ہماری کائنات کے سیاہ کنویں۔۔۔محمد یاسر لاہوری

آج 22 جون 2019 کا دن ہے۔ سائنسی بالخصوص فلکیاتی لحاظ سے 10 اپریل کا دن عام دن نہیں گزرا۔ دس اپریل 2019 کے دن ہم نے وہ کر لیا جو چند دہائیاں قبل ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ جی ہاں! ہم نے سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول کی اصل تصویر دیکھ لی ہے۔ وہی بلیک ہول جہاں فزکس کے قوانین اپنا دم خم نہیں دکھا سکتے۔ وہی بلیک ہول جہاں سے روشنی سمیت کائنات کی کوئی بھی چیز فرار حاصل نہیں کر سکتی۔

بلیک ہول (Black hole) کیا ہے؟ یہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ 10 اپریل 2019 کو شائع ہونےوالی تصویر میں موجود بلیک ہول ہم سے کتنا دور ہے؟ اس تصویر کو کس طرح لیا گیا؟ ان تمام سوالوں کے حیرت انگیز جوابات جاننے کے لئے اس تحریر کو ابتداء تا انتہاء پڑھیں۔

جس بلیک ہول کی تصویر 10 اپریل 2019 کو شائع کی گئی ہے۔ وہ ایک ایسی گلیکسی کے وسط میں واقع ہے جو ہم سے ساڑھے پانچ کروڑ نوری سال Light years کی مسافت پر ہے۔ نوری سال وہ فاصلہ ہوتا ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔روشنی ایک سال میں ساٹھ کھرب میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ یہ بلیک ہول ہم سے اتنا دور ہے کہ روشنی ساڑھے پانچ کروڑ سال تک سفر کرتی رہے تب جا کر وہاں پہنچے گی۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ M87 گلیکسی کے وسط میں موجود بلیک ہول کی جو تصویر شائع کی گئی ہے یہ تصویر اس بلیک ہول کی ساڑھے پانچ کروڑ (55million) سال پرانی حالت کو عیاں کررہی ہے۔

اس تصویر کو لینے کے لئے پوری زمین کو بطور دوربین استعمال کیا گیا ہے۔ وہ ایسے کہ زمین کے مختلف مقامات پر بہت بڑی بڑی آٹھ ریڈیو دوربینیں (Radio telescopes) نصب کی گئیں۔ ان تمام کی تمام دوربینوں نے مل کر آٹھ ہزار میل پر پھیلی ایک زمین کے سائز کے برابر دوربین جتنا کام کیا اور یوں ساڑھے پانچ کروڑ نوری سال کی مسافت پر موجود M87 کے اندر موجود بلیک ہول کو تصویر میں قید کر لیا گیا۔

ہر ایک دوربین کو اس بلیک ہول پر فوکس کیا گیا۔ دو سال کی انتھک محنتوں کے بعد دوربینوں کے مہیا کردہ لاکھوں گگا بائیٹس ڈیٹا کو جمع کر کے یہ تصویر بنائی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ بلیک ہول سائز کے اعتبار سے ہمارے پورے نظام شمسی سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا بڑا یہ بلیک ہول اب تک کا تلاش کیا گیا سب سے بڑا بلیک ہول ہے۔

یہ بات علم میں رہے کہ اس پروجیکٹ پر کام ناسا (NASA) نے نہیں کیا بلکہ یہ کام Event Horizon Telescope سے لیا گیا۔ اس پروجیکٹ پر تقریبا دو سو کے قریب سائنسدانوں نے محنت کی ہے۔

بلیک ہول صرف ایک ہی قسم کا ہوتا ہے ایسا بالکل نہیں۔ بلیک ہول کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ جن میں سے کچھ بلیک ہولز ہمارے سورج سے کئی گنا بڑے ستاروں کی موت واقع ہونے کے بعد اس کے مرکز میں بنتے ہیں۔ حال ہی میں 10 اپریل 2019 کو M87 کہکشاں کے جس بلیک ہول کی تصویر شائع کی گئی ہے، یہ بلیک ہول سپر میسو Supermassive بلیک ہول کہلاتا ہے۔ جسے “ایکٹو گیلکٹک نیو کلیئس” بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح کے بلیک ہولز کس طرح بنتے ہیں یہ ابھی تک ہم نہیں جان پائے۔ اس بارے میں ہمارے پاس ابھی صرف مفروضات ہیں۔

بلیک ہول یعنی  سیاہ شگاف

چونکہ زیادہ تر بلیک ہولز ایک مردہ ستارے کی باقیات ہوتے ہیں اس لئے بلیک ہول بننے کے عمل کو جاننے کے لئے پہلے ہمیں ایک ستارے کی ابتداء تا انتہاء زندگی کا پورا چکر سمجھنا ہو گا۔ ستارے گیس اور گرد کے ان عظیم بادلوں میں پیدا ہوتے ہیں جنہیں ہم نیبیولا (Nebula) کہتے ہیں۔ نیبیولا میں گیس اور گرد آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس ٹکراؤ اور رگڑ کی وجہ سے یہ دونوں سکڑنے لگتے ہیں۔ یوں ایک نیم ستارہ یعنی پروٹو سٹار بنتا ہے۔

اب یہ ہائیڈروجن اور گرد سے بننے والا نیم ستارہ یعنی پروٹو سٹار اپنے اندر کے دباؤ کی وجہ سے بے پناہ کثافت اور بہت زیادہ درجہ حرارت کی حدوں کو چھونے لگ جاتا ہے۔ اس عمل کے تسلسل سے بالآخر اس نیم ستارے کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کے اندر خود کار ایٹمی دھماکے ہونے لگ جاتے ہیں۔ جب کسی بھی پروٹو سٹار کے اندر ایٹمی دھماکے ہونا شروع ہو جائیں تو اس وقت وہ پروٹو سٹار نہیں رہتا بلکہ ایک مکمل ستارہ ہونے کی ڈگری حاصل کر لیتا ہے۔

یہ تو تھی ایک ستارے کی پیدائش، اب آتے ہیں ستاروں کی موت کی طرف۔

ستارے اپنے اندر ہائیڈروجن کو جلا رہے ہوتے ہیں۔ ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم (Helium) میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے۔ تابکاری اور درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ہائیڈروجن سے تبدیل ہوئی ہیلئم بھی ہائیڈروجن کے ساتھ جلنے لگتی ہے۔

اس قیامت خیز عمل سے شدید ترین حرارت خارج ہوتی ہے بالکل ایسےجیسا کہ ایک ہائیڈروجن بم کے پھٹنے سے ہوتی ہے۔ یہ جو ہمیں ستارے چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں، یہ خوبصورتی اسی عمل کی مرہونِ منت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم نے پڑھا ہے کہ گیس کے سکڑنے کی وجہ سے جو کشش پیدا ہوتی ہے اسی سے ستارہ بنتا ہے، اب کششِ ثقل کے بڑھ جانے پر گیس کو مزید سکڑنا چاہیے لیکن بہت زیادہ درجہ حرارت گیس کا دباؤ اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ ستارے کی گیس مزید سکڑنا بند ہو جاتی ہے۔ یوں اس عمل کی وجہ سے ستارے کی کشش ثقل اور درجہ حرارت مین کروڑں یا اربوں سالوں تک موافقت جاری رہتی ہے اور ستارہ اپنی ساری زندگی اس توازن کو برقرار رکھتا ہے۔

یہاں یہ یاد رکھیں کہ ستارہ جس قدر بڑا ہو گا اس کی کشش ثقل بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔ تو جس قدر کشش ثقل زیادہ ہو گی ستارے کو اپنی کشش ثقل سے توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی قدر زیادہ حِدّت یعنی گرمی پیدا کرنی ہو گی۔ زیادہ گرمی پیدا کرنے کے لئے اسے اپنا ایندھن یعنی ہائیڈروجن نہایت سخاوت کے ساتھ استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے سورج کی عمر لگ بھگ چار سو پچاس کروڑ سال ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ابھی بھی سورج میں مزید پانچ ارب سال کا ایندھن پڑا ہے جو اسے مزید پانچ ارب سال تک زندہ رکھے گا۔ جبکہ ہمارے سورج سے بہت بڑے ستارے کو اپنی بہت زیادہ کشش ثقل سے لڑنے کے لئے اتنا ایندھن (ہائیڈروجن) استعمال کرنا پڑتا ہے کہ دس ارب سال کا ایندھن ایک بڑا ستارہ صرف پچاس کروڑ سالوں میں ہی ختم کر لیتا ہے۔

جب کوئی ایسا ستارہ “جو ہمارے سورج سے 20 گنا بڑا ہو” اپنا سارے کا سارا ایندھن اور توانائی جلا جلا کر ختم کر دیتا ہے تو اس کا اوپر والا حصہ یعنی باہر والی پَرت اندر کی طرف گرنا یا منہدم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ پہلے تو ستارہ اس قدر پھیلتا اور بڑا ہو جاتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں میل تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کے بعد تب وہ موقع آتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک سپرنووا(Supernova) دھماکہ ہوتا ہے۔

سپرنووا دھماکے میں اتنی شدید طاقت ہوتی ہے کہ ستارہ اپنی بیرونی پرتوں کو ہزاروں سالوں تک کھربوں میل دور پھیلاتا رہتا ہے۔ ہماری زمین سے چھ ہزار پانچ سو (6500ly) نوری سال دور ایک سپرنووادھماکے کی باقیات ابھی بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں جسے M1 یا (Carbe nebula) کہا جاتا ہے۔ اس دھماکے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بخوبی گایا جا سکتا ہے کہ “اس ستارے کی باقیات چھ سو ساٹھ کھرب میل (11 نوری سال) دور تک پھیل چکی ہیں اور مزید ڈیڑھ ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پھیل رہی ہیں۔

جب بھی کوئی ستارہ دھماکے سے پھٹتا ہے تو دھماکے کے بعد ستارہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوتا۔دھماکے کے بعد ستارے کا مرکزہ (Core) گیس کے ان بادلوں کے درمیان موجود ہوتا ہے جو بادل دھماکے کے نتیجے میں دور دور تک پھیل چکے ہوتے ہیں۔ اگر پھٹنے والا ستارہ ہمارے سورج کے سائز کا ہو تو اس کا مرکزہ یعنی سفید بونا ستارہ (White dwarf) یونہی بچا رہتا ہے اور اپنی باقی کی زندگی نہایت سست رفتاری سے گزارتا ہے۔

دھماکے سے پھٹنے والا ستارہ اگر ہمارے سورج سے بہت بڑا ہو تو اس کا مرکزہ یعنی Coreاس قدر طاقتور کشش ثقل رکھتا ہے کہ وہ اپنی کشش ثقل کے بَل بوتے پر خود کو مزید سکیڑتا رہتا ہے۔ بالآخر ایک وقت آتا ہے کہ اس عمل کے مسلسل جاری رہنے کے بعد اس ستارے کا بچ جانے والا تمام کا تمام مادہ ممکنہ حد تک کم سے کم رداس یعنی Diameter پر جمع ہو جاتا ہے۔ یعنی اس ایک نقطے پر جسے سنگولیرٹی (Singularity) کہتے ہیں۔ جب مردہ ستارہ اس مقام پر پہنچ جائے تو اس وقت وہ سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول (Black hole) ہونے کا سرٹفکیٹ پا لیتا ہے۔وہی بلیک ہو جو ہماری سمجھ کا اختتام ہے، جس کے اندر جانے والی کوئی بھی چیز واپس نہیں آ سکتی!!!

بلیک ہول کی کششِ ثقل

سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول کا ثقلی میدان (مادے کا ایک جگہ پر آخری ممکنہ حد تک ایک ہی جگہ پر جمع ہو جانے کی وجہ سے) اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ کائنات میں پائی جانے والی کسی بھی طرح کی شعاعوں کو راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق کائنات میں کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ بلیک ہول کی کشش ثقل اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اس کی کشش کے چنگل سے روشنی بھی نہیں نکل سکتی۔

جب روشنی بھی اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتی تو کائنات میں کوئی بھی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو روشنی سے زیادہ تیز رفتار ہو۔ بلیک ہول اپنے ارد گرد یعنی اپنے ثقلی میدان میں آنے والی ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ لیتا ہے یہاں تک کہ انتہائی بڑے بڑے ستارے بھی اس سے بچ نہیں سکتے۔

بلیک ہول کا ثقلی میدان ایونٹ ہوریزون (Event horizon) یہ وہ جگہ ہے جہاں تک بلیک ہول کی کشش ثقل روشنی کو بھی اپنی قید میں رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے جب ہم بلیک ہول کی تصویر کو دیکھتے ہیں تو اس کے ارد گرد ایک چمکتا ہوا کڑا یا حلقہ سا دکھائی دیتا ہے اور درمیان میں صرف اندھیرا۔ دراصل اندھیرے والا وہ حصہ بلیک ہول کا ثقلی میدان ہے اور پھر جہان سے چمکتا ہوا گول کڑا شروع ہوتا ہے وہ بلیک ہول کے ثقلی میدان کی حد ہے۔ جہاں بلیک ہول کی کشش ثقل اس قدر طاقتور نہیں رہتی کہ روشنی کو روک سکے لہذا اس جگہ سے آگے روشنی آزاد ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ گول کڑا (Ring) نظر آتا ہے۔

بعض ایسے مفروضے بھی موجود ہیں کہ بلیک ہول میں گر جانے والا مادہ کسی اور کائنات میں جا رہا ہے۔ وہ کائنات کیسی ہے؟ کہاں ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں بھی ہم صرف مفروضے ہی پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو طے شدہ ہے کہ بلیک ہول یعنی سیاہ شگاف ہماری سمجھ کا اختتام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید مستقبل میں کائنات کا یہ اہم راز ہم پر کھل جائے لیکن فی الحال ہم قدرت کے اس عجیب معمے کو مکمل سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ کون جانے کہ کیا خبر ہم بھی کسی بلیک ہول کے اندر ہی رہ رہے ہوں۔ یہ ساری کی ساری کائنات جو ہمیں نظر آتی ہے ہو سکتا ہے یہ تمام تر مناظر اسی بلیک ہول کے اندر کا ہی نظارہ ہو جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ ہم اس بات کو جس قدر کھوجتے  جائیں گے، جیسے جیسے کائنات کے سربستہ راز ہم پر کھلتے جائیں گے تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہم تو ابھی اس کائنات کے عجائبات کو جاننے کے لئے فلکیاتی علم کے دروازے سے اندر داخل بھی نہیں ہو سکے!

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply