انسانیت آنکھ موندے کہیں سو گئی۔۔۔۔۔سانول عباسی /نظم

اے خدا سن صدا
بن کے انساں کبھی تو زمیں پر تو آ
آج دنیا میں
انسان کے روپ میں
اِس طرف اُس طرف
ہر طرف ہیں خدا ہی خدا
وہ جو رہتا تھا دنیا میں انساں کبھی
اب نہ جانے کہاں کھو گیا
آج دنیا میں ہر سو ہیں آدم نُما
نسلِ آدم نہ جانے کہاں مر گئی
وہ جو باقی ہیں چند آدمی
سب پریشان ہیں
اب وہ جائیں تو جائیں کہاں
اس خداؤں بھری دنیا میں سانس لینا بھی دشوار ہے
سب کو معلوم ہے سب ہی جھوٹے ہیں پر
سب بضد ہیں کہ بس وه ہی مسجود ہیں
جو بھی انسان ہیں
سب فقط ان کو سجدہ کریں

زندگی یوں کبھی اتنی ارزاں نہ تھی
ان خداؤں نے جینا اجیرن کیا
ہر طرف خون کا گرم بازار ہے
مفلسی ، بےبسی، بےکسی عام ہے
ظلم ہی ظلم ہے خوف ہی خوف ہے
اپنی اپنی خدائی جتانے کو سب
جب بھی چاہا کبھی
بےگناہوں کو مروا دیا
ان کے ہاتھوں میں تعزیر ہے
سب غریبوں کی تقدیر ہے

ہر عدالت میں انصاف بکتا ہے اب
وہ جو اندھی سی دیوی ہے قانون کی
اب امیروں کی ہے داشتہ

آبرو ہو کسی کی تو ان کو گوارا نہیں
عصمتوں کے محافظ بنے آبروریز ہیں
ہے نہ محفوظ فریال زینب یہاں
ابنِ آدم کو بھی کاٹ دیتے ہیں جنسی درندے یہاں

Advertisements
julia rana solicitors

بس دِلوں میں ہوس لے کے جیتے ہیں یہ
مار دیتے ہیں انسان جو بھی ملے
تیری دنیا میں میرے خدا
زندگی سے تو بڑھ کر نہیں ہے سزا
جب سے انساں کی غیرت کہیں کھو گئی
تب سے انسانیت آنکھ موندے کہیں سو گئی

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انسانیت آنکھ موندے کہیں سو گئی۔۔۔۔۔سانول عباسی /نظم

Leave a Reply