سپردگی ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

سپردگی کا عمل فرد کی کامل زندگی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس عمل کا ظہور صرف انفرادیت تک محدود نہیں بلکہ یہ سماج کی اجتماعی معاشرت میں بھی جڑ پکڑ سکتا ہے، مایوس کن بات یہ ہے کہ ایسے مظاہر ایک نسل سے اگلی نسل میں بھی منتقل ہوسکتے ہیں ۔
سپردگی سے متاثرہ افراد ہمیشہ دوسروں کی آمادگی ڈھونڈھنے میں لگے رہتے ہیں، اس آمادگی کی تلاش میں اکثر اوقات فرد اپنی طرف دوسرے فریق کی حاجت یا رغبت کو قلیل سمجھتے ہوئے گاہے حقارت و ذلت بھی برداشت کر لیتا ہے ۔

سپردگی انسانی رویوں کا اکتسابی اختلال ہے، اوائل عمر میں لاشعوری طور پر بچے کے سامنے اپنی شخصی تشکیل کا ہدف ہوتا ہے، اس ہدف کی تکمیل میں رکاوٹوں کو عبور نہ کر پانا ، یا جزوی طور پر عبور کرنے سے جو عدم کاملیت سامنے آتی ہے، اسی کے مختلف مظاہرات میں سے ایک سپردگی ہے، یعنی کہ قوت فیصلہ سے دستبردار ہوتے ہوئے اپنی رائے، اپنی پسند حتی کہ اپنی زندگی کو دوسرے کے سپرد کر کے اس کی رضا اور آمادگی پر ہی توکل کر لینا ، جو کہ نفسیات کے میدان میں ایک بھیانک مرض تصور ہوتا ہے۔

سپردگی کی سب سے بڑی وجہ تین اور چار سال کی عمر تک بچے کا خود مختار نہ ہونا ہے، یہاں خود مختار سے مراد یہ ہے کہ بچہ اپنے کسی بھی فعل، اس فعل کے اثرات اور اس کی ذمہ داری کو شعوری طور پر سمجھنے کے قابل ہو، اور اگر ایسا نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بچہ بقاء کی جبلت کے زیر اثر، شروع میں، دوسروں کی رائے اور بعد میں دوسرے کی آمادگی پر انحصار کرے گا جو وقت کے ساتھ ذہنی آسودگی کا سبب بنتی جائے گی۔

یہاں سامنے کا سوال یہ ہے کہ بچہ مذکورہ عمر تک اپنے اقدامات میں خود مختار کیوں نہیں ہوپاتا، نسل درنسل اس کیفیت کی منتقلی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی کے پہلے دو تین سالوں میں بچے اور ماں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، اعتماد کے اس فقدان کی کئی شکلیں ہیں جو ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے، فی الحال اتنا سمجھ لیا جائے کہ اس فینومن کی دو انتہائی شکلوں میں سے ایک طرف بچے کی ہر بے جا خواہش کا پورا کرنا ہے اور دوسری طرف بنیادی ضروریات کو نظر انداز کرنا ہے۔ اسی طرح بڑی سے بڑی غلطی پر بچے کو کچھ نہ کہنا اور عمومی بات پر بچے کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے آسمان سر پہ اٹھا لینا، درست رویہ یہ ہے کہ صحیح اقدام پر بچے کی تعریف کی جائے اور غلط اقدام پر ذمہ داری کا ایک حصہ ماں کو اپنے اوپر لینا چاہیے، تاکہ بچے کی نفسیات میں اپنے فیصلے خود لینے کا اعتماد پیدا ہو , والدین کی محبت اور لاڈ پیار اپنی جگہ اہم ہے لیکن خود انحصاری کی تعلیم بچے کی بقاء کیلئے کہیں زیادہ ضروری ہے۔

فرد کا جذباتی استحصال، اس کی من پسند زندگی اور سب سے بڑھ کر اس کی اندرونی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے نہایت ضروری ہے کہ سپردگی کی کیفیت سے خود کو نکالا جائے, ہمارے ہاں گھریلو ناچاقیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دلہن شادی کے اگلے پندرہ بیس سال اپنی ماں کے ہاتھوں سپردگی کے جال میں جکڑی ہوتی ہے، گاہے دولہا میاں بھی اپنی پینشن تک والدین کی  سپردگی  میں دیئے ہوتے ہیں ۔سب سے مشکل کام فرد کو یہ احساس دلانا ہے کہ اس نے اعتماد کی کمی، قوت فیصلہ کی محرومی اور اعصابی کاہلی کی وجہ سے اپنی قسمت اور زندگی کے فیصلے دوسروں کو دے رکھے ہیں، کئی مرتبہ کی منطقی گفتگو اور نرم لہجے کی مشق سے فرد کو اس بات کا احساس دلایا جا سکتا ہے، ہپناٹزم اور میڈیٹیشن بھی اس میں انتہائی مددگار ہیں، نتائج کے آنے میں ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے ،لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ جونہی فرد کو اپنی شخصیت کے گرد اس نفسیاتی جال کا احساس ہوتا ہے، صورتحال بہتر ہوتی جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(پس تحریر _ سپردگی بوجۂ فریفتگی ایک مختلف کیفیت ہے، اس موضوع کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply