سوتیلی بیوی(قسط4)۔۔محمد خان چوہدری

“ فیروز میں تمہارے ماں باپ دونوں کی جگہ ہوں۔ تم واحد میرا میکہ بھی ہو۔ بہت سوچ سمجھ کے اور تحقیق کر کے ہم نے یہ رشتہ تمہارے لئے فائنل کیا ہے۔ اب ہمارا میکہ، عزت اور وقار تمہارے ہاتھ میں ہے، منت کرتی ہوں اسے قبول کر لینا، دعائیں ہیں تمہیں سب معاملات میں سُرخرو کریں گی”
اتوار کو ٹیکسی والا جب فیروز کو لے کے باجی اور راجہ جی کے گھر پہنچا، فیروز باجی سے ملا تو انہوں نے راز کھول دیا
فیروز پہلے ہی محسوس کر چکا تھا ۔ اس نے باجی کے پاؤں چھوئے باجی نے روتے ہوئے اسے گلے لگایا اور دعا دی
پروپوزل کی مکمل تیاری تھی، مٹھائیاں اور گفٹ سے ڈگی بھر گئی، راجہ جی تشریف لائے ،فیروز کو پیار کیا ،
چوہدری فیروز اور ٹیکسی ڈرائیور بشیر کھیڑا ہم مکتب ضرور ہوں گے، اس کا گاؤں بھی شہر کے مغرب میں واقع اُن چار گاؤں میں ہے جو ،چؤلکھا ،مشہور ہیں یہاں کے باسی گفتگو میں عقل و خرد کے بادشاہ مانے جاتے ہیں، مینیجر غلام علی کا گاؤں بھی ان میں شامل ہے۔ شہر سے جب راجہ جی، فیروز اور اسکی باجی بشیر کے
ساتھ روانہ ہوئے تو راجہ جی بشیر کو پہچان گئے اور بات بر سبیل سفر کرنے کو اس سے پوچھا،
“ بشیر تم تو مسقط گئے تھے ! واپس آ گئے یا چھٹی پر آئے ہو ؟”
بشیر نے جیسے لمبی سانس لی اور شکر ادا کیا کہ سڑک کی حالت خستہ تھی، کار بریک کے ساتھ چلانی تھی
گفتگو سے سب کی توجہ جھٹکے کھانے سے ہٹ گئی
وہ بولا، راجہ جی کیا بتاؤں ، پہلے تین سال میں مسقط سے جو پیسے بھیجے ابا نے مکان بنانے میں لگا دئیے
اور دو بہنوں کی شادیاں کیں، اب میری شادی کی باری تھی، اگلے سال زیادہ محنت سے کام کیا اور بنک میں ساٹھ ہزار سے زائد پیسہ ٹرانسفر کیا ۔۔ بات رُک گئی کہ، کار کے سامنے کھڈا آ گیا، بریک لگی اور مشکل سے سائیڈ پر رکھتے کھڈا کراس کیا۔
بشیر جذباتی ہو رہا تھا بات جاری رکھتے کہنے لگا
راجہ جی میں دو ماہ کی چھٹی لے کے اور کافی سامان خرید کے شادی کرنے جب یہاں پہنچا تو دیکھا
کہ ابا نے پنڈ عیدو گاؤں کا مشہور بیل خرید لیا تھا، قیمت پچپن ہزار دی ،مشہور پچانوے ہزار کر دیا۔
بنک میں سب ملا کے نو ہزار پڑے تھے،
راجہ جی نے لقمہ دیا،یار تمہارا ابا پرانا مشہور داندی ہے۔ اچھا کیا اس نے، میں نے تو سنا تھا
کہ اس داند کے سودے میں رن طلاق کی شرط بھی لگی تھی،بشیر رندھے گلے سے بولا۔ چھوڑو جی دفع کرو۔ میں اگلے ہفتے واپس گیا، گیارہ ماہ دن رات ڈیوٹی کی،تنخواہ کمپنی پاس جمع کرتا رہا، کمپنی سے استعفی دیا تو اگلے پچھلے واجبات ملا کے لاکھ کے قریب رقم ملی
وہ میں نے اپنے ساتھی اور گرائیں پاس چھوڑی، یہاں پہنچ کے فون کیا تو اس نے ٹرانسفر کر دی
ابا سخت ناراض ہو گیا، میری پھوپھی کی بیٹی سے منگنی کو دو سال ہو چلے تھے، سامنے ایک گاؤں نظر آیا، بشیر نے کہا، یہ ہمارا گاؤں ہے۔ آئیں پہلے میرے گھر اتریں ،
ہمیں خدمت کا موقع  دیں، باجی نے فوری مداخلت کی،  نہیں ہم پھر کبھی آئیں گے ،بشیر نے دوسرے گاؤں والے راستے سے کار موڑ لی،
اس نے اپنی بات جلد مکمل کی، بتایا کہ سب گھر والوں نے ابے کو راضی کیا، شادی ہو گئی
سارا خرچہ بری پوری کرتے، ولیمہ ملا کے پچاس ہزار ہوا۔ پینتالیس ہزار میں کار لی۔۔۔
اب میں ابا کو ہر ماہ پانچ سو سے زائد کے داند کے مصالحے لا کے دیتا ہوں، کاش مسقط میں چار سال  اتنی جان نہ ماری ہوتی، اب یہاں ہوں عزت اور آرام سے گزارہ ۔۔۔
چوہدری فیروز بڑے پرجوش لہجے میں گفتگو میں شریک ہوا،
“ بشیر بھائی  خوش رہو، واپسی پے آپکے گاؤں رک کے داند دیکھ کے جائیں گے “
راجہ جی نے پوچھا،کیوں، فیروز نے ادب سے جواب دیا،
ہماری اس گاؤں یاترا کی برادری میں فوری طور مشہوری ہو گی،
جو ابھی مناسب نہیں ، گلاس اور لبوں میں فاصلہ ہے
ہم واپس جا کے یہ بیان جاری کریں گے  کہ ۔۔کھیڑا چاچے کا داند میں نے لاکھ کی آفر پے روک دیا ہے انکے گاؤں میں ۔۔
بس یہ نوروز کا جلسہ ہونے تک فائنل ہو جائے گا “
لوگ اس بیل کی طرف مصروف ہو جائیں، ہم سکون سے اپنا کام کر سکیں گے،
ورنہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ شہر میں شادی کی بات پر سب پہلے باتوں کے شادیانے بجا دیتے ہیں۔

سامنے گاؤں ، اور بڑی گلی کی نُکر پے غلام علی کی کوٹھی نظر آ رہی تھی جہاں کار کی آواز سن کے سارا ٹبر دست بستہ استقبال کرنے کو موجود تھا
پون گھنٹے میں گاؤں پہنچے وہاں بھی استقبال کی مکمل تیاری تھی، آمنا و صدقنا کے ساتھ طے پایا کہ جھٹ منگنی پٹ ویاہ کرنا ہے، دعائے خیر، کھانا ،اور مبارک سلامت کے ساتھ واپسی ہوئی ، سیدھے چھوٹی بہن کے گاؤں پہنچے
باجی نے اسے علیحدہ بٹھا کہ بس یہ پوچھا، اگر تمہاری نند کا رشتہ تمہارے بھائی  سے ہو، کل ان میں ناچاقی علیحدگی ہو جائے تم کدھر جاؤ گی، دو بچیاں ہیں اب تمہاری ؟ وہ بیچاری مبہوت رہ گئی، وہاں بھی گفٹ دیئے مبارک لی
اور اسی سپیڈ سے ایک ماہ میں شادی رخصتی ہو گئی
فیروز کی دنیا بدل گئی، زینت نور علی زینت فیروز بن کے کھل گئی، ڈیرے ساتھ انیکسی سال میں بن گئی
پہلا بیٹا نوروز اسی میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد تین تین سال کے وقفے سے ایک اور بیٹا نعمان اور دو بیٹیاں
پیدا ہوئیں۔
فیروز نے زمینوں کو ازبر کر لیا۔ نوروز اور نعمان کو کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھایا دونوں لفٹین بن گئے
بیٹیاں دونوں سائینس پڑھ رہی تھیں جب فیروز نے سسرالی گاؤں کے ریٹائرڈ کرنل صاحب سے مل کر پراپرٹی ڈیولپر کی کمپنی بنائی ، اسکی چالیس بیگھے زمین لب روڈ آ گئی جب بائی  پاس بنا ،وہاں ہاؤسنگ سکیم بنی۔دو سال میں وہ زمین اسلام آباد میں پوش سیکٹر کے دو گھروں میں بدل گئی، وہاں شفٹ ہوئے بچیاں میڈیکل کالج میں داخل ہو گئیں۔
اُتلا کھُوہ عدالت سے فیصلہ کرا کے دونوں بہنوں کے جملہ جائیداد کے حقوق کی مکمل سیٹلمنٹ میں انکو ٹرانسفر کر دیا یہ ساری کاوش زینت نے کی ۔ تلے کھُوہ کی پلاننگ کر کے ، انیکسی کے علاوہ سب زمین بک گئی اور پنڈی ڈی ایچ اے میں بچیوں کے پلاٹ لئے گئے، چالیس کنال کا فارم کیپیٹل میں خریدا گیا،
زراعت وہاں بحال ہو گئی۔
شہر میں بقایا زمین جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر برائے فروخت ہے ۔بکتی جا رہی ہے۔
فیروز خان خود کہتے ہیں۔ ،، ہمارے جد امجد بارے مشہور ہے کہ سونے کی کھڑاواں پر چلتے تھے
زر ہم پر عاشق ہے، زن سے ہم عشق کرتے ہیں لیکن ہماری بڑھوتری بہت کم ہے، جہاں دوسری برادری کی اولاد محلہ آباد کرتی ہے ہماری ایکڑوں اراضی کے مالک ہوتے ہمارےایک دو ورلے ورلے گھر ہوتے ہیں، وجہ بھی یہ زمین ہے جو خود غیر منقولہ ہے نقل مکانی نہیں  کر سکتی ۔
ہماری زمین پشتوں سے ہماری سوتیلی بیوی کے سمان ہے۔ جو بستی ہے پر پھلتی پھولتی نہیں،جتنی بڑھتی ہے ہم اتنے سُکڑتے ہیں،
مزید فرمان ہے کہ میں نے جب پہلی زمین فروخت کرتے رجسٹری کرائی  تو مجھے لگا مجھے آزاد کیا گیا
ہم زمین پر قبضہ ملکیت تصور کئے رہتے ہیں جب کہ اصل میں وہ بانجھ زوجہ ہے ۔ میں نے اس سے جان خلاصی کرائی  تو میرا شمار صاحب جائیداد کی جگہ صاحب اولاد میں ہونے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply