر چھاپے پڑ رہے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجا جائے۔ سکولوں پر چھاپے پڑ رہے ہیں کہ اساتذہ اُن کے منظورکردہ طریق سے ہی تعلیم دے رہے ہیں یا نہیں؟

اِس خانہ جنگی نے بچوں کی ایک نسل کو عام زندگی کے نارمل رویوں سے محروم کر دیا ہے۔ ہر طرف پھیلا ہوا خوف، ڈر اور دہشت نے نفسیاتی طور پر اُنہیں اگر ہراساں اور خوف زدہ کر دیا ہے تو انہیں تشدد پسند بھی کر دیا ہے۔ اُن کی سوچیں مثبت رہی ہی نہیں۔ شام میں جو بچے ہیں وہ آدھے سے زیادہ سکول نہیں جا رہے۔ ہمسایہ ملکوں میں پنا ہ لینے والے کیمپوں میں کوئی لگ بھگ 20لاکھ کے قریب ہیں۔ جو سارا دن آوارہ پھرتے ہیں۔ اب اِن بچوں کی سوچیں منفی نہ ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟ قانونی شناخت کیسے ملے گی؟ سرحد سے تو نکل آئے مگر آگے کے خوفناک مسائل۔
القائدہ ہی کیا کم تھی کہ اب داعش نے اِن بچوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ شدت پسند اور انتہا پسند یہی دھتکارے ہوئے بچے ہوں گے جو دنیا کے امن کو چیلنج کریں گے۔ یہ بڑے ملک اپنی سیاستوں اور مفادات کی دکانیں چمکاتے رہیں۔ وہ دن آئے گا جب یہی بچے ان کی آل اولادوں کو خون میں نہلائیں گے ،یہی ہوتا ہے۔ اسی کانام مکافات عمل ہے۔

یہ 1906ء کابڑا گرم دن تھا۔ مئی کا پہلا ہفتہ او ر پہلی ریاستی ڈوما (ملک کے مختلف حصّوں کی نمائندہ لوگوں پر مُشتمل پارلیمانی کونسل) کا پہلا اجلاس سٹیٹ ہال میں منعقد ہو رہاتھا۔ سٹیٹ ہال کی چھت کے نیچے ایک عجیب سا منظر تھا۔ سامنے مرصعّ صوفوں پر مادر زارینہ ماریا فیدورونا اس کی بہو الیگزینڈرہ اور دیگر معزز خواتین، ہا ل کے دونوں اطراف پر کھڑے ڈیوک اور کورٹ ایلیٹ اپنے سینوں پر شاہی امتیازی تمغے سجائے شاندار ملبوسات پہنے کھڑی تھی۔ کُرسیوں پر بیٹھے رُوس کے مختلف حصّوں سے آنے والے عوامی لوگ اپنے عجیب وغریب حُلیوں اور لباسوں سے ایک ایسا منظر تخلیق کر رہے تھے جو رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اس تناظر میں بے محل سا نظر آتا تھا۔ لمبے لمبے کالے کوٹ پہنے کسا ن تھے۔فراک نما کوٹ پہننے والے بوڑھے تھے۔ شانوں پر لہراتے لمبے بالوں والے انٹیلکچو ئل تھے جنہوں نے مونو کل لگا رکھے تھے۔پولینڈ کا پادری گہرے پرپل کپڑوں میں تھا۔ مڈل کلاسیے جن کی ڈھیلی ڈھالی قمیضیں اور کچھ ایسے جو بغیر کالروں کے، چند لوگ Poole کے لباس میں تھے۔ دو صدی قبل کے ڈیزائنوں والے ڈریس پہنے لوگ بھی نظر آتے تھے۔ پولینڈ کے ایک ممبرنے ہلکے نیلے رنگ کا ڈانسرز کا ڈ ریس زیب تن کر رکھا تھا اور ہیس (جرمنی کا ایک شہر)کے بوٹ پہنے ہوئے تھے۔
یہ کس قدر خوش آئند بات تھی کہ رُوسی سوسائٹی کے تما م طبقے اپنی اپنی کلاس اور علاقے کی نمائندگی کے لئے موجود تھے۔
پر نہیں حکمران زار کی ماں زارینہ ماریا کے لئے اُن گھٹیا لوگوں کو برداشت کرنا مُشکل ہو رہا تھا۔
سونے اور میلاچی سے آراستہ جب وہ اپنے اِن کمروں میں آئی اُس کی طبعیت متلا رہی تھی۔اُس کے سر میں درد تھا۔
تین دن اس کی طبعیت خراب رہی۔ چوتھے دن اُس نے اپنے وزیر مالیات سے کہا۔
”یہ کیسی ڈوما ہے۔۔اتنے گھٹیا لوگ؟میرے لئے انہیں برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔“
میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے پل بھر کے لئے آنکھیں بند کیں۔ پھر اُنہیں کھولا اور اپنے آپ سے کہا۔
”زارینہ ماریا فیدورونا۔۔تمہارا اور تمہاری سوچوں کا بھی کچھ قصُور نہیں۔ اس تناظر میں وہ بھی ٹھیک،پر جب تمہارے اِس ونٹر پیلس میں انہی خوبصورت کمروں میں جن پر چڑھاسونا اور آرائش آنکھوں کو چُندھیاتی ہے۔خالتوران نے اسے بم دھماکے سے اُڑانے کو ایک مُقدّس فرض سمجھا تھا۔نادرن یُونین آف رشین کا ایک معمولی کارکن  جو عام رُوسی کی حالت زار پر کُڑھا کرتا تھا، جو جیالا تھا،دلیر تھا۔ ایک اعلیٰ بڑھئی کی حیثیت سے ونٹر پیلس میں مرمت کے کام پر معمُور ہوا۔اِس درجہ معاشرتی تفاوّت کو ہضم ہی نہ کر سکا۔ خود پھانسی پر چڑھ گیا پر تم جیسے شیشے کے گھروں میں رہنے والوں کو عدم تحفّظ کے احساس میں متبلا کر گیا،اور ہاں زارینہ ماریافیدورونا اُنہی گھٹیا لوگوں جنہیں دیکھ کر تمہاری طبیعت متلائی تھی نے صرف بارہ سال بعد تمہاری ساری آل اولاد کو تہ تیغ کر دیا تھا۔
اِس ظلم اِس تشدد پر مجھے بھی افسوس ہے، پر معاشروں کی اِس درجہ اُونچ نیچ ہمیشہ ایسے ہی المیوں کو جنم دیتی ہے اور یہی تاریخ ہے۔
چار سال ہوگئے ہیں اِس عذاب کو جھیل رہے ہیں۔ پچھلے دنوں عارضی سا وقفہ ہوا تو سوچا کہ چلو بچے سکول جانا شرو ع ہوں گے۔ مگر یہ تو خام خیالی تھی۔ بمباری میں ایسی شدت آگئی کہ لگتا تھا کہ اگلی پچھلی ساری کسریں نکالنی ہیں۔ سو بم تو سکولوں پر ہی گرائے گئے ہوں گے۔
حلب کے تمام سکول زیر زمین منتقل ہو گئے ہیں۔ مونا بدر کا گھر انہ غسل خانے میں سونے پر مجبور ہے کیونکہ یہ سارے گھر میں محفوظ ہے۔

حلب میں بچوں کے اسپتال کا کیا احوال سناؤں۔ بہت سارے ڈاکٹرز تو چلے گئے ہیں۔ چند ہی تو باقی ہیں۔ ڈاکٹر حاتم جیسا مسیحا بھی اُنہی  میں سے ایک ہے۔ جو ایک بایان چلڈرن اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ابھی صبح ہی تھی کہ اسپتال کے نزدیک بم گرا۔ بیرل بم،عملے اور مریضوں کو فوراً تہہ خانے میں منتقل کیا گیا۔ باہر بموں کی بارش اور اندر بچوں اور والدین کی چیخ وپکار۔۔ یہ قیامت تھی۔
حلب میں کتنے بچے زندہ رہ گئے ہیں؟ صرف 90ہزار۔ اسی طرح کے بیرل بم اگر ایسی تعدادمیں ایک دوبار اور گرائے گئے تو ان کا بھی صفایا ہو جائے گا۔
بنکر شکن بم گرائے جا رہے ہیں۔ پوری عمارت کا نام ونشان ختم۔ بس ایک گڑھا باقی۔۔ امریکہ،روس،ترکی،ایران، سعود ی عرب، لبنان، ملیشیا، حزب اللہ۔۔ سب زندہ باد۔ ہم کمزور ناتواں لوگ مردہ باد۔
امریکہ ہمارے لئے بس پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ زبانی جمع خرچ اور کچھ نہیں۔ ہم امریکہ سے بدظن ہو چکے ہیں۔ متنفر ہو گئے ہیں۔ امریکہ سے بڑا لعنتی بھی شاید ہی کوئی ہوگا۔ روس ذلیل اور امریکہ ذلیل تر۔ دونوں کے درمیان پارٹنر شپ کا کوئی سلسلہ ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے۔ دونوں ذلیل کھلاڑی خون اور آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ مگر کن کے سروں پر؟ نہتے معصوم لوگو ں پر۔ یہ اقوام متحدہ بھی کیا چیز ہے؟ ہر دوسرے دن بیان داغنے پر زور دیتی ہے۔

مہینوں پہلے ایک سفارت کار نے کہا تھا۔
”مشرقی حلب پر قبضے کا واحدراستہ یہی ہے کہ بشار چنگیز خان کی طرح اپنے مددگاروں سے کہے کہ اتنے انسانیت سوز ظالمانہ اور سفاکانہ انداز میں دھاوا بولا جائے کہ پھر مشرقی حلب کی گلیاں خون سے نہا جائیں اور اِن میں بشار کے مخالفوں کی لاشیں تیرتی نظر آئیں۔“
تو یہی ہو رہا ہے اور زور وشور سے ہو رہاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply