جُھلسے ہوئے دنوں کا ایک پرندہ ۔۔۔۔جاویدخان

ہاڑ کے آخری دن ہیں۔جھلسے ہوئے دن،اِن دِنوں میں لُو لگ جاتی ہے۔فصلیں،پتے اَور سبزیاں مُرجھا جاتی ہیں۔سبزے کا پسینہ خشک ہو جاتا ہے۔نباتاتی زندگی کاحسن مُرجھاہٹ کاشکار ہے۔گھنے پیڑوں کو لُولگنے سے پتے پیلے پڑ گئے ہیں۔زیر زمین پانی مزید،زیرِ زمین ہوگیا ہے۔یاپھر بھاپ بن کر آسمانوں کو اُڑ گیا ہے۔اَبر دُور آسمانوں پر منڈلاتا پھرتا ہے،نیچے نہیں اُترتا۔کبھی اِن ہی دِنوں یکایک کالی سیاہ گھٹائیں اٹھتی تھیں اَور آن کی آن میں زمین پر برس جاتی تھیں۔جل تھل ہو جاتا تھا۔زمین زندہ ہوجاتی تھی،سبزے میں جان آ جاتی تھی۔ یوں لگتا جیسے کسی نے پتا پتا،ڈالی ڈالی دھوڈالی ہو۔یہ نباتاتوں کا،سبزے کا، حبس زدہ دنوں میں غسل صحت ہوتا۔مکئی کے کھیتوں میں اُگی جنگلی سبزیاں گنیاراَور ایڑ،یہ پانی پی کر خوب ڈنٹھل نکالتی ہیں۔مگر ساون اَبھی پر تول رہا ہے۔جھلساہٹ نے میرے صحن میں کچی عمر کے چنار کو متاثر کیا ہے۔اِس کے پتوں پر پیلاہٹ حملہ آور ہے۔پرندوں نے جو بچے پالے ہیں،اَب اِنھیں اُڑنا،پھدکنا اَو ر چُگنا سیکھا رہے ہیں۔اَیسا وہ کئی بار کر چکے ہیں۔حبس اِنھیں بھی پریشان کر رہا ہے۔خاص طور پر جب قدرتی چشمے اَور تالاب خشک ہو چکے ہیں۔پپیہا اُن پنچھیوں میں شامل ہے جو زیادہ سریلے ہیں۔سب شاعروں نے اسے دیکھا ہے یانہیں،سنا ضرور ہو گا۔

اُداس اَور میٹھے سُروں کا مالک یہ نیم سیاہ پرندہ فاختہ سے کافی چھوٹا ہوتاہے۔دن کی تمازت ڈھلتی ہے تو پرندے،جو گھنے پیڑوں میں چھپے ہوتے ہیں،نکل آتے ہیں۔شاخوں پر بیٹھ کر اَپنے مُنہ  میں جوپتنگے اَور پھل دار دانے بھر کر لاتے ہیں اَپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔شام ڈھلتے ہی یہ اَپنے اَپنے آشیانوں میں جابیٹھتے ہیں۔رات کی سیاہی پھیلتی ہے تو ٹڈیوں کاساز شروع ہو جاتا ہے۔پیر پنجال اَور ہمالیہ کی خنکی،گرم راتوں سے مل کر ٹھنڈی ہوائیں وادیوں میں بہاتی ہے۔یہ ماحول شب گردی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔دُور بہت دُور سے،رات کے کسی پہر،کسی شب گرد کی بانسری سے میٹھی اُداس لے اُبھر تی ہے تو دوسری طرف کسی شاخ پر بیٹھے پپہے کی سریلی آواز۔

پپیہا فطرت کابہت ہی پیارا نغمہ نگار ہے۔کسی کنکریٹ کے ہال میں بیٹھے نغمہ نگار اَور اِس کے ڈھیر سارے سازندے جو چاہے فن کا مظاہر ہ کر ڈالیں،ایک طرف اَوردوسری طرف کیکر کی شاخوں میں بیٹھ کر یہ سریلاپنچھی جو رات کوپہروں بولتا جاتا ہے۔اس کی آواز پر شاعروں نے شاعری کی،نغمہ نگاروں نے اسے گایا،مگر جو سکون رات کے آخری پہروں میں اس کی آواز سے ملتا ہے وہ کسی مشین زدہ سُر میں ہرگز نہیں ہے۔اگر آپ نے پپیہے کو سننا ہو تو آدھی رات کو کسی تنہا ٹیکری پر بیٹھ جائیے۔جب رات،خاموشی اَور پیر پنجال کی خنکی تال میل کر رہے ہوتے ہیں۔ ۔تو کیکروں کے جھنڈ سے یہ بولتا ہے۔پھر دُورتک گہری وادیوں میں اس کی آواز اترتی جاتی ہے۔

ہر جھلسے ہوئے دن کو آخر کار سیاہ ٹھنڈی رات میں بدلنا ہوتا ہے۔خاص طور پر جب یہ دن ہمالیہ یا پیر پنجال کی کسی وادی میں گم ہو رہا ہو۔جیسے جیسے رات آگے بڑھتی جاتی ہے۔آسمان پر ٹھنڈے ٹمٹماتے تارے واضح ہوتے جاتے ہیں۔ٹھنڈی ہوائیں بدن کو سہلانے لگتی ہیں۔تو پپیہا بولنے لگتاہے۔کیا کوئی ہے جو ایک رات،اس کے اداس سُروں کے نام کر دے؟۔۔۔۔بجائے موبائل پراپنی رات خراب کرنے کے۔آپ کو اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔اس کی آواز آپ کے من کے مندر میں بیٹھے،فطرت کے پجاری کو خود جگانے آئے گی۔کیا کوئی ہے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ورڈز ورتھ ہو تا تو ضرور ایک ٹھنڈی،گھنی اَور ہمالیائی خنکی سے بھری رات اس پرندے کے سُروں کے نام کرتا۔کیادنیا میں کوئی اَور بھی جگہ ہے جہاں گرم دنوں کی ٹھنڈی راتوں کو سُریلے پرندے رَس گھولتے ہیں۔ہاں میری ان وادیوں میں ایک پرندہ ہے۔جھلسے ہوئے دنوں کا ایک سُریلا پرندہ۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply