• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (1)۔۔محمد جمیل آصف

سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (1)۔۔محمد جمیل آصف

سید سلیمان ندوی اپنی کتاب “سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ” عنہا میں لکھتے ہیں “آج مسلمانوں کے اس دور انحطاط میں، ان کے انحطاط کا بحصہ رسدی آدھا سبب “عورت” ہے ۔ وہم پرستی، قبر پرستی، جاہلانہ مراسم، غمی یا شادی کے موقع پر مسرفانہ مصارف اور جاہلیت کے دوسرے آثار، صرف اس لیے ہمارے گھروں میں زندہ ہیں کہ آج صرف مسلمان بیبیوں کے قالب میں اسلامی تعلیمات کی روح مردہ ہو گی ہے، شاید اسکا سبب یہ ہو کہ ان کے سامنے “مسلمان عورت “کی زندگی کا کوئی مکمل نمونہ نہیں ۔ “موجودہ دور میں میڈیا کی چمک اور روشن خیالی کے نعروں سے ہماری سوچ کا محور اور ہماری تقلید کا معیار بدل چکا ہے ۔دشمن اپنی بھرپور کوششوں اور بہترین پلاننگ سے ہماری نسلوں کو ہمارے اسلاف اور قابل تقلید اشخاص سے روحانی، قلبی تعلق کو منقطع کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ میڈیا کی چکا چوند کی بدولت ہماری نوجوان نسل کو ہالی وڈ، بالی وڈ اور مقامی ایکٹرز، ماڈلز یا فنکاروں کے سونے سے لیکر جاگنے، بولنے سے لیکر خاموش رہنے تک، چلنے سے لیکر بیٹھنے اور لیٹنے تک، کھانے سے لیکر پینے تک، لباس سے لیکر تراش تک حتی کے انکے غمی کے سٹائل سے لیکر خوشی کے انداز تک کا علم تو ہے مگر وہ ہمارے اسلاف کی زندگیاں تو دُور ان کے ناموں سے بھی اجنبی ہوتے جا رہے ہیں ۔۔
یہ سلسلہ اسی کڑی کا حصہ ہے ۔ ایک مخلصانہ کوشش جسے اللہ قبول فرمائے ۔ اور ہمیں ان کے اسوہ پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ کیونکہ فلاح، راحت، کامیابی اور سکینت اسی میں ہے ۔
اس سلسلے میں انشاءاللہ تمام امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کے روشن پہلووں کا احاطہ کیا جائے گا تمام احباب کی راہنمائی اور پذیرائی بہت ضروری ہے ۔ احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے آمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ  عنہا

آصف ابن حجر، امام عسقلانی، امام بخاری و دیگر آئمہ حدیث سے روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اے عائشہ! اس دنیا میں  خدیجہ کا بدل کوئی نہیں  ہوسکتا ۔ میرے اعلان نبوت کے بعد جب تمام دنیائے کفر و شرک میری رسالت کا انکار کر رہی تھی خدیجہ ہی وہ واحد ہستی تھی جو مجھ پر ایمان لائی، جب میرا کوئی ذریعہ معاش نہ  تھا اور تجارتی کاروبار نبوت و رسالت کی ذمہ داری سے رک گیا تھا یہ خدیجہ ہی تھی جنہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور فریضہ نبوت کی بجا آوری میں میری تائید و نصرت کی ” پھر فرمایا” یہ خدیجہ ہی تھی جنہیں اللہ نے میری اولاد کے لیے منتخب فرمایا “(صحیح بخاری کتاب مناقب) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا قیامت تک کے لیے خواتین کے لیے بطور کامیاب “بزنس ویمن” ، معاملہ فہم، مردم شناس اور دور اندیش مینارہ نور ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کی ذات حقوقِ نسواں کی وہ روشن تابندہ مثال ہے ۔ جس کی نظیر کہیں سے ملنا ناممکن ہے ۔ خواتین کو پسند کا حق، معاشی آزادی کا خواب، وفا شعار بیوی کا روپ، غم گسار ساتھی کی جھلک، ایک مثالی ماں کا کردار، دکھ سکھ میں استقامت کا سنگ میل، کیا کچھ نہیں خوبیاں آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کی ذات میں پنہاں ہیں ۔ بلاشبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا قریش کی اعلیٰ نسب متقی، باکردار اور پاکباز خاتون تھیں۔ ایک کامیاب کاروباری شخصیت کی طرح مکہ مکرمہ میں رہ کر امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کامیابی سے چلا رہی تھیں ۔ اس کام کے لیے اپنے فہم و فراست سے موزوں افراد کو چنتی اور انہیں دوسرے ممالک میں طے شدہ معاوضے کے ساتھ سامان تجارت دے کر بھیجتی تھیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا دو بار رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئی ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کی شادی اس وقت کے دو معزز افراد عتیق بن عایذ المخزومی اور أبو ھالہ ھند بن ھند بن زرارہ التمیمی سے یکے بعد دیگرے ہوئی تھی، اوّل الذکر سے ایک بیٹی تھی جو أم محمد کے نام سیرت کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہے اور دوم سے ایک بیٹا تھا جو ہند بن ہند کے نام سے منقول ہے، اور دونوں شوہروں نے ہی وفات پائی ۔ تاریخ کے مستند کتابوں سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، امانت اور شرافت کی شہرت سن کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی درخواست پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال تجارت کے لیے حبشہ کے بازار میں لے گے اور تجارتی سفر سے واپسی پر آپ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کے غلام میسرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صفات بیان کی جن کا آپ نے دوران سفر اس کا ادراک کیا تھا دوران سفر تجارت ایک راہب جو شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تھا، اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کہنے لگا: “میسرہ! یہ نبی ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں ۔” میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے،ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم ﷺ قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے،ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔ پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: “اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لئے تجارت کر رہے ہیں ، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے۔” آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم ﷺ اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو بادل دھوپ سے بچانے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ واپس آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک حیران کن روح پرور منظر دیکھا جب آپ ﷺ دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر سوار تھے اور بادل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں ۔ اب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو تجارت کے حالات سنائے۔منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں ۔ انہوں نے پوچھا: “میسرہ کہاں ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: “وہ ابھی پیچھے ہے۔” یہ سن کر سیدہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا نے کہا: “آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے۔”

آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس روانہ ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں ۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی بادل ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں ۔ جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے لگیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ ﷺ میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میسرہ سے کہا: “میں نے ان پر بادلوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے۔” جواب میں میسرہ نے کہا: “میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔” اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔( جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply