مشورہ مفت ہے۔۔اظہر سیّد

ایٹمی پروگرام محفوظ رہے گا تو اتنی بڑی فوج بچ جائے گی اور اس کے کارپوریٹ مفادات بھی ۔اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مفادات تب تک محفوظ ہیں جب تک ریاست کی معیشت مستحکم ہے ۔ن لیگ کی اتحادی حکومت جس کا کہنا تھا سابقہ حکومت کی معاشی نادہندگی کا بوجھ ہم نہیں اٹھائیں گے اس نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے یہ بوجھ اٹھا لیا ہے ۔۔اتحادی حکومت نے صرف بوجھ نہیں اٹھایا ،اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو تحفظ دیا ہے اور انہیں ریسکیو بھی کیا ہے اور سوچ سمجھ کر کیا ہے۔

پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاشی صحتیابی کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا تو کوئی دوست ملک بھی اسے پیسے نہیں دے گا اور نہ کوئی عالمی مالیاتی ادارہ ۔
جب کوئی پیسے نہیں دے گا تو ریاست نادہندہ ہو جائے گی اور اسٹیبلشمنٹ بند گلی میں پہنچ جائے گی ۔یہ وہ صورتحال تھی جس میں نوسر باز کو عدالتوں سے اس وقت ریلیف ملا ،جب عدالتوں نے جتھوں کو دارالحکومت میں داخلے کی اجازت دے دی اور آئی ایم ایف نے سبسڈی ختم کئے بغیر معاشی صحتیابی کے سرٹیفکیٹ کی فراہمی سے انکار کر دیا ۔

کہیں نہ کہیں کچھ ضرور ہوا ہے ۔میاں نواز شریف ،آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن نے کسی نہ کسی وجہ سے نوسر باز کا بوجھ اٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔پتہ نہیں کہاں پر کیا بات ہوئی ہے اتحادی حکومت جو کہتی تھی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں گے، بغیر کسی اجلاس کے قیمتیں بڑھا دیں۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافے  کا فیصلہ دو دھاری تلوار ہے ۔ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو تقویت مل گئی ہے دوسری طرف عوامی غم و غصہ کاسامنا بھی حکومت کو ہی کرنا پڑے گا ۔
یہ اعصاب کی جنگ تھی جس میں بظاہر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کیا ہے اور پسپائی اختیار کی ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ چونکہ غیر جانبدار ہے اس لئے عدالتوں نے اپنے طور پر مخصوص جج بینچ میں شامل کر کے جتھوں کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی اور پھر جگہ جگہ آگ بھی لگنا شروع ہو گئی ۔نوسر باز ڈی چوک سے تین کلو میٹر دور ازن بازیابی کا منتظر تھا کہ کہیں پر کوئی فیصلہ ہوا ۔فوج طلب کر لی گئی ۔ نوسر باز واپس پشاور بھاگ گیا اور چند گھنٹے بعد اتحادی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں تیس روپیہ فی لیٹر اضافہ کر کے سارا بوجھ خود اٹھا لیا اور اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے دیا ہم عوام سے گالیاں سننے کیلئے اور ملک کو نادہندگی سے بچانے کیلئے تیار ہیں اور اب آپکی باری ہے کہ ہمیں تنگ نہ کریں ۔

معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا ۔ابھی بہت سارے بوجھ اور اٹھانے باقی ہیں ۔ملک نادہندہ ہو جاتا تو نقصان صرف مالکان کو نہ ہوتا معیشت بھی پہاڑ سے گرنا شروع کر دیتی اور جب پہاڑ سے گرنا شروع ہو جائیں تو پھر پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں جا کر رکنا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو اب کم از کم دس سال تک بیرکس میں رہنے کا فیصلہ کرنا ہو گا ۔بار بار اعصاب کی جنگ ممکن نہیں ۔بار بار کے دھرنوں اور پالتو ججوں کے فیصلوں سے بھی معاشی استحکام ممکن نہیں ۔جب معیشت پہاڑ سے گرتی رہے گی تو پھر ایٹمی پروگرام بھی جائے گا اور اتنی بڑی طاقتور فوج بھی اپنے دانت اور ناخن کھو بیٹھے گی ۔

مفت مشورہ یہ ہے کہ اب پالتو ججوں ،ففتھ جنریشن وار کے جنگجوؤں اور نوسر باز کو پٹہ ڈالیں تاکہ ملک میں سیاسی بے یقینی کی  فضا کا خاتمہ ہو اور معاشی استحکام ممکن بنایا جاسکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معیشت مستحکم ہو جائے جس میں کم از کم پانچ سے دس سال لگیں گے کوئی ایڈونچر نہ کیا جائے ۔ملک پٹڑی پر چڑھ جائے تو پھر بھلے دس سال بعد دوبارہ کوئی نوسر باز پیدا کر لیں اور پھر سے کسی کو توہین مذہب اور مودی کے یار کے الزام میں فارغ کر دیں ۔ اس وقت ضرورت بے یقینی کے خاتمہ اور معاشی استحکام کی ہے ۔یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو ایٹمی پروگرام بھی بچ جائے گا اور طاقتور فوج بھی ۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply