عرب اندلس میں۔۔فہیرہ رحمان

عرب ایک ایسی قوم ہےجودیگراقوام سےازروئےگویائی ،فصاحت اوربلاغت بیان مشہورچلی آتی ہے۔یہی وجہ ہےکہ انہیں یہ نام دیاگیا,کیونکہ عرب کےلفظی معنی “اظہاروبیان”کےہیں۔چنانچہ جب کوئی شخص اپنےمافی الضمیرکااظہارکرتاہےتوکہاجاتا  ہے أعرب الرجل عمافي ضميره(فلان نےاپنےمافی الضمیرکااظہارکیا)۔دراصل عرب ایک ایسی قوم کانام ہےجس میں یہ چنداوصاف جمع ہوگئےہوں، ایک یہ کہ انکی زبان عربی ہو،دوسراوہ عربوں کی اولادہوں، تیسرایہ کہ انکامسکن عرب کی سرزمین ہویعنی جزیرہ عرب
عرب جس کاچرچاہےیہ کچھ وہ کیاتھا
جہان سےالگ اک جزیرہ نماتھا

ابن جلدون نےاپنی کتاب”العبر”میں عرب اقوام کوابتدائےآفرینش سےلیکراپنےزمانےتک چارطبقات میں محصورکیاہے۔(1)عرب عاربہ (2)عرب مستعربہ(3)العرب التابعة للعرب(4)عرب مستعجمة

علاقائی تقسیم کےلحاظ سےجزیرہ عرب پانچ حصوں پرمشتمل تھا۔ (1)تہامہ(2)نجد(3)حجاز(4)عروض(5)یمن۔

جبکہ عرب معاشرہ دوحصوں اہل البدو یعنی خانہ بدوش ااور اہل الحضریعنی شہری پرمنقسم چلاآتاہے۔ عرب کی آبادی متعددقبائل پرمشتمل تھی ان میں بعض اہل حضرمگرکثرت سےقبیلےایسےتھےجوخانہ بدوش تھےان خانہ بدوش قبیلوں میں کسی قسم کااتحادتھانہ کوئی مرکزی حکومت جس کےسب تابع ہوتے۔وہ ہمیشہ آپس میں لڑتےرہتےتھے۔اگرشجاعت کسی قوم کومغلوبیت سےبےنیازکرسکتی ہےتویقیناًعرب کےلوگ ایسی حربی قوم تھے۔کمزوری ان میں یہ تھی کہ قبیلوں میں کسی قسم کی یک جہتی اوراتفاق نام کونہ تھا۔آپس کی لڑائیاں آئےدن کاشغل تھا۔اگرعرب کاملک اتنامفلس نہ ہوتاکہ اس کوفتح کرنابےسودسمجھاجاتاتواس عدم اتحادویک جہتی کی وجہ سےباہرکاکوئی بھی غنیم اس کوبہت آسانی سےفتح کرلیتا۔جس وقت عرب کےشہزادےنےبادشاہ ایران سےکمک مانگی اوراس کےعوض ملک کاایک علاقہ دیناچاہاتوبادشاہ نےجواب دیا”تمہارےملک میں رکھاکیاہے؟کچھ بھیڑیں اوراونٹ،میں ایسےذلیل معاوضہ میں اپنےپُرشکوہ اورزبردست ایرانی لشکرکوتمہارےریگستان بھیجناگوارانہیں کرسکتا۔باوجوداس کےوہ دن آیاعرب فتح کرلیاگیا،مگرفتح کیاکس نے؟اسی کےایک یتیم بچےنے! خلاصہ یہ کہ پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ  نےایک نفس پرورمشکک اوراستہزاءپسندقوم کوایک نئےقالب میں ڈھالااوران کی قلبی ماہیت تبدیل کردی۔ان کواس طرح یکجاکیاکہ آپس کی خلفشاریوں کانام ونشان ہی مٹ گیااوروہ اسلام کی خاطراپنی مال،جان اورعزت تک قربان کرنےسےبھی دریغ نہ کرنےلگےاورپھراس یکجہتی اورجذبہ اسلام کوآپ ﷺ  اورآپ کےجانشینوں نےاپنی مقناطیسی شخصیات کےذریعےمخالفین اسلام کےخلاف استعمال کیااوروہ فتوحات اہل عرب نےسمیٹیں جس کورہتی دنیاتک یادرکھاجائےگا۔ان مختلف فتوحات میں سےایک عظیم الشان فتح”فتح اندلس”ہےاوراس کامختصرجائزہ مع اس کی تاریخ کےپیش خدمت ہے۔

اندلس جسےآج کل کاسپین کہتےہیں یورپ کےجنوب مغربی کونےپرواقع ہے۔پہلی صدی ہجری کےآخرمیں اموی فوجیں مشہورسپہ سالارموسی بن نصیرکی قیادت میں شمالی افریقہ کےبہت سےعلاقوں پرقابض ہوگئیں۔اندلس میں اس زمانےمیں رزریق کی حکومت تھی لیکن وہ اپنےمظالم اوروعدہ خلافیوں کےباعث اندلس میں بالکل غیرمقبول ہوچکاتھا۔اس کےآئےروزکےمظالم سےتنگ آکراندلس کےبہت سےباشندےنقل مکانی کرکےسبتہ اورافریقہ کےساحلی شہروں میں اکٹھےہورہےتھے۔جولین جوسبتہ کاحاکم تھااس کوبھی رزریق کےخلاف بہت شکایات تھیں۔چنانچہ سنہ710ءمیں موسی بن نصیرکےایک جرنیل طریف اس راستےسےاندلس کی طرف بڑھاتوجولین نےنہ صرف مسلمانوں کوخوش آمدیدکہابلکہ ان کی کافی حدتک مددبھی کی۔
ایک سال کےبعددوسراجرنیل طارق بن زیادسنہ711ءمیں سمندرعبورکرکےایک ساحلی پہاڑی پراتراجس کانام “جبل الطارق”پڑگیااورآج کل اسےجبرالٹرکہتےہیں۔یہیں سےاس نےاندلس پراپنےحملوں کاآغازکیااور19جولائی سنہ 711ءکوقوطی بادشاہ رزریق کووادی لطہ میں شکست فاش دی۔اس کےبعداس نےنہایت تیزی کےساتھ اندلس کےدوسرےشہروں پرقبضہ لیا۔

سنہ711ءمیں قرطبہ اورطلیطلہ ہوئےاور712ءمیں اشبیلیہ،ماردہ اورسرقسطہ پربھی مسلمانوں کاقبضہ ہوگیا۔اب یہ ساراعلاقہ اموی خلافت کاایک حصہ بن گیا۔جوسنہ 711ءسے756ءتک محیط ہے۔جب 756ءمیں اموی خلافت ختم ہوئی توایک اموی شہزادہ عبدالرحمان بن معاویہ جواموی خلیفہ ھشام بن عبدالمالک کاپوتاتھاعباسیوں سےجان بچاکرآفریقہ آگیا۔افریقہ سےوہ اندلس پہنچااوریوسف الفہری کوجوان دنوں والئی اندلس تھاکوشکست دےکراموی امارت کااعلان کردیا۔اس کےبعداس کےجانشین ابوالولیدہشام اورالحکم الاول کےکرداربھی بہت نمایاں ہیں۔عبدالرحمان الثانی نےاموی حکومت کومزیدمستحکم اوروسیع کیا۔اموی اندلس کی تاریخ میں عبدالرحمان الناصرکادوراموی حکومت وثقافت کانقطہ عروج تھا۔ابھی تک اندلس کےاموی حکمران”امیر”کہلاتےتھے۔لیکن عبدالرحمان الناصرنےاموی خلافت کاباقاعدہ اعلان کرکےاندلس میں اموی خلافت کااحیاء کیا۔عبدالرحمان الناصرکےبعدالحکم المستنصرباللہ کےلقب سےخلیفہ بنا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہےکہ الحکم الثانی کےبعداموی خلافت کازوال محمدبن ابی عامرکےہاتھوں شروع ہوااورآخرکارسنہ 1023ءمیں یہ خلافت ختم ہوگئی۔تقریباً 260سال کی حکومت میں کل 9اموی حکمران گزرئےجومع اپنی مدت حکومت درج ذیل ہیں۔
(1)عبدالرحمان الداخل 33سال 4ماہ
(2)ہشام بن عبدالرحمان 7سال8ماہ
(3)حکم بن ہشام 27سال
(4)عبدالرحمان الثانی 32سال
(5)محمدبن عبدالرحمان 34سال چندماہ
(6)منذربن محمد 2سال سےبھی کم
(7)عبداللہ بن محمد 25سال
(8)عبدالرحمان الثالث 40سال
(9)حکم بن عبدالرحمان 16سال

بعض ہشام بن حکم کوبھی جب محمدبن ابی عامراوراس کےخاندان کےشکنجہ سےاموی خاندان کوچھٹکاراملابطورحکمران شامل کرتےہیں۔

خلافت اموی کےدورزوال میں اندلس میں باغی سرداروں نےاپنی حکومتیں قائم کرلیں۔یہ اندلس میں سیاسی تشتت اورانتشارکی علامت تھی۔تاریخ میں اس دورکو”طوائف الملوکی ” کادورکہاجاتاہے۔اس طوائف الملوکی کےنتیجےمیں جنوب میں بربرامراءاورشمالی علاقوں کےعیسائی بادشاہوں کواندلس پرحملےکاموقع مل گیا۔اس طرح اندلس کےدوبارہ فتح کرنےکاوہ عمل شروع ہواجوآخرکارمسلمانوں کےاندلس سےمکمل انخلاء پرمنتج ہوا۔ درمیان میں المرابطین کےبادشاہ یوسف بن تاشفین اوراس کےبیٹےنیزالمواحدین کےحکمران ابویعقوب یوسف نےبھی مسلمانوں کی حفاظت اوریکجاکرنےکی ناکام کوشش کی۔عیسائی حکومتوں کےاتحاداورمسلمانوں کےانتشارکانتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں پراندلس میں عرصہ حیات تنگ ہوتاچلاگیایہاں تک کہ اندلسی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدادشمالی افریقہ کی طرف ہجرت کرگئی اورمسلمان اندلس کےجنوبی علاقےمیں سمٹتےچلےگئے۔یہاں بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوگئی جوخوداپنادفاع بھی کرسکتیں تھی پرہائےافسوس ان کوبھی اندرونی اختلافات نےتباہ کردیا۔ان چھوٹی ریاستوں میں سب سےطاقتورریاست ابن الاحمرکی”ریاست غرناطہ” کی تھی۔جوکہ دوسوسال قائم رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اندلس میں مسلمانوں نےقریبا ً آٹھ سوسال حکومت کی جو1492ءمیں اپنےارغون کےبادشاہ فردی ننداورقشتالہ کی ملکہ ازبیلاکےہاتھوں زیرہوئی۔مختصریہ کی کہ اندلسی تاریخ انسانیت کاوہ دورہےجس سےاسلامی ثقافت نےفروع علم کی مشعل اندلس تک پہنچائی جہاں سےیورپ کی ترقی کامرحلہ شروع ہوا۔
ببلیوگرافی
(1)عربی ادب قبل ازاسلام مصنفہ ڈاکٹرخورشیدرضوی
(2)بلوغ الارب مصنفہ محمودشکری آلوسی
(3)تمدن عرب مصنفہ مولوی سیدعلی بلگرامی
(4)عبرت نامہ اندلس مصنفہ رائن ہاٹ ڈوزی
(5)دولت امویہ اندلس مصنفہ حکیم محموداحمدظفر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply