آخری چٹان تک۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ریت کے ٹیلے تھے، سوکھی کائی تھی

پانی اُترتا جا رہا تھا

ہر طرف اک مضمحل ، بیمار سی بوُ تھی ہوا میں

آنے والی شام کی گہری اداسی

اور گہری ہو رہی تھی

برق پا ہِرنوں سے کالے، گیلے سائے

ماند پڑتی روشنی کی

سعیء لاحاصل میں دوڑے جا رہے تھے

جسم کے ایسے مراحل ان گنت تھے

جن سے وہ ہر بار گذرا تھا، مگر اک

لا شعوری خوف کے زیرِ اثر وہ

لوٹ آیا تھا، اسے خدشہ تھا شاید

وہ پہنچ کر بھی نہ منزل پا سکے گا!

وہ پہنچنا چاہتا تھا

ریت کے ٹیلوں سے آگے

ضمحل بیمار سی بُو سے گذر کر اور آگے

ریتلا ساحل جہاں پر

گھاس، کائی، جھاڑیوں کے درمیاں

اک گہری ، کالی کھائی میں تبدیل ہو جاتا تھا

اور شہوت دریدہ ڈائنوں سی تُند لہریں

سر پٹختی پھِر رہی تھیں

یہ جگہ منزل تھی اس کی!

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ہوس کی آخری چٹان تک پہنچا تو پانی چڑھ چکا تھا!!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply