مفادِ عامہ کی خاطر ایک مثالی سرجن کا تعارف۔۔۔ سلیم فاروقی

آپ ہمارے ایک جاننے والے ہیں۔ نام میں کیا رکھا ہے آپ نام کچھ بھی رکھ لیں، آپ ان کو صرف سرجن وقار کہہ لیں یا ،سرجن” ذوالوقار “ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ان کو اپنے نام سے زیادہ بس اپنے کام کی فکر رہتی ہے۔ اپنے کام کی شہرت ہی چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے باقاعدہ کچھ لوگ مخصوص کر رکھے ہیں جو ہر وقت ان کے نام کی نہیں بلکہ کام کی شہرت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس چکر میں کبھی کبھار سرجن صاحب کا نام بھی لے لیتے ہیں لیکن سرجن صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد تو صرف کام کی شہرت ہے نام کی نہیں۔ اور نام ہم اس لیے بھی نہیں لیں گے کہ ہم بھی بلا معاوضہ کسی کی شہرت کیوں کریں۔
.آپ سرجنوں کی دیگر اقسام سے ذرا مختلف سرجن ہیں ۔ عام طور پر سرجن کسی ایک مرض سے منسلک ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی دل کا سرجن ہے، کوئی گردوں کا، کسی کا میدان ہڈیاں ہیں اور کسی کا امراض پیٹ، کسی کو زچگی میں کمال حاصل ہے تو کسی کو دماغ میں۔ لیکن ہمارے یہ سرجن صاحب ہر قسم کے امراض کا علاج سرجری میں ڈھونڈ لیتے ہیں۔
.یہ اپنی تشخیص اور علاج کی صلاحیت کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ہر قسم کے مریض کا علاج کرنے پر ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ مریض خواہ زکام کا ہو یا کینسر کا ،یہ ہر ایک کا علاج بذریعہ سرجری ہی کرتے ہیں۔ بلکہ یہ تو تشخیص بھی آپریشن تھیٹر میں ہی کرنا پسند کرتے ہیں۔ علاج کے اتنے خواہاں رہتے ہیں کہ اگر مریض خود سے نہ بھی ان کے پاس آئے تو یہ خود مریض کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس کو اپنے معاونین کی مدد سے ڈنڈا ڈولی کر کے اپنے آپریشن تھیٹر میں لے آتے ہیں اور اس کا علاج شروع کردیتے ہیں۔ مریض اور اس کے اقرباء لاکھ چیختے رہیں کہ یہ چھینک آئی ہے کسی قرض خواہ کے یاد کرنے کی باعث آئی ہے اس کا زکام سے کوئی تعلق نہیں، لیکن یہ مریض کو اپنے آپریشن تھیٹر میں لا کر اپنا تشخیصی عمل شروع کر دیتے ہیں اورثابت کردیتے ہیں کہ یہ چھینک تو محض ایک علامت تھی ،مریض سخت قسم کے وائرس کا شکار ہوچکا ہے اور اس وائرس کو نکالنے کے لیے ایک عمل جراحی ضروری ہوگئی ہے۔
.گذشتہ دنوں ایک مریض کو اپنے آپریشن تھیٹر میں لے آئے۔ اپنے مخصوص آلاتِ جراحی کی مدد سے اس کے مرض کی تشخیص شروع کی اور مرض کو پالیا اور فوراً ہی “عملِ جراحی” کا آغاز کردیا۔ کچھ دیر کے بعد مریض کے اقرباء کو بتایا مریض کے پیٹ میں نادر قسم کی رسولی ہے، اگر فوراً نہ نکالی گئی کو مریض کی جان کو خطرے کے علاوہ یہ معاشرے میں چھوت کی طرح پھیل بھی سکتی ہے اور مریض کے اقرباء کے علاوہ پورے معاشرے کو بھی اس کا شکار بننا پڑ سکتا ہے، لہٰذا اس کا نکالا جانا ضروری ہے۔
.اس سے پہلے کہ مریض کے اقرباء کسی فیصلے پر پہنچتے سرجن صاحب نے مریض کا پیٹ کھلا چھوڑا، ایک آدھ نرسنگ سٹاف کو مریض کے پاس چھوڑا اور دوسرے مریض کی طرف متوجہ ہوگئے اور فوری طور پر اس کی جراحی شروع کردی۔ یہاں جراحی کے ذریعے انہوں نے تشخیص کیا کہ مریض کا جگر خراب ہوچلا ہے، فوری طور پر اس کا کچھ حصہ نکالنا پڑے گا بصورت دیگر مریض کی جان کو خطرے کے علاوہ پورے معاشرے کو بھی بیماری کی لپیٹ میں آنے کا خطرہ ہے۔
.پھر یہاں بھی اقرباء کے فیصلے سے قبل ہی ایک اور مریض کی طرف لپکے جس کوسر درد کی شکایت تھی۔ جگر کے مریض کا پیٹ کھلا چھوڑ کر درد سر کے مریض کا پیٹ کھول کر اس کی تشخیص شروع کردی تو پتا چلا اس مریض کے پیٹ میں کچھ غیر ہضم شدہ غذائیں موجود ہیں جس کی وجہ سے اس کے سر میں درد رہتا ہے۔ اس کے لیے مریض کے معدے کا آپریشن کر کے وہ غیر ہضم شدہ غذائیں نکالنا پڑیں گی۔
.ابھی اس درد سر کے مریض کا پیٹ کھلا ہوا ہی تھا کہ ایک اور مریض ان کے پاس لایا گیا جو کچھ بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا، سرجن صاحب فوری طور پر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی بھی تشخیص بذریعہ جراحی کا عمل شروع کردیا۔ کافی دیر تک مریض کاپیر کھول کر اس میں اپنا سر کھپاتے رہے۔ بالآخر مرض کو پکڑ ہی لیا لیکن اس سے قبل کہ مرض کا اعلان کرتے اور مریض کا اعلان کرتے، ان کی ڈیوٹی کا وقت پورا ہوگیا۔ چونکہ ڈیوٹی کے پکے ہیں اس لیےفوری طور پر آپریشن روم سے باہر آگئے اور پیچھے مریضوں کا پیٹ اور پیر کھلا ہی چھوڑ دیا اور متعلقہ نرسز سے کہا کہ میرا وقت تو پور اہوگیا ہے اب آنے والا سرجن ہی ان کا علاج مکمل کرے گا۔آنے والے سرجن نے آتے ہی نرسنگ سٹاف کو حکم دیا کہ ان تمام مریضوں کے زخم سی دو کیوں کہ میں دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا ہوں، میں اپنے مریضوں کا خود تعین کروں گا اور خود ان کا علاج کروں گا۔
.نتیجہ یہ کہ ان مریضوں کے زخم بناء علاج کے ہی سی دیے گئے اور آج وہ مریض ہر ایک سے کہتے پھرتے ہیں کہ میں تو بالکل صحت مند تھا میری جراحی بلا وجہ کی گئی، مجھے بلا وجہ بدنام کیا گیا۔ ہمارے پیارے سرجن صاحب کہتے ہیں کہ بکواس کرتا ہے مریض، اس میں وائرس بھی ہے، دوسرے کے پیٹ میں رسولی بھی ہے، تیسرے کے پیٹ میں غیر ہضم شدہ غذا بھی اور چوتھے میں بھی مرض موجود ہے۔ اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اگر یہ مرض تھے تو علاج مکمل کیوں نہ کیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ میرے اوقاتِ کار میں جتنا ہوسکتا تھا میں نے کردیا اب یہ تو آنے والے کا فرض تھا کہ وہ علاج مکمل کرتا لیکن وہ بے چارہ بھی کیا کرے پورے معاشرے میں اتنے مریض پڑے ہوئے ہیں کہ اس کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑگیا ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ “سرجنز” کے اوقات کار میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ علاج مکمل کر سکیں۔
.ہمارے خیال میں یہ خواہش بالکل بجا ہوسکتی ہے کہ “سرجنز” کے اوقات کار میں اضافہ کردیا جائے تاکہ وہ علاج مکمل کرسکیں۔ لیکن پہلے اس سوال کا جواب بھی تو ملے کہ بھائی ایک مریض کا علاج کیے بغیر دوسرے مریض کی سرجری شروع ہی کیوں کرتے ہو؟ یہ آگے دوڑ پیچھے چھوڑ آخر کب تک کرتے رہو گے؟؟؟

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply