سنبھل جا۔۔بنتِ مہر

آج سے تیس برس پیچھے جائیں تو سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر وہاں سے تقریبا ً دس لاکھ یہودیوں نے اسرائیل ہجرت کی تھی اورجنگ سے فرار ہزاروں یوکرینی یہودیوں کو اسرائیل نے اپنے ہاں آباد کرنے کے لیے ہر ممکن مدد کی تھی۔اب یوکرین اور روس کی جنگ میں پھر سے وہی کہانی دہرائی گئی اور اسرائیل نے ایک بار پھر یوکرین سے فرار ہونے والے یہودیوں کا کھلے دل اور بازوؤں سے استقبال کیا۔یہ تو ہے یہود کی اپنے مذہب اور قوم کے لوگوں سے مخلصی اور دوسری جانب اسرائیل کے فلسطین پر بڑھتے مظالم اور مسلمانوں کی خاموشی ہے، جو ہر نئے دن کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی اسرائیلیوں کا مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھ جاتا ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی ایسا ہی ہوا، وہی رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ، وہی قبلہ اوّل کی بحال ہوتی رونقیں اور نمازیوں کا رش اور وہی صیہونیوں کا غم و غصہ۔ اور سب سے بڑھ کر مسلم اُمہ کی وہی بے حسی و مردہ ضمیری۔ حالانکہ حدیث مبارکہ میں تو مسلمان اُمت کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا کہ جب جسم کا ایک عضو درد کرے تو پورا جسم مبتلائے درد ہو جاتا ہے۔
مبتلائے درد ہو کوئی عضو تو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ جسم کے آدھے سے زیادہ عضو زخموں سے چور ہیں مگر پھر بھی جسم بے حسی کی اس انتہا پہ ہے جہاں دوسرے عضو کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔ہماری حالت بھی ایسی ہی ہو چکی ہے ہم اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی آہوں اور سسکیوں کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ اس کو ایک روٹین کی  بات  سمجھ لیتے ہیں۔ورنہ اگر ہمارے ضمیر زندہ ہوتے تو ہمیں گولیوں کی بوچھاڑ میں قبلہ اوّل کی حفاظت کرتے نہتے فلسطینی بچے ہماری بزدلی پر افسوس کرتے  نہ دکھائی دیتے ۔ہماری اس بزدلی نے صرف قبلہ اوّل کو ہی مظلوم نہیں ٹھہرایا بلکہ امت مسلمہ کاوجود عدم وجود میں بدل دیا۔ہماری مردہ ضمیری کی وجہ سے ہی مسلمان امت ہر جگہ ذلت اٹھانے پر مجبور ہوئی ۔کیا ہمارے جیسے مسلمانوں کے متعلق ہی اقبال نے کہا تھا کہ:
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے

اس کرہ ارض پر موجود پانچ ارب انسانوں میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان ہیں لیکن افسوس کہ امت مسلمہ ایک امت نہیں بلکہ ہجوم بن چکی ہے۔ملک ملک، شہر شہراو رگلی گلی مسلمان قتل ہو رہے ہیں، ان کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں مگر ہم اس سب سے نظریں چرائے اپنی زندگیوں میں مگن ہیں کیا ہمیں لگتا ہے کہ فلسطین و شام، عراق و صومالیہ اور کشمیر و برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ہم سے سوال نہیں ہو گا ؟ بھوک سے بلکتے اور پیاس سے حالت نزع کو پہنچتے معصوم بچے بھی ہمارا ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام ہیں تو ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ظلم پر چپ رہنا بھی ظالم کاساتھ دینے کے برابر ہے۔اس طرز عمل سے ہم نہ صرف انسانیت کے بلکہ اسلام کے بھی مجرم بن رہے ہیں۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ

فلسطینیوں سمیت سب مظلوم مسلمان ہماری جانب سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور اس کا اندازہ ایک فلسطینی سے ہونے والی گفتگو میں ہوا ۔اس فلسطینی کا کہنا تھا کہ انہوں نے عظیم ہجوم مسلم کی طرف سے مدد کا بہت دیر تک انتظار کیا لیکن اب وہ جان چکے ہیں کہ قبلہ اول اور سرزمین انبیاء فلسطین کی حفاظت خود فلسطینیوں کو ہی کرنی ہے۔ مظلوم مسلمانوں کا امت کی جانب سے مایوس ہو جانا خود امت مسلمہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ظلم کا مقابلہ کرتے اور اسلام کے نام پہ جانیں دیتے مظلوم مسلمان تو یقیناً سرخرو ہو جائیں گے لیکن ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش رہ کر جو ہم ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں تو کیا ہمارے ہاتھ ان مظلوموں کے خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمار ے دین نے تو ہمیں یہ سکھایا کہ جہاں برائی دیکھو اسے ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو اسے دل میں بُرا سمجھو اور دل میں بُرا سمجھنا ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم ایمان کے کمزور درجے سے بھی نیچے ہیں کیونکہ ہماری بے حسی و مردہ ضمیری نے ہمیں دل میں بُرا سمجھنے سے بھی بری الذمہ کر دیا ہے۔ اور ہمارا یہ شرم ناک طرز عمل ہی دشمن کوشیر کر رہا ہے کیونکہ وہ یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندربہادری اور جرات مندی معدوم ہو چکی ہے وہ اپنی زندگیوں اور خواہشات میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی زندگیوں کو معیاری بنانے کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔قیامت کا سنتے تھے کہ نفسا نفسی ہو گی ،ہر کسی کو اپنی جان کی پڑی ہو گی اور دوسرے سے کسی کو غرض نہ ہو گی  لیکن قیامت سے پہلے یہ کون سی قیامت ہے کہ اپنی جان کے علاوہ کسی کو کسی اور جان کی پرواہ ہی نہیں۔ہمیں شاید یہ نہیں پتا کہ ہماری خاموشی کی وجہ سے ہمارے بہن بھائیو ں پر بڑھتی ظلم کی یہ آگ جو دن بدن پھیلتی ہی جا رہی ہے ہمارے گھروں کو بھی آنچ دے گی۔اور یقین جانیں اگر ہمارا یہی طرز عمل رہا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ آگ ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی لہٰذا اس وقت کے آنے سے پہلے جاگ جائیں، جاگ جائیں اور متحد ہو جائیں ورنہ ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ جائے گا۔
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا ،پیچ کھا، کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تیری قسمت میں اے موج
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply