بشر علوی کا جواب نامہ۔۔۔محمد فیاض حسرت

بشر علوی کے نام، خط کا لنک
بشر علوی کے نام خط ۔۔۔ محمد فیاض حسرت

جانِ من فیاض حسرت ! آداب عرض !
کثرت مشاغل کے سوا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ آپ کو لاحق رنجش کی تلافی علی الفور کی جاتی۔
اگلے ماہ کے آغاز میں ہی برادرم طیب کے ذمے لگا دیتے کہ بے لاگ جائزہ لے کر جرم و جرمانہ کا تناسب طے کرے۔
آپ نے اپنے شکوے کو جو منظوم حسن ادا بخشی اس پر طبیعت خوش ہوئی۔دوسرے بند کی تالیف لائق رشک معلوم ہوئی۔چشم بد دور، آپ کا کلام تسلسل سے نکھار پاتا جا رہا ہے۔ آپ کا قطعہ پڑھا تو اپنی طبع موزوں ہو کر اک غزل میں ڈھل گئی۔۔
اس عریضہ کے ساتھ ، غزل بھی ارسال خدمت ہے۔محظوظ ہونے میں بخل سے کام مت   لیجیو اپنی ناراضگی برقرار رکھیو تا آں کہ طیب جرم و جرمانے کی تفصیلات طے نہ کر لے۔۔
ناراض ہو جانا اپنائیت کے احساس پرمبنی ہے۔پر جان رکھیو کہ آپ کو ناراض رہنے نہیں دیا جائے گا. ملنے کی راہ نکل لینے دی جو تب دیکھیو آپ کی ناراضگی کہاں تک ٹک پاتی ہے۔شاد رہیے۔۔ آپ کی خاطر ہمیشہ عزیز رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

گر وہ رہتے مدعی ، مانوں، بجا بھی وہ ہوئے
پر جو خود منصف بنے، سمجھو خطا بھی وہ ہوئے
اپنے ارماں تج دیے جن کی خوشی کے واسطے
اک ذرا موقع بنا حسرت سرا بھی وہ ہوئے
ہم نے چاہا قرب ہو، شکوے گلے اُن کے سُنیں
روٹھے بھی ہم سے خودی ، ہم سے جدا بھی وہ ہوئے
حق یہ بنتا تھا کہ روٹھوں ان کے روٹھے پر یوں ہی
بات وہ ہوئی کہاں جس پر خفا بھی وہ ہوئے
دل کہ لبریزِ گلہ ہے، پر زباں ان کو ملی
شکوہ سنج مشہور دیکھو جا بہ جا بھی وہ ہوئے
تھا مراسم کا تقاضا  عذر ہو مقبول واں
الجھے ہم سے مثلِ دشمن بے خطا بھی وہ ہوئے
یہ سلوکِ دشمناں، اور اب دهریں الزام بھی
ہم سہیں تیغِ جفا، اہلِ وفا بھی وہ ہوئے
بھول کر سب عذر وہ محو گماں کچھ یوں ہوئے
وہ ہی مخلص پیکرِ صبرورضا بھی وہ ہوئے
ہم نے چاہا، بس وہ چاہیں، پر ہوا کب وائے یوں
پیکرِ عاشق میں پنہاں دل ربا بھی وہ ہوئے
بات تب جیسی ہوئی، بات اب رہی ویسی کہاں
شارحِ قولِ بشؔر جب میری جا بھی وہ ہوئے
آپ کا خیر اندیش، بشر علوی
(26 جون 2019)

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply