محبت کا الجھا ریشم ( ناول )۔۔۔۔۔۔رضوانہ سید علی/قسط4

گزشتہ قسط:

کریدنے پہ پتہ چلا کہ شکیلہ نے کوئی کچا کام نہیں کیا تھا ۔ باقاعدہ نکاح پڑھوایا تھا اور ایک سینما اور پٹرول پمپ اپنے نام لکھو ا لیا تھا ۔ ماہ گل کا افغانی خون تاؤ کھا گیا انہوں نے شکیلہ کو چٹیا سے گھسیٹ کر گھر سے نکال دیا اور عمران صاحب کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھا لی ۔ عمران صاحب ہاتھ جوڑتے رہے کہ شکیلہ تمہاری نوکرانی ہی رہے گی ۔ ساری عمر تمہارے قدموں میں رہے گی ۔ ماہ گل نہ مانیں تو اس بات پہ بھی رضا مند ہو گئے کہ میں شکیلہ کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ماہ گل کا ایک ہی مطالبہ تھا ۔ مجھے طلاق دو ۔ ان کے سسرال والے بھی سمجھانے آئے پر ماہ گل کی ضد کوئی نہ توڑ سکا ۔ انہوں نے خلع کا مقدمہ دائر کیا اور جیتنے پہ ہر شے چھوڑ کر کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئیں ۔ہمایوں ان دنوں میڑک میں تھا ۔ وہ تو مرجھا کر رہ گیا ۔ میڑک کا نتیجہ بھی کوئی خاص نہ نکلا ۔ کچھ دن ماہ گل اپنے بیش قیمت پارچات اور زیورات بیچ کر گزارہ کرتی رہیں اور پھر ایک روز چپکے سے کسی کو بھی بتائے بغیر شہر ہی چھوڑ گئیں ۔ شکیلہ مہارانیوں کی طرح شہر بھر کی تقریبات میں گھومتی پھرتی ۔ مکان پہ اب اس کا اور اسکے خاندان کا قبضہ تھا ۔ امی اکثر اماہ گل کو یاد کرتیں تو آنکھیں بھر آتیں اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتیں ۔ ” آہ ! روپ روئے اور کرم کھائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

قسط : 4
ایک روز میں سکول سے گھر لوٹی تو امی کے پاس ایک سانولی سی نوجوان لڑکی کو بیٹھا دیکھا ۔ ضرور امی کی کوئی نئی سہیلی ہے کیونکہ پہلے تو کبھی اسے نہیں دیکھا ۔ اسکے جانے کے بعد امی خود ہی بتانے لگیں ۔ ” نمو ! آج میں بلے کی دکان پہ چپل لینے گئی تھی وہاں اس لڑکی سے ملاقات ہوگئی ۔ ایسی خوش اخلاق ہے کہ کچھ دیر میں ہی یوں گھل مل گئی جیسے برسوں کی واقف ہو ۔ ہر جوتا میرے مشورے سے لیا ۔ بیچاری کا باپ اسکے بچپن میں ہی مر گیا تھا ۔ ماں کی اکلوتی اولاد ہے ۔ بہت امیر ہے ۔ پر غرور نام کو نہیں ۔ بازار کے بعد جو پہلی گلی ہے نا؟ اس میں بہت بڑی حویلی ہے ۔ پیچھے بھی بہت زمین جائیداد ہے ۔ آتے ہوئے اس نے مجھے اپنا گھر دکھایا ۔ پھر میرے ساتھ چلی آئی ۔ تاکہ میرا گھر بھی دیکھ لے ۔ اسکی حویلی کا دروازہ ہی اتنا شاندار ہے کہ لگتا ہے کسی مغل زادے کی حویلی ہو گی ۔ کہہ رہی تھی کہ اب اماں نے اسکے کافی پورشن بنا کر کرائے پہ اٹھا دئیے ہیں ۔ اپنے پاس بس اتنا ہی حصہ رکھا ہے جتنا آسانی سے سنبھل جائے ۔ ۔ ۔ ۔
امی بول رہی تھیں اور میں سوچ رہی رہی کہ ان کی دوستیاں ہمیشہ یونہی شروع ہوتی ہیں ۔ کسی بھی سرِ راہ ملنے والی سے پہلے سلام دعا ، پھر ہلکا پھلکا سا تعارف کہ تم کہاں رہتی ہو ؟ میرا گھر تو فلاں گلی میں ہے ۔
اچھا تم فلاں کی بیٹی ہو ؟
اسکی چچی کا پھپھا تو میرے ابا کا دوست تھا ۔
ارے وہ تمہاری خالہ تھی ۔ ہاں ہاں وہ تو میری اماں کی برادری سے تھیں ۔
تیرا بھائی، میرا عم زاد میری ممانی اور تیری بھابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یونہی ہر کسی سے کوئی نہ کوئی سلسلہ نکل آتا اور پہلے پہل گھروں میں آنا جانا ہوتا اور پھر یہ تعلقات گہری دوستی اور کبھی بہناپے میں بدل جاتے ۔ پورے علاقے میں امی کی سہیلیاں موجود تھیں ۔ کبھی کچھ سہیلیاں دور دراز علاقوں میں چلی جاتیں تو امی کا اثر رسوخ ان علاقوں میں بھی ہو جاتا ۔ وہاں بھی امی کی کئی سہیلیاں بن جاتیں ۔ کہیں بھی میلاد ہوتا یا قرآن خوانی ، مائیوں ، مہندی کی تقریبات یا محرم کی مجالس ، زردے پلاؤ والے ختم درود یا روکھے پھیکے درس ، امی کو ہر جگہ سے بلاوہ آتا اور وہ شاید ہی کسی تقریب سے غیر حاضر ہوتیں ۔ ابا تو ان کی ان سرگرمیوں پہ بس ہنس دیا کرتے تھے ۔ لیکن نانا بہت چڑتے ۔ امی کہتیں ۔ ” رسی جل گئی پر بل نہیں گیا ۔ اس خاندان کو دو غرور لے بیٹھے ۔ ایک دولت اور دوسرا حسن کا غرور ۔ دولت تو شیخ قلندر بخش ( نانا کے دادا ) کے بعد اس خاندان سے رخصت ہوئی ، حسن باقی ہے ۔ اسے چاٹتا رہے سارا خاندان ۔ میں تو سب سے ملوں گی جو بھی مجھ سے خلوص اور محبت سے ملے گا ۔”
سو وہ تو سب سے مل رہی تھیں ، خوب مل رہی تھیں ۔
اب ان کی نئی سہیلی بھی اکثر ان کی محفلوں میں نظر آنے لگی ۔ کوثر نام تھا اس کا ۔ جب تک امی کی یہ محفلیں سجی رہتیں ۔ میں چھت کے کسی کونے میں بیٹھ کر کہانیوں کی وہ کتابیں اور رسائل جلدی جلدی پڑھ ڈالتی جو میں اپنی سکول کی سہیلیوں سے مانگ کر لاتی تھی ۔
ایسی ہی ایک نشست میں ہماری سامنے والی ہمسائی بھی شامل تھیں ۔ ان کی بھانجیاں بھی ان کے ساتھ تھیں وہ کچھ دیر تو بیٹھیں ۔ پھر پوچھنے لگیں کہ نمو کہاں ہے ؟
” وہ اوپر کسی کتاب میں منہ ڈالے بیٹھی ہو گی ۔ ” امی نے بیزاری سے کہا ۔ “ہم اوپر جائیں خالہ ! نمو کے ساتھ کھیلنے ؟ ”
” ہاں ہاں ۔ ضرور جاؤ ۔ ”
یہ سنتے ہی وہ اوپر آ گئیں ۔
” اے نمو کی بچی ! تم کیا کتاب میں ناک گھسائے بیٹھی ہو ۔ چلو چھپن چھپائی کھیلتے ہیں ۔ ” ان میں سے ایک نے ” چڑیوں کی الف لیلیٰ ” نامی کتاب کھینچتے ہوئے کہا تو میں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی کہ کہیں میری کتاب نہ پھاڑ دیں ۔ میری کلاس میں صوفی تبسم کی بھانجی پڑھتی تھی ۔ اس کے پاس بچوں کی ایک سے ایک کتاب موجود تھی ۔ پر وہ زیادہ روانی سے پڑھ نہیں سکتی تھی ۔ وہ روز ایک دو کتابیں اور رسائل میرے لیے لاتی اور میں انہیں پڑھ کر اسے کہانیاں زبانی سنا دیتی ۔ رفتہ رفتہ اور بھی بہت سی لڑکیاں مجھ سے کہانیاں سننے لگیں تھیں ۔ یہ چڑیوں کی الف لیلیٰ کرشن چندر کی لکھی ہوئی تھی اور بہت ہی مزیدار تھی ۔ اسکے دو حصے میں پڑھ چکی تھی اور دو ابھی باقی تھے ۔ میں کتاب کو خراب بھی نہیں ہونے دیتی تھی کہ کہیں سہیلی ناراض ہو کر مزید کتابیں لانے سے انکار نہ کر دے ۔ وہ کہتی تھی کہ ماموں نے یہ کتابیں ہم سب کے لئے کھلونا بک ڈپو بھارت سے منگوائیں ہیں ۔ سو اس ڈر سے کہ کتاب پھٹ نہ جائے میں نے اسے بستے میں ڈالا اور ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے لگی ۔ کچھ دیر میں ہی چھپنے چھپانے کا سلسلہ ان کے گھر تک پھیل گیا ۔ یہ گھر ایک متروکہ جائیداد تھا ۔ نیچے والے کمرے کرائے پہ اٹھا دئیے گئے تھے ۔ اوپر مالک مکان خود رہتے تھے اور درمیانی منزل بالکل خالی تھی ۔ یہاں سیڑھیوں میں دن کے وقت بھی گھپ اندھیرا رہتا تھا اور ہمہ وقت ایک پیلا سا بلب ٹمٹاتا رہتا تھا ۔ اس منزل پہ چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیا ں بنی تھیں جن میں لوہے کی سلاخوں والے دروازے لگے تھے جیسے جیل خانہ ہو ۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ یہاں پہلے بہت سے بُت رکھے تھے ۔ شاید یہ سابقہ مکینوں کا پوجا گھر تھا ۔یہاں سے بت تو ہٹا دیے گئے تھے پر اب بھی یہاں عجب پراسراریت سی تھی ۔ اس لیے گھر والے اس حصے کو استعمال میں نہیں لاتے تھے ۔ ہم کھیلتے کھیلتے اس گھر میں پہنچے تو درمیانی منزل کی راہداری میں مجھے پوجا گھر کا دروازہ کھلا نظر آیا ۔ میں جلدی سے اندر جا کر ایک کونے میں چھپ گئی ۔ یہاں بھی اندھیرا ہی تھا ۔ میں نے دروزہ بھیڑ دیا تھا تاکہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ میں یہاں چھپی ہوں ۔ کچھ دیر بعد میری آنکھیں تاریکی میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو مجھے ایک اور دروازہ دکھائی دیا ۔ میں نے اسے دھکیلا تو وہ کھل گیا ۔
اندر جھانکا تو نیم تاریک کوٹھڑی کے ایک روشندان سے چھن کر اندر آنے والی روشنی میں یہاں چھت تک کتابوں کے انبار نظر آئے ۔ دروازے کے قریب ہی سوئچ بورڈ موجود تھا ۔ ایک بٹن دباتے ہی چھت سے لٹکا بجلی کا ہنڈولہ روشن ہو گیا ۔ اوہ کتابیں ہی کتابیں ، رسالے ہی رسالے ، بچوں کی ، بڑوں کی ، سبھی کے ذوق کی چیزیں وہاں موجود تھیں ۔ میرے لیے زندگی کی سب سے بڑی خوشی جیسے عید ہو گئی ہو ۔ اب کہاں کا کھیل کیسی چھپن چھپائی ۔ میں کبھی کچھ اٹھا کر دیکھتی کبھی کچھ پڑھنے کی کوشش کرتی ۔ لگتا تھا کہ بھوکے کے سامنے انواع واقسام کے کھانے آ گئے ہیں اور وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پہلے کون سا کھانا کھائے ۔ دیر تک بیٹھی یونہی کتابیں الٹ پلٹ کرتی رہی ۔ آخر خوف آیا کہ کہیں میری ڈھنڈیا نہ پڑ جائے ۔ دو ایک کتابیں رسالے دامن میں چھپائے اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی ۔ امی کی سہیلیاں جا چکی تھیں اور وہ خود باورچی خانے میں تھیں ۔ میں نے وہ کتابیں بستے میں چھپا لیں ۔ آنے والے چند مہینوں میں میں نے وہاں موجود ہر طرح کی تحریر چاٹ ڈالی ۔ خواہ مجھے سمجھ آئی ہو یا نہ آئی ہو ۔ ان میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں نے تو مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ۔ نہیں معلوم کہ یہ خزانہ گھر والوں نے وہاں ردی کی طرح ڈھیر کر رکھا تھا یا پچھلے مکین چھوڑ گئے تھے ۔ بہرحال میری یہ سر گرمی کسی کی نظر میں نہ آسکی ۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق مکان کا صدر دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا ۔ نیچے کی منزل کے جو پورشن بنائے گئے تھے ان کے داخلی دروزے دوسرے رخ تھے ۔ یہ مکان کارنر کا تھا ۔ صدر دروازے سے داخل ہو کر میں دبے پاؤں درمیانی منزل تک جاتی اور چپکے سے دروازہ کھولتی اور اندر جا کر اسے بھیڑ لیتی ۔ شِکر دوپہر میں وہاں کوئی اوپر چڑھتا نہ نیچے اترتا ۔ میں کتابیں اور رسائل وہاں سے اٹھاتی اور رکھتی رہی ۔ مجھے اب سہیلیوں کی خوشامد کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ میرے لیے کچھ پڑھنے کو لاؤ ۔
انہی سہانے دنوں میں ایک اتوار صبح سویرے کوثر ہمارے گھر آ دھمکی ۔
” باجی ! آج تیرے پاس ایک کام سے آئی ہوں ۔ اللہ کے واسطے انکار نہ کرنا ۔”
” کیا کام ہے ؟ ” امی نے پوچھا
“باجی ! میری بچپن کی سہیلی کی آج شادی ہے اور آج ہی میری ماں کو ضروری کام سے گاؤں جانا ہے ۔ وہ مجھے اکیلے شادی میں جانے کی اجازت دینے کو ہرگز تیار نہیں ۔ میں نے کہا کہ میں باجی نصرت یا ان کی بیٹی کو ساتھ لے کر جاؤں گی تو بہت مشکل سے مانی ہے ۔ میری پیاری باجی ! مجھے پتہ ہے تجھ پہ بچوں کی اتنی ذمہ داری ہے ۔ بس تو نمو کو میرے ساتھ بھیج دے ۔ ”
” جب دیکھو کبھی محلے میں پھر رہی ہے کبھی دکانوں پہ ۔ تب تیری ماں تجھے اکیلا کیوں پھرنے دیتی ہے ؟ ” امی نے ہنس کر کہا ۔
” وہ پاس پاس تو پھر لیتی ہوں اور سچ بتاؤں وہ بھی اماں سے چوری ۔ جب وہ کہیں جاتی ہے تو گھنٹہ دو گھنٹہ ادھر ادھر ہو آتی ہوں ۔اسے پتہ لگنے ہی نہیں دیتی ۔ پر شادی بیاہ کا معاملہ تو لمبا ہوتا ہے نا ۔ وہ رہتی بھی دور ہے ۔ راج گڑھ ۔ دیکھ میری آپا مان جا ۔ انکار نہ کر ۔ میری بڑی پکی سہیلی کی شادی ہے ۔ “یونہی طرح طرح کی باتیں مٹکا کر آخر کوثر نے امی کو شیشے میں اتار ہی لیا اور مجھے ساتھ لے گئی ۔ گھر جا کر اس نے تالا کھولا مجھے ایک کرسی پہ بٹھایا اور خود شادی پہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی ۔ انتہائی زرق برق کپڑے پہنے ، لمبے لمبے بالوں کو خوبصورت انداز میں باندھا ، جی بھر کے میک اپ تھوپا اور سونے کے زیورات سے سج سجا کر برقع اوڑھا اور مجھے لے کر چلی ۔ گلی میں ہی رکشہ مل گیا ۔ کچھ دور جانے کے بعد کوثر نے دو تین مرتبہ کلائی کی گھڑی پہ نظر ڈالی اور بڑبڑائی مگر ایسے کہ مجھے صاف سنائی دے ۔ ” افوہ ! بہت دیر ہوگئی ہے ۔ بارات تو آ چکی ہو گی ۔ اب وہاں جانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ۔ ” میں حیران تھی کہ پھر ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ چوبرجی پہنچ کر کوثر نے رکشہ رکوایا ، پیسے ادا کیے اور اتر کر سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی ۔ کچھ ہی دیر میں ایک موٹر سائیکل ہمارے قریب رکی ۔ اس پہ بلا بوٹ ہاؤس کا مالک بلا بھائجان بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔ کوثر نے آگے بڑھ کر اس سے کچھ کھسر پھسر کی پھر مجھے کہنے لگی ۔ ” نمو ! شادی پہ جانے کا تو وقت ہی نہیں رہا ۔ میں تو واپسی کے لیے رکشہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ یہ بلا بھائجان آ گیا ۔ کہتا ہے مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔ ابھی چل کر اسکی بات سن لوں پھر گھر واپس چلیں گے ۔ ”
بلے بھائی جان نے ہم دونوں کو لادا اور موٹر سائیکل ملتان روڈ پہ بھاگنے لگی ۔ ( جاری ہے )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply