کمراٹ۔۔۔۔توصیف ملک/قسط1

کمراٹ چلیں ؟

جو انسان سانس لیتا ہے  اس کی زندگی میں مسائل ضرور ہوتے ہیں ، ہم ان مسائل کا بوجھ اٹھائے گھومتے رہتے ہیں ، کبھی گھر کے مسائل اور کبھی معاش کے مسائل اور( کبھی کرکٹ ٹیم کے مسائل )
ان مسائل سے چھٹکارا مشکل ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ہم ان مسائل سے بریک لے سکتے ہیں ، تھوڑی دیر ان کو اپنے سے علیحدہ کر سکتے ہیں اور میں اس کو ضروری بھی سمجھتا ہوں۔

قدرتی خوبصورتی ہمیشہ سے انسان کو متاثر کرتی ہے ، یہ انسان کے خیالات کو یکسر بدلنے کا ہنر رکھتی ہے اور الحمدللہ پاکستان اس قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے۔

مری کالام  تو آنا جانا رہتا  ہے لیکن کمراٹ کی ہوائیں بار بار پیغام دیتی تھیں کہ حضور ذرا ہماری طرف کا پانی بھی نوش فرمائیں , ہمارے پہاڑ آپ کا ” تراہ ” نکالنے کے لیے بے چین ہیں۔
ایک دن دُکان پر بیٹھے ہوئے ہم دو آمنے سامنے کے ہمسائے ایک دوسرے پر دانشوری جھاڑ رہے تھے اور گرمی بھی اس دن شدید تھی ،اتنے میں جناب اجمل خان صاحب پر میں نے ایک کاری وار کیا کہ کیا ہم ساری زندگی ایسے ہی دکانوں پر “سڑتے ” رہیں” گے ؟
وار بہت شدید اور بر وقت تھا۔۔

اسی وقت خان صاحب نے اپنے خالو کو دِیر فون کیا اور سفر  کے  بارے  معلومات حاصل کیں تو انہوں نے اپنے پاس آنے کا مشورہ دیا کہ آگے میں پہنچا دوں گا پہلے میرے پاس آ جاؤ ، پہلے تو خان صاحب نے اپنی گاڑی بارے کہا کہ اس پر چلتے ہیں لیکن صرف دو بندوں کا خرچہ زیادہ ہو جانا تھا لہذا لوکل پر سفر کا پروگرام بنا اور اسی وقت مجھے بتائے بغیر لاری اڈے سے 26 جون 2019 بروز بدھ کی شام 5 بجے کی ٹکٹ بک کروا آئے ، ٹکٹ کا سن کر میں پہلے تو حیران ہو گیا کہ یہ تو واقعی جانا پڑے گا اب۔۔
خیر ابھی ہم صرف دو تھے لیکن گاڑی والے کو ایکسٹرا سیٹوں کا کہہ کر آئے تھے اور بکنگ دو دن پہلے ہی کروا لی گئی تھی۔

اگلے دن میرے ماموں کا فون آیا اور رسمی سلام دعا کے بعد معمول کی ایک دو باتیں ہوئیں پھر ماموں نے سفر بارے پوچھا تو بکنگ کا بتا دیا ، دراصل ماموں پرانے کھوجی ہیں ، ماموں کو پہاڑوں سے عشق ہے ، میرا ایک کزن کہتا ہے کہ اگر مری کے پہاڑ خدانخواستہ کھنڈر بن جائیں اور ہزار سال بعد اگر کوئی وہاں تحقیق کرنے جائے تو ایک بندے کے قدموں کے نشان سب سے زیادہ مری میں پائے جائیں گے۔
سائنسدان جب ان نشانات کی مکمل تحقیق کریں گے تو ثابت ہو گا کہ وہ قدموں کے  نشان میرے عظیم کھوجی ماموں ” نعیم وقاص ” کے ہوں گے ، ویسے تو ماموں کی ” تحقیق ” پورےہوئے (شادی) بائیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی ماموں کچھ نہ کچھ ڈھونڈتے ہی رہتے ہیں۔

ماموں کا اور میرا دو سال سے کمراٹ کے سفر کا پروگرام بن رہا تھا لیکن ابھی تک نا مکمل تھا ، فون بند ہونے کے بعد اجمل خان صاحب سے مشورہ کیا کہ ماموں کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں تاکہ ایک ” تجربہ کار کھوجی ” بھی ساتھ ہو جائے ( حالانکہ کمراٹ میں ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہوتا ، اس معاملے میں پھیکا ہے) تو خان صاحب نے فوراً کہا کہ ضرور ملا لیں ، ماموں کو دوبارہ فون کیا کہ آپ بھی ساتھ چلیں تو انہوں نے کہا کہ دو گھنٹے تک بتاتا ہوں اور کچھ دیر بعد فون پر میرے ایک اور کزن کو ساتھ ملانے کا پوچھا تو کہا پوچھ لیں اگر وہ تیار ہو جائے تو ؟

وہ بھی تیار ہو گیا تو ہم نے بس والے کو فون کر کے مزید دو ٹکٹس کا کہا تو وہ دستیاب تھیں اور پھر ہم چار لوگوں کا قافلہ کمراٹ کے لیے تیار ہو گیا اور اس سفر بارے ہم سب کی معلومات بہت کم تھیں
فیسبک یا یو ٹیوب پر ہی اس بارے دیکھا پڑھا تھا اور شوق بھی اسی وجہ سے بنا تھا لہذا زیادہ بندوں کو تیار نہ کیا ، دوست تو ویسے بھی مشکل سے تیار ہوتے ہیں لیکن چار پانچ مزید تیار ہو سکتے تھے ، ہم چاروں کا اس طرف یہ پہلا سفر تھا اس لیے فیسبک کے دوستوں سے مدد لینے کا سوچا ، اجمل خان صاحب کے خالو دِیر سے دو گھنٹے کے فاصلے پر تھے تو فیصلہ یہ ہوا کہ اپنے طور پر جایا جائے۔

ہم پہنچے دِیر !

کمراٹ کا ہمارا پروگرام چار دن کا تھا ، بدھ کو چلنا تھا اور اتوار کو واپسی   تھی اور آخری دن یعنی ہفتے کو کالام جانے کا پروگرام تھا۔
پہلے آپ کو اپنے سفر کے سٹیشنز کے نام بتاتا ہوں جو کہ ہو سکتا ہے آپ کو بہت کام آئیں کیونکہ ہمیں اپنے سفر بارے کچھ معلوم نہیں تھا کہ دِیر سے آگے کہاں جانا ہے ،ایک گائیڈ سے رابطہ تھا( جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔۔۔
لاھور سے دِیر
دِیر سے تھل
تھل سے کمراٹ
کمراٹ سے واپس تھل ( ہوٹل میں رات ٹھہرنے کے لیے)
تھل سے جاز بانڈہ (کچھ لوگ اس کو جہاز بانڈہ بھی کہتے ہیں )
جاز بانڈہ سے کٹورہ جھیل۔۔۔۔

کٹورہ جھیل سے واپس جاز بانڈہ ( کچھ لوگ اسی دن واپس تھل بھی آجاتے ہیں لیکن اس میں دوہری  مشقت  ہو جاتی ہے )
جاز بانڈہ سے واپس تھل
تھل سے واپس دِیر( ماموں یہاں سے کالام چلے گئے تھے جو کہ پانچ گھنٹے کا خراب راستہ ہے )
دِیر سے واپس ڈائریکٹ لاہور!

کمراٹ جانے سے ایک دن پہلے گرم کپڑوں بارے پوسٹ لگائی تو سعید بابو بھائی نے انباکس میں آنے کا کہا ،کیونکہ وہ کمراٹ کا سفر کر چکے تھے اور وہاں کے بارے تفصیل سے جانتے تھے ، سعید بھائی نے بہت مدد کی اور تفصیل سے سمجھایا ،وہاں ایک گائیڈ کا بھی نمبر دیا ، ساتھ لے جانے والی چیزوں کے متعلق بھی سمجھایا اور پورا چار دن کا روٹ بنا کر دیا جو کہ اس وقت مجھے زیادہ سمجھ نہیں آیا لیکن بعد میں سب باتیں سمجھ آئیں کہ بالکل ٹھیک تھیں اور ایک دوسرے صاحب شہزاد احمد بھائی کا بھی نمبر دیا جو کہ تین دن پہلے کمراٹ سے آئے تھے ،انہوں نے بھی تفصیلاً سمجھایا اور گائیڈ کو بھی فون کر دیا ( آپ دونوں حضرات کا شکریہ )۔۔

کمراٹ میں دن کو دھوپ چبھتی ہے ،جبکہ رات کو جیکٹ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے تو اسی لیے  ایک گرم کوٹ ،ایک گرم ٹراؤزر ، اِحتیاطاً مفلر (جو کہ کام نہیں آیا ) اور گرم چادر لے لی ، ساتھ میں پاور بینک رکھ لیا جو کہ بہت کام آیا ،ویسے تو کمراٹ(تھل) تک بجلی کی مکمل سہولت میسر ہے لیکن اوپر جاتے ہوئے بجلی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے اور وہاں ہم نے دو دن گزارے تھے۔

اب آتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا ، بدھ کو دکان پر کام کاج نبٹاتے دیر ہوگئی تو جلدی جلدی پہلے گھر گیا ، کھانے کے دو لقمے ٹھونسے اور اتنی دیر میں کزن کو اپنے گھر پہنچنے کا کہا کیونکہ وہ گھر کے قریب ہی رہتا ہے ، نہا دھو کر کپڑے بدل کر جلدی سے رکشہ کروایا اور کزن کے ساتھ لاری اڈے پہنچ گئے ،گاڑی صرف ہمارا انتظار کر رہی تھی اور اڈے سے نکل کر باہر آ چکی تھی ، اجمل بھائی کا شکریہ کہ بس کو روک کر رکھا تھا ،اسی افراتفری میں کچھ سامان بھی رہ گیا تھا اور پھر ہلکے پُھکے   مزاح والی پوسٹ بھی لگائی تھی۔

گاڑی میں بیٹھ کر کچھ سکون ہوا جہاں پہلے ہی اجمل بھائی اور ماموں موجود تھے اور اللہ کا نام لے کر سفر شروع کیا ، گاڑی بہترین تھی جس کو یو ٹونگ کہا جاتا ہے ،یو ٹونگ ایک چائینز کمپنی ہے جس کی گاڑیاں اب پاکستان میں چلتی ہیں اور ڈائیوو کا مقابلہ کرتی ہیں بلکہ میں کہوں گا کہ ڈائیوو سے بہت آگے ہیں ، ہماری بس کا کرایہ فی کس 14 سو روپے تھا اور یہ بہت مناسب کرایہ ہے۔
بس کا اےسی بھی اچھا تھا اور سیٹ بھی پُر سکون تھی ،پورے سفر میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا  ( سوائے پشتو گانوں کے ) اور ان گانوں کے فوائد آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔

عصر کی نماز کا مسئلہ بن گیا چونکہ پہلے ہی دیر ہو،چکی تھی تو گاڑی والے نے گاڑی نہیں روکنی تھی ،پہلے تو انتظار کیا کہ کوئی سبب بن جائے لیکن پھر آخری وقت میں سیٹ پر ہی نماز پڑھ لی ، یہاں کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ سیٹ پر نماز نہیں پڑھ سکتے تو یہی مسئلہ میرے ساتھ حج کی پرواز کے دوران بھی ہوا تھا تو واپسی پر ایک مفتی صاحب نے بتایا تھا کہ  نہ پڑھنے سے بیٹھ کر پڑھ لینا بہتر ہے اور کسی دوسرے مفتی صاحب کا حوالہ بھی دیا تھا کہ شاید اس کو بعد میں لوٹانا بھی چاہیے۔

بہرحال بس والوں نے مغرب موٹروے پر اور عشا کی نماز تخت بھائی پڑھائی اور وہیں پر رات کا کھانا بھی کھایا ، تخت بھائی کا ہوٹل اچھا تھا ،میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ مجھے سفر میں متلی ہوتی ہے اور بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے جیب میں ہمیشہ سفر کے دوران دوائی رکھتا ہوں اور کھانا بھی نہیں کھاتا یا بہت کم کھاتا ہوں لیکن میری غیر موجودگی میں چکن روسٹ پلاؤ اور چپلی کباب کا آرڈر دیا جا چکا تھا۔
اس رات ہم  نے خوب کھایا اور دیر تک کھایا !
لیکن شکر ہے کہ عافیت رہی اور اس کی سب سے بڑی وجہ کہ اس کے بعد مجھے ہوش ہی نہیں رہا اور دِیر آگیا ( ویسے ہوش تو مغرب کے بعد بھی نہیں رہا تھا )
دِیر ہم صبح تقریباً  چار بجے کے قریب پہنچ گئے تھے اور اڈے پر ہونقوں کی طرح کھڑے تھے کہ اب کیا کریں ؟

دِیر کاناشتہ !

دیر اڈے پر سامان اتروانے کے دوران ایک دو گاڑی والے آ گئے جن سے تھل ( کمراٹ ) جانے کا راستہ اور کرایہ پوچھا ، ہمیں گائیڈ نے کہا تھا کہ ایک لوکل بڑی گاڑی جاتی ہے جس کا کرایہ تین سو روپے ہے اور وہ نو دس بجے چلتی ہے ، دوسرا آپشن اپنی گاڑی کروانے کا تھا جو کہ ادھر ہی موجود بندے سے پوچھا تو اس نے چار ہزار کرایہ بتایا جس کو سن کر ہم پہلے حیران ہوئے اور مسجد کا راستہ پوچھا تاکہ فریش ہو کر آگے کا کچھ سوچا جائے اور اتنی دیر میں پھر گائیڈ سے رابطہ کیا اور اپنے آنے کا بتایا ، اس نے کہا کہ میں ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہوں آپ مسجد میں ٹھہرو ، ناشتہ وغیرہ کرو میں سات بجے تک آپ کے پاس آ جاؤں گا۔۔۔
یہاں ہم سے غلطی ہوئی تھی۔۔
ہم نے تقریباً یہاں چار گھنٹے ضائع کر دیے  ، ہمیں اسی وقت پرائیویٹ گاڑی میں چلے جانا چاہیے تھا جس کا کرایہ اگر بات کی جاتی تو پچیس سو ہو جانا تھا کیونکہ دِیر سے ایک بہترین چھوٹی جاپانی گاڑی پانچ سو روپے فی سواری کے حساب سے “تھل ” اتار دیتی ہے ، دِیر اور اس سے ملحقہ کے پی کے کے کچھ علاقوں میں نان کسٹم گاڑیاں چلتی ہیں ، جاپانی سمگل شدہ نئی ” فیلڈر ” گاڑی پانچ سے چھے لاکھ میں نئی مل جاتی ہے اور یہ پہاڑی سفر کے لیے مضبوط اور بہترین گاڑی ہے اور چھوٹے علاقوں میں آمدورفت کے لیے یہی استعمال ہوتی ہے ( یہاں سب ہی سمگل شدہ گاڑیاں چلتی ہیں اور نہایت سستی ہوتی ہیں حتیٰ کہ فوروہیل ڈرائیو جیپ بھی پانچ چھے لاکھ میں مل جاتی ہے )
دو گھنٹے مسجد میں گزارے ، وہاں جامع مسجد بڑی تھی ، یہ لوگ مسجد میں لیٹرین نہیں بناتے ، بغیر پردے کے چھوٹی دیواروں والے استنجاء خانے تعمیر کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے لیے وہاں بیٹھنا ایک چیلنج تھا اسی لیے معصوم صورت بنا کر ایک مقامی شخص  سے پوچھا تو اس نے مدرسے کی طرف اشارہ کیا جو کہ پہلی منزل پر واقع تھا ، صبح صبح دِیر میں ٹھنڈ تھی اوپر سے پانی بھی بہت ٹھنڈا تھا ، آگے آپ خود سمجھدار ہیں !

مسجد میں سامان رکھ کر میں تو کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گیا لیکن باقی احباب تتلیوں کی طرح ادھر اُدھر ” اڑنے ” لگے ، میرے کزن نبیل صاحب آدھے گھنٹے میں باہر سے پراپرٹی کا ریٹ بھی معلوم کر آئے ، فل میٹھی چائے پی کر آئے اور شک ظاہر کیا کہ دوکاندار نے چینی میں ہی پانی ، پتی اور کچھ قطرے دودھ شامل کیا تھا اور اسی دوران دو تین لائیو کالز بھی کر لیں جس میں دیر کے پہاڑوں بارے تفصیل بھی بتائی۔

ماموں بھی سبزی اور میوہ منڈی کا چکر لگا آئے تھے اور کافی پُر جوش تھے ، دو گھنٹے بعد ناشتے کے لیے باہر نکلے ، دِیر میں ایک ہی چائے کا بڑا ہوٹل تھا جو کہ مسجد کے قریب تھا ( مقامی لوگوں نے تو یہی بتایا تھا )
وہاں عجیب منظر تھا ، لوگوں کا رش لگا ہوا تھا ،ہوٹل سے باہر دو بندے بڑے سے توے پر ” پوڑیاں ” بنا رہے تھے ، جی ہاں ہمارے پنجاب میں اسے پوڑی ہی کہا جاتا ہے جبکہ وہ لوگ اسے پراٹھے کا نام دے رہے تھے ، میدے کے پیڑے سے بنی روٹی کو گرم تیل (جو کہ اب کالا رنگ اختیار کر چکا تھا ) میں ڈالتے اور بیس سیکنڈ میں ” پراٹھا ” لال ہو کر تیار ہو جاتا اور اندر ہوٹل میں بیٹھے لوگ دھڑا دھڑ کھاتے جاتے ،ساتھ چائے پیتے اور روبوٹ کی طرح باہر نکل جاتے ، وہاں ہوٹل میں ٹھہرنے کا رواج شاید نہیں ہے۔

ہوٹل کا مالک بہت اچھا انسان تھا ، یہ دو لوگ تھے جو شکل سے بھائی لگ رہے تھے ایک چائے بنا تھا تھا اور ایک پیسے وصول کر رہا تھا ، ہوٹل میں موجود ملازم پھرتی سے اپنے کام سر انجام دے رہے تھے ، تندور سے روٹی لانے والا ہر پانچ منٹ بعد روٹیوں سے بھری چنگیر لاتا ، چھوٹے فروٹ کیک درمیان میں پلر کے ساتھ ڈھیر کی  صورت میں موجود تھے اور ایک لڑکا ڈیمانڈ پر فوراً وہاں سے پکڑ کر سپلائی دے رہا تھا ، دو بندے ہاتھ میں بڑی کیتلی لیے گھوم رہے تھے کہ جہاں چائے کی ضرورت ہو فوری سروس دی جائے

ماموں مالک کے پاس گئے اور تعارف کروایا کہ ہم پنجاب سے آئے ہیں ،ذرا بہترین سی چائے اور تندور کی روٹیاں لگوا دیں ، مالک خوشی سے ملا اور کہا آپ کو گڑ والی چائے پلاؤں  گا بیٹھیں  !
تندور کی روٹی ہمارے پنجاب کے نان جیسی تھی اور بہت مزیدار تھی ، یہ لوگ ساتھ ملائی بھی کھاتے ہیں لیکن ہمارے جانے تک ملائی ختم ہو چکی تھی لہذا صرف روٹی کو چائے کے ساتھ کھایا اور بڑا مزہ آیا ، نان نے چّس کروادی تھی، ہوٹل والے سے گپ شپ بھی ہوئی تو واپسی پر اس نے اپنے ہوٹل کے پرنٹڈ پین کا تحفہ بھی دیا ، ماموں کو نان اتنے پسند آئے کہ یہ نان مزید پیک کروا لیے کہ آگے کام آئیں گے ( اور واقعی آگے بہت کام آئے ), بعد میں بازار کا چکر لگایا تو وہاں ناشتے میں کلیجی اور بڑے پائے بھی بِک رہے تھے۔
ناشتے کے بعد گائیڈ سے رابطہ ہوا تو وہ بھی آگیا ، اجمل خان صاحب نے وہاں سے چاقو بھی خریدا ، دِیر کا چاقو بہت مشہور ہے۔
گائیڈ نے ہم سے پوچھا کہ کیسے جانا ہے ، ہم نے اسے کہا کہ بھائی ہم سیر کرنے آئے ہیں تو ہمیں سہولت کے ساتھ سفر کرنا ہے اور سب کچھ دیکھنا ہے ، گائیڈ نے کہا کہ میں ابھی آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا آپ ابھی تھل جائیں وہاں آرام کریں کل ہم ” جندڑی ” میں ملیں گے۔۔۔

جندڑی تھل اور جاز بانڈہ کے درمیان ایک علاقہ ہے( گائیڈ وہیں کا رہائشی تھا ) وہیں پر کمراٹ کی ایک مشہور شخصیت راجہ صاحب کا گیسٹ ہاؤس بھی ہے جو کہ سیاحوں کے لیے ہے ، کہتے ہیں کہ راجہ صاحب کسی سے پیسے نہیں مانگتے بلکہ کہتے ہیں رہنے دو یا جو مرضی دے دو ، وہاں پارکنگ کی سہولت بھی ہے اور آگے جانے کے لیے گائیڈ اور سواریوں کا انتظام بھی کیا جاتا ہے ، آنے جانے والے سیاحوں میں راجہ صاحب بہت مقبول ہیں لیکن کچھ مقامی لوگوں سے استفسار کیا تو وہ کچھ خائف تھے، واللہ اعلم !

گائیڈ نے ایک گاڑی بک کروا دی جو کہ 2500  روپے میں تیار ہو گیا ، گاڑی میں ایک بندہ پہلے ہی بیٹھا تھا ،ہم نے پوچھا کہ یہ بھی ساتھ جائے گا تو اس نے کہا کہ جی یہ بھی جائے گا ورنہ کرایہ 3ہزار ہو گا ، ہم نے 3000   دینا ہی مناسب سمجھا کہ سفر سکون دہ ہو جائے گا۔۔
لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ آگے ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply