داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط14

گزشتہ قسط:

سب سے بڑھ کر اب اسلام آباد میں بغیر ڈرائیور سی ڈی نمبر پلیٹ کی مرسیڈیز کار چلانے کی اجازت مل گئی۔صبح ناشتے کے لئے سامان لینے کمرشل مارکیٹ گئے۔بیکری کے سامنے کار پارک کی تو میڈیم فرحی نکل رہی تھی۔ سلام کیا ۔ حیرانی سے پوچھا اتنی صبح مارکیٹ اکیلی کیسے۔۔۔؟
اس نے اشارے سے بتایا کہ سامنے سڑک پار دوسری سٹریٹ میں کونے والا کوارٹر ہمارا ہے ۔جلدی سے جاب کا پوچھ لیا۔ بہت خوشگوار موڈ میں بولی، آپ نے تو اعجاز صاحب سے بات نہیں  کی ناں !
میں آپ کی طرف سے آج جا کے پیغام دے دوں گی کہ فون نہیں  بلکہ ان سے ملنے آؤ گے، ہوٹل کے جی ایم نے بھی سفارش کی۔ میں آج جوائن کر لوں  گی ،گھر چلو گھر ناشتہ کھا کے جانا۔ باجی سے بھی مل لو۔
ہم نے لجا کے معذرت کی ۔ آفس کا ایڈریس سمجھا ۔ شو خی بگھاری کہ   سرکاری مرسیڈیز پہ  آؤں گا ۔ بائے بائے کرتے  کہنے لگی۔ انتظار کروں گی، دامن کوہ جائیں گے۔۔

زیرو پوانٹ
اسلام آباد کی کھلی اور لُگی سڑک
سگریٹ سے یاری

نئی قسط:

کوئی  دن بڑا ایونٹ فُل ہوتا ہے۔۔۔
بچپن میں سُنتے تھے کہ صبح اگر کسی چوڑی ۔خاکروبہ سے ٹاکرا ہو یعنی وہ متھے لگے تو دن بہت مبارک ہوتا ہے۔
لیکن یہاں تو آج   صبح میڈیم فرحی کے بیکری پر درشن ہوئے تو دن میں خوشگوار حادثے متوقع تھے۔۔۔
چاندنی چوک سے نکلے ۔ ٹیپ ریکارڈ میں عطااللہ کی نئی کیسٹ لگائی ۔ سگریٹ سلگاتے ڈرائیو کرتے فیض آباد چوک کا موڑ مڑ کے اسلام آباد کی حد میں داخل ہوئے تو بیک مرر میں بائیک پر ٹریفک سارجنٹ کو آتے دیکھا۔ ٹریفک بہت کم تھی۔۔

شُغل سوجھا۔ کار کی سپیڈ سو کلو میٹر سے اوپر ہو گئی۔ شکر پڑیاں کا اشارہ بند تھا۔ اشارہ کو  کاٹا، سارجنٹ کی بائیک بھی تعاقب میں لگی تھی فلمی سین کی طرح زیرو پوانٹ پہ  چرچراتے ٹائر سے موڑ کاٹا۔ شاہراہ سہروردی سے ایمبیسی روڈ پر ٹرن لیا تو سارجنٹ ساتھ ۔ اسی کار ریسنگ میں بازار روڈ پہ  مڑے اور ایمبیسی کے سامنے درخت کے نیچے مخصوص جگہ پہ  کار پارک کی۔ سارجنٹ نے بائیک اس کے عین سامنے کھڑی کردی۔ ہیلمٹ اتار کے ہینڈل سے اٹکاتے اترا۔
ہم کار سے اترے آمنے سامنے ہوئے۔ اسے استفہامی انداز میں گھورا۔ وہ خالص پلسیا رعب سے بولا۔
“ کار کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس دکھاؤ” لہجہ پکا میانوالی کا تھا۔ ہم نے بے پروائی  دکھانے کو پیک سے پہلے ایک سگریٹ اپنے ہونٹوں میں اٹکائی  دوسری اسے پیش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
جناب اس کار کے کاغذات تو گندھارا کمپنی کی انوائس اور کراچی کی مصدقہ رجسٹریشن سمیت موجود ہیں لیکن وجہ ؟
ہم نے یہ بات ٹھیٹھ چکوالی میں کی ۔ اس نے سگریٹ لی۔۔ ۔ ہم نے لائیٹر سے دونوں سلگائیں ۔
اس کے چہرے کا تناؤ کم ہونے لگا۔ اس نے کہا۔ ۔اتنی خطرناک ڈرائیونگ ۔ اشارے کاٹتے کوئی  حادثہ ہو سکتا تھا،ہم نے بڑے سکون سے جواب دیا۔ بھائیا جی ڈیوٹی پہ  پہنچنا تھا ،جلدی تھی۔
اتنی دیر میں ہمارا گارڈ شیرین خان شامل گفتگو ہو گیا۔ سارجنٹ سے کہا۔۔ صاحب کیا مسئلہ ہے ؟ کسی کا ویزہ سٹیمپ کرانا ہے اسے بھیج دو۔ ادھر چوہدری صاحب کا حکم ہے چکوال کا بندہ ہو تو اس کا کام پہلے کرنا ہے۔۔
اب سارجنٹ بولا۔ اچھا تم محمد خان ہو چکوال والے ، یار جپھی ڈالو۔ میں عصمت اللہ نیازی عیسی خیل سے۔
یوں یہ حادثہ بچاؤ ملاقات ایک دوستانہ تعارف میں بدلی۔ہم نے اس میں شیرینی ڈالتے شیرین خان سے ہنستے ہوئے کہا۔
نیازی صاحب تو چائے پانی لینے کے چکر میں تھے۔ کراچی کی نمبر پلیٹ کے بھلیکھے میں آ گئے انہیں چائے پلاؤ۔۔
اتنی دیر میں سفیر صاحب کی فلیگ کار چانسری میں داخل ہوئ، ہم نیازی کو وداع کرتے شیرین خان سے پہلے لیمو کا  دروازہ کھولنے پہنچے۔ سفیر صاحب کو مؤدبانہ سلام کیا۔ انہوں نے شفقت سے حکم دیا۔۔۔
Please contact the residence, madam need to get groceries from bonded store

ریسپشن سے فرسٹ فلور پر اپنے دفتر تک خواتین و حضرات کولیگ سب کو گُڈ مارننگ صبح الخیر کرتے ۔ ۔۔ویزہ سیکشن  کے انچارج کو کیش باکس اور رسید بک حوالے کی، یوٹیلٹی بلز دیکھے ۔ ٹوٹل کر کے پیٹی کیش سے رقم دفتری کو جمع کرانے کو دی ۔ اتنے میں ریزیڈنس کا ڈرائیور گراسری کی لسٹ اور بانڈڈ سٹور کا نام پتہ لئے حاضر ہو گیا۔
لیڈی سیکرٹری نے انٹر کام پہ   اپنے دفتر میں جلدی آنے کو کہا۔ میڈم اس کی ڈائرکٹ لائن پر تھیں ۔ لسٹ ملنے کا بتایا انہوں نے کچھ مزید ہدایات دیں ۔ ہم نے جب ،تحت امرک ، کہہ کے فون بند کیا تو سیکرٹری صاحبہ نے بڑے طنز  سے کہا۔ بہت جلدی بہت اونچے اُڑنے لگے ہو۔ دھیان سے رہنا ! اس کے سائیڈ ریک پہ  فون واپس رکھتے کرسی سے نکلے گھٹنوں پہ  ہاتھ رکھ کے ہم نے پیار سے بھرپور انداز میں کہا۔ ، ہم تو آپکے بھی غلام ہیں ۔۔
اس نے ہاتھوں پہ  ہاتھ رکھ کے کہا۔ ۔ تم بہت بڑے کمینے ہو ۔ وہ ہنس دی ہم مسکرا دیئے۔
فرحی کا خیال آیا۔ اس نے جناح سُپر مارکیٹ کے سامنے ہل روڈ پر دفتر کا ایڈریس جو بتایا تھا اتفاق سے بانڈ کا پتہ اس کے ساتھ پہلے کارنر ہاؤس کا تھا۔اس بانڈ والوں نے اشیا خورد و نوش بھی ڈیوٹی فری امپورٹ کی تھیں جو ڈپلو میٹ ہی خرید سکتے تھے، وہ تین چار بار مجھے ان کی سیل بارے ریکوئسٹ  کر چکے تھے، آج بانڈ سٹور دیکھنے کا پہلا چانس تھا۔۔
آدھ گھنٹے میں سامان پیک کر کے کار کی ڈگی میں بھر دیا، سیل انوائس کے ساتھ کسٹم انوائس بھی تیار ہو گئی جس کا   ایگزمشن سرٹیفکیٹ بنوانا تھا۔ بانڈ والے خاطر مدارت کرنے پہ  بضد تھے، ان کو اگلی تاریخ دیتے ان سے سیاحت والوں کا پتہ کنفرم کیا اور باہر نکل آئے۔ایمبیسی کی مرسیڈیز کار تھی اور ڈرائیور یعقوب جو اب ہمارا بالکا شاگرد بن چکا تھا اسے سمجھایا کہ ٹورازم کے دفتر میں کس پروٹوکول سے جانا ہے۔ گاڑی دیکھ کر گارڈ نے گیٹ کھولا ۔ کار پورچ میں رُکی ۔سب لوگ متوجہ ہو گئے یعقوب نے کار کا دروازہ کھولا۔ ہم پچھلی سیٹ سے پروقار انداز سے اترے۔ یعقوب سے کہا سامان اتار کے واپس آ جائے۔ ریسپشن پہ  تعارف کرایا اور اعجاز صاحب سے ملاقات کا بتایا، ان سے پوچھنے کے بعد  ایک آفس کا بندہ ہمیں پہلی منزل پہ  انکے سیکرٹری کے دفتر اور انتظار گاہ میں چھوڑ آیا ۔ سامنے فرحی بیگم منہ لٹکائے بیٹھی تھی، ہم نے ہونٹوں پہ  انگلی رکھتے اشارے سے چُپ رہنے کو کہہ دیا۔

سیکرٹری سمارٹ بندہ لگا اس نے ویلکم کیا ۔ سائیڈ ڈور کھولا تو سامنے اعجاز صاحب تھے، دروازہ بند ہو گیا تو اٹھ کر تپاک سے ملے، وہ تین ماہ تک ہارلے سٹریٹ ہیڈ آفس میں میرے باس رہے تھے، وہ لاہور سے آئے تھے سینئر  چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے۔ لیکن ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ نہ چل سکے، تو اس محکمے میں آ گئے۔
حال احوال خیر خیریت اور ہمارے گیس پراجیکٹ چھوڑنے پر گل بات کے دوران کافی آ چکی تھی، وہ اپنے آفس کی کھڑکی سے ہمارا تزک و احتشام دیکھ چکے تھے، لاہوری زبان میں کہنے لگے، ہُن صحیح  تھاں تے لگ گیا ں ہے گا۔

فرحی کی بات انہوں نے خود شروع کی۔ وہ میرٹ پہ  سلیکٹ تو ہو چکی تھی لیکن دوسری دونوں امیدواروں نے تگڑی سفارش لگا لی تھی، بے تکلفی تھی ہم نے مشورہ دیا کہ فرحی کو اس سیٹ پہ  لگا لیں اور دونوں کو پنڈی ہوٹل میں عارضی پوسٹ دے دیں، تین ماہ میں وہ کہیں اور نوکری ڈھونڈ لیں گی یا کوئی   آسامی نکل آئے گی۔ میری شکل دیکھتے بولے ۔ یار تم چکوال کے لوگ دو منہ والی چھری ہوتے ہو !

میں نے کہا فائل منگوائیں ، پانچ منٹ میں تقرری کا پروانہ تیار تھا۔ فرحی کو اندر بلوایا ، اسے لیٹر اور مبارک دی گئی۔۔۔
سیکرٹری کو حکم ہوا کہ اس کی ابھی جوائننگ بھی کرا دی جائے۔
فرحی مجھے دیکھ رہی تھی اعجاز اسے دیکھ رہے تھے سیکرٹری فائل تھامے کھڑا تھا اور میں کھڑکی سے یعقوب کو ریورس کر کے گاڑی لگاتے دیکھ رہا تھا۔

میرا باس کوئی  بھی ہو اسکی شفقت مجھے ہمیشہ میسر رہتی ہے، ہم اکٹھے سیڑھیاں اترے، فرحی کو ہم نے اچھی طرح کام کرنے کی تلقین کی، اس کی آنکھیں ڈبڈبائی  سی لگ رہی تھیں۔
اعجاز صاحب نے میرے کاندھے پہ  ہاتھ رکھ کے دبی دبی سی مُسکان سے کہا ۔ اب تمہارا آنا جانا لگا رہے گا!
ہم نے دونوں ہاتھوں سے شیک ہینڈ کیا ۔ یعقوب کار کا دروازہ تھامے کھڑا تھا پچھلی سیٹ پر افسرانہ شان سے بیٹھے۔۔۔۔اور ایمبیسی واپس پہنچ گئے۔ آج کے تجربے سے ثابت ہوا کہ ہم جو صبح صبح فرحی کے متھے لگے تھے تو یہ اس کے لئے کسی خاکروب کے متھے لگنے سے کہیں زیادہ مبارک دن گزرا۔

ہماری غیر حاضری میں فون کالوں کا تانتا بندھ چکا تھا۔ نیشنل ڈے میں پندرہ دن باقی تھے،ہم نے لیڈی سیکرٹری کے طنزیہ ریمارکس کا تجزیہ کیا ۔ سمجھ آ گئی کہ سارے کام خود کرنے میں کسی خرد بُرد کا شائبہ ہو سکتا ہے۔ اسی کے دفتر میں مادام کی کال دوبارہ اٹینڈ کی جو سامان صحیح اور پورا ہونے کی پر شفقت کنفرمیشن کی تھی۔
ہم نے اسی کی معرفت سفیر صاحب سے ملاقات کی اجازت مانگی ، جس سے بی بی بہت خوش ہو گئی۔
سفیر صاحب کو نیشنل ڈے کے انتظامات پر بریفنگ دی۔ مطمئن ہوئے اور فوری طور پہ  میٹنگ طلب کر لی۔

ہوٹل ، دعوت نامے بھیجنے اور گفٹس کی تقسیم جو تین اہم ترین کام تھے دونوں فرسٹ سیکرٹریز کی نگرانی میں  کیے گئےاور لیڈی سیکرٹری معاون بنائی  گئی۔ اخبارات میں ضمیمے اور ٹی وی ڈاکیومنٹری  عربی مترجم اسکی ٹائپسٹ ویزہ کونسلر کی نگرانی میں دئیے گئے، دیگر متفرقہ امور لائٹنگ وغیرہ تھرڈ سیکرٹری ایڈمن کے ساتھ انچارج ویزہ سیکشن کے ذمہ لگا ئے گے۔
ہمارا کام جنرل کوآرڈینیشن۔ پروٹوکول اور مصدقہ اپرووڈ بل ادا کرنا ٹھہرا۔۔

چھٹی کے وقت چانسری سے نکلتے ہم نے تمام سٹاف کو بہت خوش اور راضی محسوس کیا۔
کہہ سکتے ہیں ہمارا دن بھی فرحی کے صبح متھے لگنے سے بہت ہی اچھا گزرا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply