اتوار کا دن تھا, میں چھٹی پر تھا۔۔ خدا نہیں!
بازار گیا۔۔۔ تو ایک مبہوت کن منظر سے پالا پڑا۔ یہ مناظر میرا پیچھا کرتے ہیں, ان کو شاید پتا چل گیا کہ میں نابینا ہوں۔
ستو والے بابا جی کی یاد میں آپ لوگوں کی نذر کر چکا اب یہ بابا جی آ گئے مجھے رزق کی تقسیم سمجھانے
رازق و رزاق خدا کے رزق کے خزانوں پر اپنا زندگی بھر کی پی ایچ ڈی کا تھیسز ایک جملے میں بتانے۔ ۔
بھوک نے باباجی کی منحنی سی جسامت کو خوب کھایا تھا۔۔پیاس سے خون پی لیا تھا۔ ۔ شاعر نے خوب کہا تھا۔
تُوں کیہہ جانے یار امیراں
روٹی بندہ کھا جاندی اے
بائیں بازو پر فالج۔۔۔ بابا جی اسکو ساتھ ایسے لئے ہوئے تھے جیسے زندگی انکو۔ دائیں ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا۔۔ یونہی کہتے ہیں بڑھاپے میں اولاد سہارا ہوتی ہے۔ نہ ڈنڈا ہوتا ہے۔ سڑک سیوریج کے پائپ ڈالنے کے بعد غریب کی زندگی کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔ بابا جی جس انداز میں بائیں ٹانگ کو گڑھوں پر سے گزارنے کے لیے گھسٹتے تھے، لگتا تھا لوحِ غیر محفوظ پر زمین کے کاتبِ تقدیر کا قلم ہے جو مفلس کے بخت تحریر کر رہا ہے۔ بڑی دکانوں کے آگے بنی ہوئی تھڑیاں بابا جی کے لئے حیات کی چوٹیاں تھیں جسے سر کرنا انکے بس کی بات نہ تھی۔۔ دو تین نسبتاًچھوٹی دکانوں پر میں نے انہیں چڑھتے ہوئے دیکھا تو کانپ گیا۔ باباجی کا جسم ایک بار تو یوں جھولتا تھا کہ کائنات کے سارے ریکٹر سکیل جواب دے جاتے تھے۔۔ ۔شکر ہے گرے نہیں۔۔۔۔ مگر اس سے زیادہ گرتے بھی کیا۔ پانچ دس روپے کی آس میں باباجی جس طرح جان پر کھیل کر یا کم از کم اپنی بے جان ہڈیوں کی جان پر کھیل کر دکان تک جاتے تھے اس زمین کا سارا معاشی نظام اس آس کے نام ۔” بھلا ہووے ” کی صدا کے ساتھ جس یاسیت کے ساتھ وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلٹتے یوں لگتا کہ آدمی نہیں آدم ہیں اور جنت سے زمین کی طرف پلٹائے گئے ہیں۔ سوچا کاش کہ انکے ہاتھ میں یہ ڈنڈا، عصاءِ موسی ہوتا کہ جس سے ان دکانداروں کے دل زندہ ہو جاتے۔۔۔۔بھلا ہووے کی صدا یا باباجی کی زندگی کی بولی کے پانچ دس روپے باہر آ کر ہی پکڑا دیتے۔ ۔لیکن ہمارا احساس نہ مرتا تو سماج زندہ نہ ہوتا۔ ؟
بھلا ہو کی صدا اللہ سے انسانیت کا الف لے کر بھلا ہوا میں تبدیل نہ ہو گئی ہوتی۔۔۔۔۔زندگی کی آخری سانسیں خیرات ہی میں ملنی ہیں تو بابا جی کے گھر نہ پہنچا دی جاتیں۔۔۔مگر شاید۔۔۔۔ مگر حیات جب تک یہاں سڑکوں پر ایڑھیاں رگڑتی نظر نہ آئے ہماری عطا کی تسکین نہیں ہوتی۔۔۔۔
میں بھاری قدموں کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔۔ تو وہ ایک دکان سے اپنی بزرگی کا خراج پاکر اس دس روپے کے نوٹ کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے مدت بعد کوئی اپنے بچھڑے ہوئے محبوب کو دیکھتا ہے ۔زندگی جب سے ان نوٹوں کی زر خرید ہوئی بھوک کے مارے ہوؤں کو یونہی سسک سسک کر ملتی ہے جیسے بابا جی کو دس روپے۔
میں نے اپنا کانپتا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور ایک نوٹ بابا جی کی طرف بڑھایا ۔۔پسینے میں شرابور بوڑھے نے مجھے زندہ درگور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔اسکے پنجابی میں کہے ہوئے چار الفاظ نے مجھے چاروں شانے چت کر دیا ۔ اسکی نزار آنکھوں میں اس وقت چمکتی روشنی میرے اندر اترتے اندھیروں کا منہ چڑا رہی تھی ۔اسکی مسکراہٹ ایک تیز دھار آلہ ءِ قتل تھا جو اس نے میرے سینے میں اتار دیا تھا ۔ نوٹ کیطرف کانپتا ہاتھ اس نے آگے بڑھایا تو مجھے لگا پوری زمین تھرتھرا رہی ہے اور وہ اس کانپتے ہاتھوں سے اس نوٹ کے ساتھ میرے سارے ٹوٹے پھوٹے فلسفے ،میری منطق ، میری شاعری ، اور میری نام نہاد فہم و فراست سب کچھ ساتھ لے گیا۔۔۔۔۔۔ اسکے یہ الفاظ مجھ پر آسمانی بجلی کی طرح گرے۔ بابا جی نے یہ کہہ کر مجھے فنا کر دیا۔۔۔۔یوں لگا کہ یہ چار الفاظ ایک ایک کر کے چاروں سمت سے آتے ہوئے میری سماعتوں کے پردوں کو چاک کر گئے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نابینا کے ساتھ بہرہ بھی کر گئے۔۔۔ بابا جی نے کہا۔ ۔
“رب سوکھی روزی دیوی “۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں