مکالمہ قارئین کا شکریہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

سوشل میڈیا یکا یک سامنے آیا اور روایتی میڈیا کا زبردست حریف بن گیا۔ہمارا سماج اس حوالے سے بھی اپنے روایتی مزاج سے باہر نہ آ سکا ۔سوشل میڈیا پر کئی ایک بلاگرز نے جارحانہ ،شاطرانہ اور ناقدانہ طرز تحریر اپنا کر توجہ حاصل کی۔روایتی میڈیا کو ٹف ٹائم دینے میں اردو بلاگنگ اور نیوز ویب سائٹس نے اپنا لوہا منوایا ہے۔میں روایتی میڈیا کا بندہ ہوں،کئی قومی اخبارات کے لیے مستقل کالم نگاری کرتا ہوں اور چند قومی اخبارات کے ادارتی صفحے کی بہ طور انچارج ذمہ داری بھی ادا کر تا آیا ہوں۔سوشل میڈیا کے حوالے سے میرے کچھ تحفظات تھے جو ابھی تک قائم ہیں۔ یقیناً ہر عامل صحافی کو بھی ایسے ہی تحفظات ہوں گے۔یہ قصہ مگر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے مکالمہ ہونا چاہیے اور کیوں نہ ہو؟ جبکہ سوشل میڈیا نے ہی مکالمہ کا پلیٹ فارم بھی مہیا کر دیا ہے۔اخبارات میں ادارتی صفحات کا معیار کڑا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کی بلاگنگ ویب سائٹس،یا نیوز سائٹس اس حوالے سے نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔یہ رویہ ان ویب سائٹس کے ایڈیٹوریل بورڈ کا” اختیاری رویہ” ہوتا ہے،اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ قارئین کو اپنی طرف کھینچنا ہوتا ہے،تا کہ ٹریفک بڑھے۔پرنٹ میڈیا میں اسے سرکولیشن کہا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا والے اسے ٹریفک کہتے ہیں۔ٹیکنالوجی نے اپنا اثر دکھایا ،بخدا اب تو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانگ میڈیا بھی سوشل میڈیا کے زیر اثر ہے۔سوشل میڈیا نے انسان کی خود پسندی کی عادت کو تسکین دی اور کئی نئے زاویے وا کیے۔ فیس بک اور ٹویٹر کی آمد سے پہلے اردو ،ویب سائٹس کا کوئی نام نہیں تھا، ممکن ہے ایک آدھ ہو مگر مقبول نہ تھی۔پھر اچانک سے اردو کی تین چار ویب سائٹس یوں مقبول ہوئیں کہ الا ماشا اللہ۔۔۔مجھے نہیں پتا کہ انعام رانا صاحب کو بیرسٹری جیسے” مغز مارے کام “سے وقت کیسےملا کہ انھوں نے ویب سائٹ لانچ کرنے کا سوچا اور پھر اسے آن ایئر بھی کر دیا۔
میں مکالمہ کے ساتھ بڑا حادثاتی طور جڑا ہوں،اوریہ حادثہ جان لیوا کے بجائے، “دل لیوا ثابت” ہوا۔رانا صاحب اور موسیو میرا دل لے اڑے۔ اسلام آباد کے ایک قومی اخبار میں، میں ادارتی صفحے کا انچارج تھا اور علی سجاد شاہ جی، ہمارے پنڈی آفس کے بیورو چیف تھے۔ دونوں ایک دوسرے کا بڑا خیال رکھتے تھے،شاہ جی، جب بھی میٹنگ میں آتے ،فراغت پا کرمجھے لازمی ملتے۔ مجھے بھی ان کے دیدار کی آس لگی رہتی۔ہم دونوں ایک دوسرے کا تا حال بے حد احترام کرتے ہیں۔ علی سجاد شاہ ایک کھر ا اور دلدار بندہ ہے، یاروں کا یار۔رانا صاحب اور علی سجاد شاہ جی، ایک دوسرے کے سوشل میڈیا فرینڈ زہیں، کسی دن علی سجاد نے رانا صاحب کو میرا حوالہ دیا، تعارف ہوا، پہلی میٹنگ انعام رانا، اور موسیو جی کے ساتھ آن لائن ہوئی۔مکالمہ کا تعارف ہوا، اور چل سو چل۔مکالمہ کو شروع ہوئے ابھی شاید تین ہفتے ہی ہوں گے کہ میں نے بہ طور نیوز ایڈیٹر،اور اداریہ نویس اسے جوائن کر لیا۔بلکہ زیادہ بہتر لفظ یہی ہے کہ میں نے مکالمہ کو اپنا لیا۔

میرا اپنا رحجان مکالماتی ہے۔ دوسرے کی مدلل بات کو تسلیم کرتا ہوں اور کبھی بھی اپنی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتا۔انعام اور موسیو بھائی کے بعد احمد رضوان جی سے تعارف ہوا،حافظ صفوان چوھان صاحب جیسی سیمابی و سیلانی شخصیت سے بھی ربط بڑھا۔رانا جی سے پوچھا کہ مکالمہ کے اہداف کیا ہیں؟کہنے لگے سماج میں،انتہا پسندی کو رد کر کے مکالمہ کو رواج دینا۔گولی کے بجائے دلیل کو رواج دینا۔بات دل کو لگی۔ ایک بیرسٹر یقیناً دلیل کو ہی اپنا ہنر بناتا ہے۔
ہم سب دوستوں نے مل کر مکالمہ کے لیے محنت شروع کر دی ،اس جان کاری میں اسما مغل کا ذکر نہ کرنا پرلے درجے کی بد دیانتی ہو گی۔ویب سائٹ کے مختلف تکنیکی زاویے بھی رانا صاحب نے تبدیل کیے۔مقصد ایک ہی رہا کہ قارئین کو معیاری تحریر کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب ویب صفحہ بھی دیا جائے۔مکالمہ دائیں بازو کا ترجمان ہے یا بائیں بازو کا؟اس کا فیصلہ کچھ افراد نے عجلت میں کر لیا، مگر مکالمہ نہ تو دائیں بازو کا ترجمان ہے اورنہ بائیں بازو کا۔۔مگر مکالمہ، صرف مکالمہ اور دلیل و برہان کا ترجمان ہے۔مکالمہ، امن، محبت،رواداری اور احترامِ انسانیت کا ترجمان ہے۔مکالمہ اتحاد بین المذاہب کے ساتھ ساتھ اتحاد بین الاسلام کا ترجمان ہے۔اگر معروف معنوں اور، رویوں میں بھی دیکھا جائے تو مکالمہ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ہر دو فکری رویوں کے افراد باہم شیرو شکر ہیں اور مکالمہ کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ یہی مکالمہ ہے اور یہی مکالمہ کا ہدف بھی۔
مکالمہ پر بہت سے نئے لکھنے والے آئے،بہت سوں نے سیکھا،کئی ایک میری صحافیانہ ایڈیٹنگ کے مراحل سے بھی گذرے۔چند ایک تو ایسے تھے کہ دو چار سطری کہانیوں کو ہی شاہکار سمجھنے لگے۔کچھ البتہ ثابت قدم رہے اور ایڈیٹنگ کے کڑے معیار کو اپنے لیے رہنما سمجھا اور مطالعہ کی طرف رغبت کی۔ آج وہ کافی اچھا لکھ رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے لکھاری کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ محنت سے گھبراتا ہے، مطالعہ نہیں کرتا، لیکن جو مطالعہ کرتے ہیں وہ دلوں کے سمندر  میں لفظوں کے جال پھینک کر بڑے بڑے ایڈیٹروں کو رام کر لیتے ہیں۔مکالمہ کو یہ اعزاز ہے کہ اس نے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کی تو مشاق لکھاریوں کا تشکر بھی ادا کیا۔نئی اڑان بھرنے والی ویب سائٹس میں سے مکالمہ وہ پہلی ویب سائٹ ہے جس نے باقاعدہ اداریہ لکھنا شروع کیا اور ایک بڑے اشاعتی ادارے کی طرز پر حالات حاضرہ،قومی و بین الاقوامی معاملات و مسائل پر اپنی پالیسی لائن دی۔ہم نے مکالمہ کے لیے کئی زاویے صفحہ ذہن پر تشکیل دے رکھے ہیں اور قارئین دیکھیں گے کہ آنے والے دنوں میں مکالمہ مزید نکھر کر سامنے آئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقین سب سے بڑی دولت ہے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ایک سال میں مکالمہ نےجس قدر محبتیں سمیٹی ہیں،ہم عصر ویب سائٹس اس کا عشرِ عشیر بھی نہ پا سکیں۔زندہ معاشروں کی علامت ہے کہ باہم مکالمہ کرتے ہیں۔ جہاں مکالمہ کے بجائے،جبر،تشدد،اور انتہا پسندی جڑ پکڑ لے وہ معاشرے درندوں کی تفریح گاہ بن جایا کرتے ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں، کہ اپنے ملک، سماج اور عالم انسانیت کو درندوں کی تفریح گاہ نہیں بننے دیں گے، بلکہ ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرنے کا ہنر بانٹیں گے،۔قارئین نے ہمیں اتنی طاقت اور حوصلہ بخشا ہے کہ ،مکالمہ نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے۔جہاں روشنی ہے، امید ہے،ہنر ہے،آرام ہے۔میں ،مکالمہ کے ایڈیٹوریل بورڈ،سوشل میڈیا ٹیم اور  نیوزایڈیٹرز کی جانب سے قارئین کا مشکور ہوں، جنھوں نے مکالمہ ویب سائٹ اور مکالمہ ویب ٹی وی کو پذیرائی بخشی اور ہمیں سوشل میڈیا کی پگڈنڈیوں پر لڑکھڑانے سے بچایا۔میڈیا ہاوس روایتی ہو یا غیر روایتی، اس کی طاقت و قوت اس کا ایڈیٹوریل بورڈ اور اس کے ناظرین و قارئین ہی ہوتے ہیں۔آپ سب قارئین کی صحت و سلامتی کے لیے ہمہ وقت دعا گو ہیں ہم۔آپ کی محبتیں اور مکالمہ پہ اعتماد ہی ہمارا کل سرمایہ ہے۔ہم مکالمہ کی ادارتی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کے بھی شکر گذار ہیں کہ وہ اختلاف کے باوجود بھی ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply