داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط27

ماشااللّہ ۔ انسان کے مزاج میں زعم عظمت اور رعونت نہ ہو،تو خوداعتمادی بہترین صفت ہے جو چھوٹے چھوٹے چیلنجز سے نپٹنے اور رکاوٹیں عبور کرنے سے مستحکم ہوتی ہے۔

ہم نے جب ٹیکس کی وکالت شروع کی تو بزرگ دوستوں کی مشاورت سے یہ طے ہوا کہ ہم اسلام آباد کے کیسز ہی لیں گے۔ تب یہاں راولپنڈی زون کی رینج تھی۔ جس کے انچارج انسپکٹنگ ایڈیشنل کمشنر تھے۔ سات سرکل تھے ۔ تو سات ہی اِنکم ٹیکس آفیسر تھے۔ جن میں چار خواتین آفیسر تھیں۔ یوں اسے لیڈیز رینج بھی کہتے ۔

اُستاد محترم سی اے ،جناب امیر عالم خان صاحب کا دفتر پنڈی تھا۔ ہم اس سے منسلک تھے اس لیے  وہاں ذاتی کیسز لینا معیوب ہوتا۔ ٹیکس بار کے ممبران بے تکلف دوست بن چکے تھے تو ان کا کوئی  کیس ہم نے ان کے این او سی کے بغیر کبھی نہیں لیا۔ اسلام آباد کی مارکیٹ میں ویسے بھی بہت گنجائش تھی کہ دیگر سب وکلاء  سوائے دو کے پنڈی کے دفاتر سے آپریٹ کرتے تھے۔سفارت خانے میں پروٹوکول اور پبلک ریلیشن کا تجربہ تو ہمارے پاس تھا ہی بس ہلکی پھلکی ٹیوننگ کی ضرورت ہوتی جو استاد محترم اور محکمے کے دوست کرتے رہتے ،تو گزشتہ روز۔۔
سرکل ۔25 میں ہوئی  بدمزگی کو ہم نے سارے سٹاف سے بے تکلف دوستی میں بدل لیا اور اسی دن پنڈی جا کے امیر عالم صاحب کو پراگریس رپورٹ پیش کی۔ اب انہوں نے اسی ضمن میں ایک نصیحت اور فرمائی ۔۔۔۔
“ ٹیکس گزار تمہارا احسان مند کبھی نہیں  ہوتا کہ کاروباری لوگ فیس دینے میں کنجوس ہوتے ہیں۔ جب تک ان کا کام ہوتا رہے کسی اور سے ذکر نہیں  کرتے لیکن کہیں ذرا سا مسئلہ بن جائے تو سرعام بدنام کرنے لگتے ہیں “۔

For All your tax and accounting needs .http://www.taxchops.ca

واپس گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ کرٹن کلیکشن شاپ والے مؤکل جن کی تین دن کی تاریخ لی تھی چار چکر لگا چکے ہیں !
تھوڑی دیر میں وہ ویسپا سکوٹر پہ  اپنے ماموں کے ہمراہ، جن کو ہم پنڈی سے جانتے تھے، فائل اٹھائے پہنچ گئے، سخت پریشان تھے۔ دن کو سرکل انسپکٹر ناصر ہاشمی نے سٹور پر چھاپہ مارا تھا۔ سٹاک کی لسٹ اور کھاتے ساتھ لے گئے تھے۔
یہ جی ۔ایٹ میں ان کے رہائشی فلیٹ کا پتہ بھی لائے،
انکی ضد تھی کہ ہم ان کے ساتھ فلیٹ پر چلیں۔ کچھ مکُ مُکا کروائیں، دس ہزار روپے ساتھ لیے ہوئے تھے۔
ہم نے یہ صاف بتا دیا کہ نہ ہاشمی صاحب پیسے لیں گے ،نہ ہم ایسی کوئی  ڈیل کرائیں گے، انکی ضد پر ہم اپنی کار پر  جی۔ایٹ مرکز پہنچے، انہیں کار میں چھوڑ کے اکیلے فلیٹ میں گئے۔ ہاشمی صاحب نے ادب سے ناراضگی کا اظہار کیا۔
کہ ہمیں انکے ساتھ نہیں  آنا چاہیے تھے۔ پیسوں کی آفر دکان پر ہوئی  جو وہ ٹھکرا چکے تھے۔ خیر ہم دونوں فلیٹ سے نیچے اترے۔ پیر صاحب نے پہلے تو انہیں ڈانٹ پلائی ۔ پھر کہا، چوہدری صاحب میرے محترم ہیں، رپورٹ دفتر جمع ہو چکی ہے، ہاں کل پیشی پہ  چوہدری صاحب آئیں گے تو جیسے یہ کہیں گے ویسے فیصلہ ہو جائے گا۔۔
واپسی پہ  ہم نے فائل چیک کی، کیس میں جان تھی، فیس کی بات ہوئی  ، ہم نے ان پہ  چھوڑ دی۔۔
کافی تردّد کے بعد وہ پچھلا ایک ہزار گنوا کے دو ہزار مزید دے گئے جبکہ وہ دس ہزار رشوت دینے پر مصر تھے۔
فیس ہمارا کبھی ٹارگٹ نہیں  ہوئی ۔۔۔ کیس کرنا اہم تھا کہ یہی باعث شہرت ہوتا ہے۔

اگلے روز پیشی ہوئی  تو وہاں ایک نیا کٹا کھل گیا، پرانے وکیل صاحب دو لاکھ کی آمدن پر ایگریڈ اسسمنٹ کی درخواست لکھ کر دے گئے تھے۔
ہم نے دلیل دی کہ اس سے پہلے ہماری پاور آف اٹارنی فائل پے لگ چکی اور منظور ہو چکی، تو کسی اور کو اس کیس میں سوائے ٹیکس گزار کے اب پیشی کا قانونی حق نہیں  رہا۔ میڈم نے وہ درخواست خارج کر دی ۔۔

اس وقت اِنکم ٹیکس کے قانون کی ایک شق۔59 کے تحت سیلف اسسمنٹ سکیم بنتی ۔ جس میں دی گئی شرائط پوری کرنے پر گوشوارہ من و عن مان لیا جاتا۔
ہم نے پوائنٹ بائی  پوائنٹ ثابت کیا کہ اس کیس کے سکیم سے اخراج کا کوئی  جواز نہیں  تھا۔۔۔
میڈم نے انسپکٹر کی رپورٹ کا سوال اٹھا دیا۔ کافی بحث ہوئی  ہمارا استدلال یہ تھا کہ سٹاک ٹیکنگ غلط ہوئی  ہے
سٹور کے ریکس گنے گئے۔ ان کے خانے شمار ہوئے، چند خانوں میں پڑے تھان سمپل طور گن کے ساری تعداد مفروضے پر لی گئی۔ ہر تھان کا گندانہ پوری پرنٹڈ لمبائی  فرض کی گئی جب کہ خانہ پری کے لیے کتنے فریم ایسے ہوں گے
جن پے دو تین میٹر کپڑا ہو۔
انسپکٹر صاحب نے دبے دبے الفاظ میں تائید تو کی ، لیکن اپنی رپورٹ کی درستگی پر قائم رہے۔
آخر میں طے پایا کہ میڈم از خود سٹور پے جائیں گی، اور بطور خریدار ذاتی طور پے چیک کر کے آئیں گی،
کیس مزید تین دن زیر التوا رہے گا۔
متذکرہ قانونی شق میں محکمے پر لازم تھا کہ جس سال میں گوشوارہ داخل ہوا ہے اس مالی سال کے جون کی تیس تاریخ تک اسے سکیم سے خارج کرنے کا حکم جاری کیا جائے، ورنہ کیس ٹائم بار تصور ہو گا۔اور جون کا یہ آخری ہفتہ تھا۔۔واپسی پہ  ہم کرٹن کلکشن کے سٹور پر پہلی بار گئے،گراؤنڈ فلور اور بیسمنٹ پر مشتمل سٹور دیکھنے سے پردہ کلاتھ سے بھرا لگتا تھا۔
ہم نے مالک صاحب کو کیس کی پراگریس بارے مطلع کیا، رینڈم چند ریک چیک کئے، فُل لنگتھ کے تھان کاؤنٹرز کے نیچے رکھوائے۔ وہ ریک جن کے سامنے عام طور گاہک کھڑے ہوتے ان میں فریم پر لپٹے کٹ پیس لگوا دیے۔۔یہ ہدایت کر کے کہ افسر ٹائیپ ہر خاتون کو دھیان سے ڈیل کرنا ہے۔ ہم گھر آ گئے۔

دو دن بعد ناصر ہاشمی صاحب ملنے آئے ۔ انہوں نے بتایا کہ اُسی روز چھٹی کے بعد میڈم اپنے میاں جی کے ساتھ سٹور پے گئی تھی، اور دونوں فلور میں ریک چیک کر کے آئیں۔ آپکی بات کافی درست تھی،کیس سیلف سکیم میں منظور ہو گیا ہے اور ڈی سی آر میں رجسٹر بھی ہو گیا ہے۔
پھر مسکرا کے کہنے لگے، یہ واردات آپ کو سوجھی کیسے تھی ۔۔
ہم نے ادب سے کہا۔ جناب ہم آپکے دادا جان کے سکول میں پڑھے تھے، کچھ دعائیں ہیں جن سے سبب بنتے ہیں
جواب ملا۔ کمال ہے خود اعتمادی کا، بغیر دکان دیکھے ایسی منظر کشی، کہ میڈم جیسی افسر قائل ہو گئی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply