کتھارسس/ بزدل اور جانور دوست بھلا مانس۔۔اعظم معراج

دلت ادب سے ماخوذ ایک کہانی
ایک بھلا مانس کسی بستی کے قریب سے گزرا اس نے دیکھا قریبی قصبے کے لوگوں نے مردار جانور دور جنگل میں پھینکنے کی بجائے اس بستی کے مین دروازے کے قریب پھینکا تھا۔کتے، گِدھ اسے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے ۔اس بستی کے رہائشی بھی کمال بے حسی سے اس مردار جانور کا گوشت اتار کر لے جارہے تھے، حیران کُن منظر تھا ۔وہ تینوں ایک دوسرے کو کچھ  نہیں کہہ رہے تھے ۔اس نے ان لوگوں سے کہا آؤ اس مردار کو تمہاری بستی سے دور کردیں تاکہ یہ کتے اور گِدھ تمھارے بچوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔لیکن وہ لوگ بے حسی سے گوشت کاٹتے رہے، وہ بندہ ہمت کرکے تعفن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھا ،اس نے مردار جانور کو ایک ٹانگ سے پکڑا اور گھسیٹنے کی کوشش کی ،جیسے ہی مردار ہِلا، کتے اس پر غرّانے لگے اور گدھ پَر پھڑپھڑانے لگے۔

کتوں کی انتہائی خطرناک غراہٹ اور گدھوں کے پَروں کی ہولناک پھڑپھڑاہٹ و شور نے ماحول کو ہیبت ناک بنا دیا۔ اس شورو غوغا کو سن کر لقمہء مردار کے نشے میں مست و سیر اور کتے بھی جاگے اور غرائے۔

وہ بندہ ڈر کر بھاگ کر دور کھڑا ہوگیا۔بے حسوں کے ٹولے نے بجائے اپنے بچوں کو کتوں اور گدھوں سے بچانے میں مدد کرنے پر اسکی مدد کرتے اور اپنی بستی پر تعفن سے پھیلتی بیماریوں کا ادراک کرکے اسکے سدباب کے لئے اسکے مدد گار بننے کے ،وہ زور زور سے ہنستے اور تالیاں بجاتے کہتے جاتے
” بڑا بزدل ہے کتوں کی غراہٹ سے ڈر گیا ہے۔”

چند مردار خور بدزبانی کرنے لگے کہ یہ بیوقوف گدھ اور کتوں کو مشتعل کرکے ہماری خوراک کا بھی ستنیاس کرے گا۔

وہ بھلا مانس دور کھڑا اپنی بے بسی   پر کڑھنے لگا ،کیونکہ وہ کتوں کو کچل  دینے  اور گدھوں کی معدوم ہوتی نسل کو نقصان پہنچانے کے بھی خلاف تھا۔ اور مردار خور  انسانوں کو مردار خور کہنا تو اسے اپنی ہی تذلیل لگتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply