بشر علوی کے نام خط ۔۔۔ محمد فیاض حسرت

اسلام علیکم !
مرشدی بشر علوی !
رنج و غم دے کر مجھے ہائے خفا بھی وہ ہوئے
ہم تو مجرم اور مظلوم، آشنا بھی وہ ہوئے
قیس کو بھی رشک آوے ہم پہ لیکن ، ہم نہیں
با وفا مشہور دیکھو جا بجا بھی وہ ہوئے!

صاحب سنو !یوں تو یہ دو شعر عشقیہ شعر معلوم ہوتے ہیں ۔عجب نہیں کہ ہر قاری کو شعر پڑھتے ساتھ ہی شاعر کی بے بسی پہ خوب ترس آوے کہ اُس کا معشوق کتنا ظالم ہے اور عاشق کتنا ناچار ، کتنا بے بس و مظلوم ہے ۔صاحب میں نے اول یہ قاری کا تصور آپ کی خدمت میں بجا لانا ضروری جانا ۔ اب میری سنو تو معلوم ہو کہ یہاں کیسا شاعر ؟ کیسا عاشق ؟ اور کیسا معشوق ؟ حقیقتت تو یہ ہے کہ ان شعروں کو کہنے والا نہ تو شاعر ہے اور نہ ہی عاشق ،رہی بات معشوق کی تو جب عاشق ہی نہیں تو معشوق کیا خاک پیدا ہو ۔ صاحب ! یہ دو شعر آپ کی خاطر داری و طرف داری کے لیے کہے گئے یعنی ان شعروں میں یہ بندہِ کمینہ کسی اور سے نہیں بلکہ بشر آپ سے مخاطب ہے ۔

سنو صاحب ! خدا نے مجھے اور نعمتوں کے علاوہ ایک اور بڑی نعمت سے بھی نوازا ہوا ہے ۔ میں رشک کرتا ہوں کہ میرے سوا عہدِ حاضر میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس معاملے میں مجھ سے بڑھ کر ہو ۔ صاحبو ! کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں نے اس روئے زمیں پر بائیس برس جی لیے تھے۔آپ کو یہ سن کے تعجب ہو گا کہ ان بائیس برسوں میں میرا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ گزرا جس میں کوئی دوسرا مجھ سے خفا ہوا ہو ، یہ سن کہ اور بھی تعجب ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ یقیں کرنے سے مکمل طور پر قاصر رہیں کہ انہی بائیس برسوں میں میرا کوئی ایسا لمحہ بھی نہ گزرا کہ جس میں ، میں کسی سے خفا ہوا ہوں ۔بے شک یہ میرے خدا کی مجھ پہ بڑی کرم نوازی ہے ۔ ہر انسان یعنی خلقِ خدا سے محبت، خدا نے فطرتاً  میرے اندر رکھ دی ، ایسی محبت کہ جو کسی بھی انسان خواہ وہ کس مذہب کا ہو، کس قوم کا ہو، کس ذات کا ہو ، کسی کے لیے بھی کم نہ ہوئی ۔ہمیشہ میرا دل اوروں کی محبت سے  لبریز رہا ۔ بس خدا کرے باقی کے چند دن بھی یونہی گزر جائیں ۔

بات کروں کچھ ماہ بعد کی تو حیرانگی مجھے اُس وقت سے اب تک اکثر کم ہو  رہی  ہے کہ میں اپنی ساری زندگی میں پہلی مرتبہ کیسے کسی انسان سے خفا ہوا ۔ ایک دکھ یہ کہ اچانک خفا ہونا مجھ کو کیسے آ گیا اور ایک دکھ یہ کہ میں بہت عزیز انسان سے کیسے خفا ہوا ؟ مانتا ہوں کہ میرا خفا ہونا اُس سے کسی طور غلط نہیں لیکن یہ کیسے مانوں کہ  بائیس برس جینے کے بعد یہ کم بخت آفت مجھ پہ آن پڑی  ۔ خیر اب خوش ہوں کہ اُس انسان کے کیے سے جو مجھے تکلیف پہنچی وہ میں نے اس انداز سے سہی کہ اُس کی عظمت اور  اُس سے محبت پہلے سے بھی کئی گنا  بڑھ گئی ۔ سوچتا ہوں کہ اپنا حق ادا کر دیا لیکن ساتھ ہی   خیال آتا ہے غالب کے  اس کہے کا کہ ” حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر ! سنو حضرت مجھے کوئی گلہ نہیں کہ میں کچھ پل اگر خفا ہوا بھی تو آپ منانے نہ آئے ۔ یہ کیا کہ رنج بھی آپ نے بطورِ تحفہ پیش کیا اور بعد اس کے خفا بھی آپ ہو چلے ،معلوم ہوتا ہے یہ سعادت خداوند نے صرف آپ کو ہی بخشی ہے ۔ دلیل یہ کہ اگر خفا میں ہوا تو آپ کے ذمہ تھا کہ آپ منانے آتے پر آپ نہ آئے یعنی، خفا میں نہیں خفا آپ مجھ سے ہوئے وہ بھی دکھ درد میرے حصے میں ڈال کر ، حق تو یوں ہے کہ میں تصور یہ کر کے آپ کو منانے، آپ کے در حاضر ہوں کہ میرے کیے سے خفا آپ ہوئے، میں نہیں ! عالی جا ہ یہ اپنا ہی شعر اپنے ہی منہ سے سن کے خوش ہونے دیجئے ! آپ کے لیے بہت دعائیں ۔
جو مشکل آ پڑی تو وہ نہ آئے
مگر خوش ہوں کہ میں اکثر گیا تھا
والسلام
م ف حسرت!

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply