فیس بک پر مشہوری کا تڑکا ۔۔۔شاہد یوسف خان

تین روز پہلے فیس بک اکاؤنٹ Disable کردیا گیا مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کروایا اور کیوں کروایا۔ اس کے بعد دوسرا اکاؤنٹ بنایا اس کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ خیر فیس بک انتظامیہ کو میل کی ایک دوست کے مشورے پر CNIC کی نقل بھیجیں تو ایک دن بعد ایک تنبیہہ ای میل کے ساتھ اکاؤنٹ بحال کردیا گیا۔
اب فیس بک پر نومولود دانشوروں نے طنزیہ سوالات کیے کہ تمہارا اکاؤنٹ کیوں بند کیا گیا تو کسی نے کہا کہ سستی شہرت واسطے ایسا خود کیا ہے۔ خیر غصہ تو آیا لیکن برداشت کی صلاحیت اب اندرہی اندر سرایت کر چکی ہے۔ ان سے عرض ہے کہ جناب” لائکز و کمنٹ “کے حساب سے اگر کوئی دانشور بنتا تو یقیناً بہت سارے لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر مشورے دے رہے ہوتے اور ان کے طنز، مزاح اور پوسٹوں پر کتابیں شائع ہو رہی ہوتیں اور روزی روٹی کا ذریعہ بنتیں۔ رہی بات میری پوسٹوں کی تو جناب ایک اچھی سی ملازمت سے ان فیس بکی پوسٹوں سے نکالا گیا تھا جو کچھ فرینڈ لسٹ میں موجود دوست بھی جانتے ہیں آخر کسی نا کسی کو تو تکلیف ہوتی ہے ورنہ کون ایسی بھونڈی حرکت کرتا ہے۔
میں فیس بک کو، بس محدود وقت دیتا ہوں لیکن پھر بھی چند مجبوریوں کے تحت پوسٹ کرتے ہوئے احتیاط کرتا ہوں ۔ اس احتیاط اور اختلافات کی بنیاد پر کئی مرتبہ لوگ گالیوں سے بھی نواز چکے ہیں بلکہ خوامخواہ “لفافہ” صحافت جیسے فضول قسم کے الزام سے بھی نوازتے رہتے ہیں حالانکہ میں کسی صحافتی ادارے سے منسلک نہیں ہوں ایک ادارہ جوائن کیا تھا مگر وہاں کے حالات دیکھ کر چھوڑ دیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری صحافت کا ستون ہی لفافے پر استوار کیا گیا ہے۔ بھائی میں اکثر نجی اداروں میں ملازمت کرتا ہوں اور وہاں سے تنخواہ لیتا ہوں، نہ کسی سیاستدان کا غلام ہوں نا کسی کا ذاتی ملازم ، نظریات کا یہ حال ہے کہ پیٹ خالی ہو تو نظریات سے دماغ بھی خالی رہتا ہے۔ فیس بک کو پرائمری آپشن نہیں سمجھتا جو آپ لوگوں نے سمجھا ہوا ہے۔اسے صرف وقت صرف کرنے کا ذریعہ بنائیں نا کہ تحقیق و تبلیغ کا ۔جناب آپکی دانشوری کی قدر کرتا ہوں لیکن خوشامد نہیں کرتا اور جو میری طبیعت میں نہیں ہے اور نہ ہی برداشت کرتا ہوں۔ لائکز اور کمنٹز کے طریقہ کار بھی سمجھتا ہوں کہ کس طرح بازار سے حاصل کیے جا سکتے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ایک تو آپ کسی ایک پارٹی سے اپنا تعلق ظاہر کریں اور خصوصاً مسلم لیگ سے نہ ہو کیونکہ آجکل اس کے لوگ خود کنفیوژن کا شکار ہیں ورنہ آپ کے لائکز کم ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ جماعت کچھ اپنوں اور کچھ بیگانوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہے(یہ زوال صرف فیس بک تک رکھیے فی الحال)۔۔
آپ کسی ایک مسلک کی نمائندگی اختیار کریں اور دوسرے مسلک کو لتاڑ کے رکھ دیں بلکہ اپنے اپنے طریقے سے سب کو کافر بنائیں یا مشرک اور گستاخ ۔وہ آپکی فلسفیانہ نگاہ سے ہے، چاہے آپ کی عمر اکیس سال ہے اور آپ کو چھ کلمہ بھی نہیں آتےلیکن آپ دوسرے مسلک کو لتاڑ کر بہت مشہوری حاصل کر سکتے ہیں۔(میں کسی مسلک کے خلاف نہیں ہوں بلکہ ، بت پرستی، پیر پرستی، اندھی عقیدت، جھوٹے قصے، من گھرت کرشمات اور ان ڈرامے باز مذہبی پیشوائوں کے خلاف ہوں چاہے کسی بھی مذہب اور مسلک کے ہوں)۔۔۔
تھوڑا بہت آپ لکھنا جانتے ہوں اور آپ کسی بڑے شہر اسلام آباد، کراچی اور لاہور سے اپنا تعلق ظاہر کریں یہ بھی ایک phenomenon ہے(جسے سمجھ آجائے ورنہ گوگل سرچ کرے)۔۔
اپنا سٹیٹس ہائی فائی ظاہر کریں یا کود کو فارنر بتائیں مطلب جس طرح کچھ دوسرے ملکوں میں رہنے والے خصوصاً امریکہ ،یورپ والے تو خودد کو پاکستان کا ہی ستون سمجھتے ہیں اور ہمارے ہاں لوگ انہیں بھی تیس مار خان سمجھتے ہیں “چاہے شکلوں وی چنگے نہ ہوون تے عقلوںوی”۔
بڑی دانشوری کا طریقہ سیکولرازم، لبرالزم اور اسلام پر بہتان تراشی کریں، اسلامی عبادات پر طنز و مزاح کریں بس پھر جھومتے جائیں جس طرح فرنود و قبیلہ مشہور ہے۔۔۔۔
دن سارا لطیفے ترتیب دیں اور فیس بک پر اپلوڈ کریں کوئی ہنسے نا ہنسے آپ سمائلی لگا کر ہر آدھے گھنٹے بعد دوستوں کو بتائیں کہ آپ مشتاق یوسفی ، قدرت اللہ شہاب یا انور مقصود سمجھیں یا بتائیں (نام نہیں لیتا برا منا جائیں گے)۔۔
اپنی ہر روز کی ہر لمحے نئی نئی تصویریں اپلوڈ کریں یا پھر کھانا کھانے، لیٹرین جانے، خارش کھجانے اور سوتے جاگنے کے اسٹیٹس سے فیس بک پر موجود دوستوں کے سات طبق روشن کرنے یا ذلیل کرنے سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ دوستوں کو ایڈ کریں اور اپنی ہر پوسٹ میں انہیں کہیں سے بھی گھسیٹ کر لائیں مینشن کریں یا ٹیگ کریں وہ باامر مجبوری بھی ایک کمنٹ اور لائک ضرور دیں گے۔۔۔۔۔۔
یہ وہ طریقہ کار ہیں جو آپ کو فیس بک پر مشہوری کے لیے کافی مفید ہوسکتے ہیں بلکہ کئی تجربوں اور تحقیق کے مطابق یہ تجربے کامیاب ہوئے ہیں لیکن ہم جیسے ناقص انسان پر ایسا کوئی اثر نہیں ہوا اس کی وجوہات کافی ہیں جو پھر کبھی۔۔۔۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی خود کی مشہوری کی تو جناب آپ جب سے فیس بک پر دو لائنیں لکھنے شروع ہوئے یا جب آپ پیدا ہوئے ہماری تاریخ پیدائش اور ہماری لکھائی کی پیدائش میں کم از کم آپ سے کئی سال بڑے ہیں اور لیڈنگ نیوزپیپرز میں اس فیس بک کو ریگولر بنانے سے پہلے لکھتے چلے آرہے تھے بلکہ یہ لکھنے کا کیڑا بچپن سے ہی تھا جب کاپی پیسٹ کا زمانہ نہیں تھا تو بذریعہ خطوط ماہنامہ پھول، تعلیم وتربیت اور ہمدرد میں اس وقت کے ذہن کے مطابق لکھتا رہا ہوں۔
فیس بک پر اچھا لکھنے والے بھی بہت ہیں جو کسی پر سوال نہیں کرتے بلکہ لکھنے کو ہی ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ ان کے نام کافی ہیں جو شاید یہاں لکھنا مناسب نہیں ہے ۔ بہت ہیں میری نظر میں وہ مجھے پسند بھی ہیں اب آپ کی اپنی پسند انہیں جس زاویے سے دیکھیں۔ باقی کچھ متکبرین بھی ہیں جو فیس بک پر خود کو افلاطون ، سقراط یا ابن خلدون سمجھتے ہیں یا کسی میڈیا ادارے سے وابستہ ہیں تو رہنے دیں جی جو بس خوشامد کے لیے رالیں ٹپکاتے پائے گئے ہیں۔۔۔
ایک تو ذاتی طور پر اب کسی نظریے کی حمایت نہیں کرتا لوگ مجھے پٹواری یا ن لیگی کہتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ مسلم لیگی خاندان سے ہوں لیکن خود اس پر ایمان نہیں رکھتا نہ ہی میرے لیے وہ حرف آخر ہیں یا مسلم لیگ کے لیے سربکف ہوں۔ باقی ذہنی طور پر ایک اسلامی نظریاتی ہوں اور سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے سے بہت نفرت کرتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسے علاقے سے تعلق ہے جہاں پر ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے اس خطے کو پسماندہ بنائے رکھا اور لوگوں کو غلام اور شودر سمجھا جاتا ہے ابھی تک لیکن بائیں بازو کے خیالات سے بہت قلیل اتفاق کرتا ہوں زیادہ نہیں۔
ایک طالب علم ہوں اور طالب علم کی نگاہ سے سوچ سمجھ سکتا ہوں نہ ہی میری اپنی سوچ کے اوپر نافذ کرنے واسطے ہے نا میرے لیے میری ذاتی سوچ دائمی ہوسکتی ہے۔ آپ اپنی سوچ کے مطابق سوچیں لیکن تمیز کے دائرے میں۔۔
کسی بھی پارٹی کے اچھے اقدامات کی تعریف کرتا ہوں، ذاتی طور پر عمران خان کا حمایتی تھا بلکہ میرے پاس ابھی بھی ممبرشپ موجود ہے بلکہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ووٹ دینے کا اہل ہوں۔ لیکن خان صاحب نے اٹھارہ، بیس سال جو سیاسی محنت کی اسے گزشتہ الیکشن اور اس کے بعد ہونے والے دھرنوں میں ضائع کردیا۔ پھر اختلاف یہ ہے کہ سیاسی طور پر خود اپنے ہی  پہلومیں ان جاگیردار، سرمایہ دار اور سیاسی گدی نشینوں کو لا کر کھڑا کردیا جو پہلے سے ہی قومی مال لوٹنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
بھٹو مرحوم کے نظریات پڑھے تو اچھے بھی لگے لیکن بھٹو مرحوم  سے غلطیاں ہوئیں اور اب کی پیپلز پارٹی ایک جمہوری جماعت تو ہے لیکن اس کی سمجھ یہی آرہی ہے کہ کچھ کرنے کی بجائے وہ بھی صرف نعروں تک محدود ہیں بلکہ گزشتہ حکومت تو لوٹ مار میں تاریخی ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔۔۔
جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے ، ایک تو موروثیت سے پاک ہے دوسرا لالچ ، طمع اور کرپشن سے پاک ہے سیدھی بات یہ ہے کہ سب جماعتوں سے بہتر اور منظم ہے لیکن مذہبی ہونے کی وجہ سے لوگوں سے ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ سید مودودی سے کوئی ان کا ہم عصر اختلاف کرنا چاہے تو کرسکتا ہے سیاسی اور فروعی طور پر، لیکن یقین کیجیے پاکستان میں ان جیسا سیاسی سمجھ بوجھ والا انسان پیدا نہیں ہوا ، ان سے غلطیاں ہوئی ہوں گی جماعت سے بھی ہوئی ہیں کیونکہ اس میں بھی انسان ہیں ۔اگر ان غلطیوں سے توبہ کر کے اور جماعت لمبی اننگز کھیلنے کے لیے تیار رہے تو مجھے امید ہے کہ ایک دن کامیاب ہو جائے گی۔
قادری صاحب کی سیاست شکوک کی چادرمیں لپٹی ہوئی ہے؟پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنے کا مقصد کیا تھا؟انہیں کس نے عمران خان کا کزن بنوایا؟عمران خان بعد میں کیوں ان سے گریزاں رہنے لگے؟وہ مختلف وقفوں سے پاکستان میں کیا کرنے آتے ہیں؟ان کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے؟وہ کسی نہ کسی بحران کو انگیخت کرنے ہی کیوں آتے ہیں؟ان میں سے کسی سوال کا شافی جواب موجود نہیں ہے۔
باقی دوسری جماعتیں بھی جمہوریت پسند ہیں ان سے قدرے بہتر ہیں جو آمریت کے غلام رہے ہیں ۔ باقی رہی انقلاب کی بات تو جناب “انقلاب” کے نام کے ساتھ ہمارے سارے سیاستدان ایک بھونڈا مذاق کرتے ہیں۔ انقلاب کے لیے لیڈر اور قومیں چاہیئں ہوتی ہیں جو دونوں ہمارے پاس نایا ب ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply