چے گویرا کے پہلے یومِ شہادت پر۔۔۔۔۔۔ کامریڈکم ال سنگ

(کامریڈ کم ال سنگ نے یہ مقالہ اکتوبر1968میں کامریڈ چے گویرا کے پہلے یومِ شہادت کے موقع پر ایشیا،افریقہ اور لاطینی امریکا کے اتحاد کی تنظیم کے نظریاتی مجلہTRICONTINENTAL
کے لیے تحریر کیا تھا)

لاطینی امریکا کا سپوت کامریڈ ارنسٹو چے گویرا جو کہ لاطینی امریکا میں پیدا ہونے والا ایک ناقابلِ شکست انقلابی جاں باز اور حقیقی بین الاقوامی بطل تھا ،تقریباََ ایک سال قبل بولیویا کے میدانِ جنگ میں بہادری کی موت قبول کر کے ہم سے جدا ہوا تھا ۔ کوریائی عوام دنیا بھر کے انقلابی عوام کے ہم راہ گہرے غم اور دشمن کے خلاف سخت نفرت و غصے کے جذبات کے ساتھ کامریڈ چے گویرا کی پہلی برسی منا رہے ہیں۔
چے گویرا نے امریکا اور سام راج دشمنی کا عَلم بلند رکھتے ہوئے آغازِ جوانی میں ہی عوام کی آزادی و خود مختاری کے لیے جدوجہد کا مقدس راستہ اختیار کر لیا تھا اور مظلوموں اور بے کسوں کے انقلابی مقصد کے لیے اپنی تمام زندگی وقف کر دی تھی۔جدید بورژوائی طبقے کی خون آشام تاریخ کے اوراق سے پردہ اُٹھنے سے لے کر آج تک کے طویل عرصے میں جب کہ ظلم و ستم قرونِ وسطیٰ کے مذہبی و سیاسی شعبدہ بازیوں کے پردے میں جا ری تھا اور اب اس کی جگہ ایک بے غیرت ،باعثِ ننگ وعار اور بلاواسطہ استحصال نے لے لی ہے اور اب جہاں انسان کی قدرومنزلت بھی ایک قدر مبادلہ بن کر رہ گئی ہے، دنیا میں بے شمار اشتراکی اور انقلابی جاں بازوں نے اپنا خون اور اپنی زندگیاں انقلابی طوفان پر نچھاور کر دیں تاکہ دقیانوسی اور مذموم نظام نیست ونابود ہو جائے اور تمام معاشرے کی انقلابی تشکیلِ نو کر کے لعنت زدہ پرانی سوسائٹی کے بالائی طبقے کو ختم کیا جائے اور آزاد و خوش حال نئے معاشرے کی بنیاد استوار کی جائے۔چے گویرا نے اپنی گراں قدر زندگی اسی مقدس جدوجہد کے لیے وقف کر دی تھی اور اس طرح اس نے عالمی انقلابی شہیدوں کی صفوں میں امتیازی مقام حاصل کر لیا تھا ۔
چے گویر اایک انتھک انقلابی تھا اورجدوجہد کے دوران اس پر اکتاہٹ طاری نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بین الاقوامیت کا عَلم بردار ایک حقیقی رہ نما تھا جو کہ وطنی تعصب کے تنگ نظریات سے قطعی پاک تھا ۔اس کی تمام زندگی ایک ثابت قدم انقلابی مجاہد کے بہترین کردار کی آئینہ دار تھی اور وہ حقیقی معنوں میں بین الاقوامیت کا عَلم بردار تھا ۔
کامریڈ فیدل کاسترو کی قیادت میں کیوبا کے انقلابیوں کے دوش بہ دوش چے گویرا نے بہادری سے مسلح جنگ کا آغاز کیا اور اس طرح سے امریکی سام راج اور اس کے پٹھو باتستا کی آمریت کو کچلنے اور کیوبائی انقلاب کی کام یابی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔1965میں انقلابی جوش وخروش سے سرشار چے گویرا نے کیوبا کی فتح یاب سرزمین کو خیر باد کہا اور اپنی مہم کے لیے ایک نیا میدان تلاش کیا ،جہاں گوناگوں مشکلات اور کٹھن آزمایشیں اس کی منتظرتھیں ۔ لاطینی امریکا میں وہ جہاں بھی گیا اس نے عوام کو امریکی سام راج اور اس کے پٹھؤوں کے خلاف مسلح جنگ کے لیے منظم وآمادہ کیا اور وہ خود اپنی آخری سانس تک بہادری سے صفِ اول میں لڑتا رہا ۔
چے گویرا کی انقلابی سرگرمیوں نے کیوبا کے انقلاب کی کام یابی کو مزید مستحکم کرنے اور مجموعی طور پر لاطینی امریکا کے انقلاب کی ترقی کو تیز تر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔
کیوبا کے انقلاب کے فتح لاطینی امریکا میں اشتراکی انقلاب کی پہلی کام یابی اور عظیم انقلابِ اکتوبر کا تسلسل ہے۔ لاطینی امریکا جسے اب تک امریکی سام راج کی ایک موروثی ریاست سمجھتا تھا ،وہاں انقلابِ کیوبا کی کام یابی کے ساتھ ہی اب اشتراکیت کا سرخ پرچم فضاؤں میں بلند لہرانے لگا اور اشتراکی براداری مغربی نصف کرۂ ارض تک پھیل گئی ہے اور اس کی طاقت میں نمایاں ا ضافہ ہوا ہے۔آج جمہوریہ کیوبا جو لاطینی امریکی انقلاب کی صفِ اول میں بڑی مستقل مزاجی سے پیش قدمی کر رہا ہے، لاطینی امریکی مجاہدین کی اُمیدوں کا مرکز اور ان کے لیے مینارۂ نور کی مانند ہے جو کہ ان کی جدوجہد کے راستوں پر شمعِ اُمید روشن کرتا ہے۔کیوبا کے انقلاب کی کام یابی نے مغربی نصف کرۂ ارض میں امریکی سام راجیوں کے استعماری نظام کی جڑیں ہلا دی ہیں اور پورے لاطینی امریکا کو انقلابی طوفان میں مبتلا کر دیا ہے اور اس علاقے میں عوام کو آزدی اور انقلاب کی مقدس جنگ کے جذبے سے سرشار کر دیا ہے۔ کیوبا کے انقلاب کی فتح در حقیقت لاطینی امریکا میں امریکی سام راجیت کے استعماری تسلط کے نظام کی تباہی کے نقارے کی آواز ہے ۔ اس کی فتح یابی امریکی سام راجیت کے لیے جو عرصۂ دراز سے اس خطّے میں عوام کا استحصال اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے ہوئے تھی ،ایک ایسا سخت حکم ہے جس نے تباہی و بربادی اس کا مقدر بنا دیاہے۔
کیوبا کے انقلاب کی فتح کا استحکام ایک ایسا مسئلہ ہی نہیں ہے جو صرف کیوبا کے عوام کی زندگی اور موت اور عروج زوال کا فیصلہ کرتا ہے بل کہ یہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ بھی ہے جو لاطینی امریکی انقلاب کے عمومی فروغ کی منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔

انقلاب ایک ملک میں شان دار کام یابیوں سے شروع ہوتا ہے اور پھر اسے ایک شدید کش مکش کے دور میں سے گزرناپڑتا ہے ۔ بین الاقوامی سرمایہ داری سے محصور جن ممالک کے پرولتاریوں نے قوت و اقتدار حاصل کر لیا ہے انھیں سرمایہ داری سے اشتراکیت کی جانب انقلابی منتقلی کے پورے تاریخی دور میں سام راجی جارحیت اور سرمایہ داری کی بحالی کا خطرہ
لاحق رہتا ہے۔ شکست خوردہ استحصالی طبقات اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور حیثیت حاصل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں اور سیاسی و نظریاتی تخریب کاری کے لیے غیر ملکی سام راجی مسلح حملوں ،ریشہ دوانیوں اور تخریبی کارروائیوں میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔
امریکی سام راجی اور لاطینی امریکا کے رجعت پسند جمہوریہ کیوبا کے وجود سے سخت متنفر اور خوف زدہ ہیں ۔ وہ انتہائی ڈھٹائی اور بغض و عناد سے اسے ختم کرنے کے لیے نت نئے ہتھ کنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔وہ کیوبا کے انقلاب سے نجات پانے کے لیے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں تاکہ مغربی نصف کرۂ ارض سے اشتراکیت کے ’’بھوت‘‘ کو بھگا سکیں جو کہ وہاں چھا رہا ہے اور عوام کی اس جدوجہدِ آزادی کو روک سکیں جو جنگ کی آگ کی طرح تمام لاطینی امریکا کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ کیوبا کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف تو امریکی سام راجی اپنی مسلح فوجیں براہِ راست حرکت میں لا رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے زیرِ نگیں لاطینی امریکا کی رجعت پسند آمرانہ حکومتوں کو اس بات پر بھی اُبھار رہے ہیں کہ وہ کیوبا پر سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالیں اور ناکہ بندی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس کا گلا دبا کر اسے ختم کر دیں۔
بین الاقوامی سرمایہ داری سے محصور ممالک کے جن عوام نے قوت و اقتدار حاصل کر لیا ہے انھیں انقلاب کو کام یابی کی آخری منزل تک پہنچانے کے لیے اپنی اندرونی قوتوں کو ہر طرح سے مستحکم کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں انھیں عالمی اشتراکی انقلاب کے دوسرے دستوں سے بھی ٹھوس مدد ملنی چاہیے اور دنیا بھر کے مظلوم و محکوم اور ہر خطۂ زمین کے محنت کش طبقات کا وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تعاون بھی حاصل ہونا چاہیے۔باالفاظِ دیگر انقلاب دنیا کے اکثر ممالک میں مسلسل برپا ہونا چاہیے یا کم از کم متعدد ہم سایہ ممالک میں تو انقلاب آنا ہی چاہیے تاکہ سام راجی حصار کو اشتراکی حصار میں بدل دیا جائے ۔ سام راجیت کے ان بندھنوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے جنھوں نے کسی اشتراکی ملک کو گھیر رکھا ہے ،تاکہ پرولتاری آمریت کو ایک عالم گیر نظام بنانے کی راہ ہم وار کی جا سکے۔ نیز بین الاقوامی محنت کش طبقات اور تمام دنیا کے مظلوم عوام کو اتحاد کے مضبوط رشتے میں منسلک کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نرغے میں محصور کسی ملک کے اشتراکی قلعے کی علیحدگی کو ختم کر دیا جائے ۔ صرف اسی صورت میں سام راجیوں کی مسلح مداخلت کا امکان ختم کیا جاسکتا ہے ،دوبارہ سرمایہ داری کا قیام روکا جا سکتا ہے اور اشتراکیت کی حتمی فتح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
جس طرح سرمایہ داری کی قوتیں بین الاقوامی نوعیت کی ہیں ،اسی طرح عوام کی جدوجہدِ آزادی ایک بین الاقوامی تحریک ہے ۔ انفرادی ملکوں کی انقلابی تحریکں قومی تحاریک کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ انقلاب کا بھی ایک جزو ہیں ۔ تمام ملکوں میں عوام کی انقلابی جدوجہدیں ایک دوسرے کا سہارا بھی ہیں اور پشت پناہ بھی ،جو آپس میں مل کر عالمی انقلاب کا روپ دھار لیتی ہیں۔ جس ملک میں بھی انقلاب کام یاب ہو جائے اس کا فرض ہے کہ اپنے تجربے اور مثال سے ان ممالک کے انقلاب کی مدد کرے جہاں انقلابی جدوجہد جاری ہے۔ نیز جدوجہدآزادی میں دنیا کے عوام کو اپنے سیاسی ،معاشی اور فوجی ذرائع سے بھرپور امداد دے۔ دوسری طرف ان ملکوں میں جہاں ابھی انقلاب کام یاب نہیں ہوئے ،وہاں کے لوگوں کا فرض ہے کہ گلا گھونٹنے کی سام راجی پالیسی کے خلاف دوسرے ممالک کے کام یاب انقلابات کا دفاع کرنے کے لیے سرگرمی سے جدوجہد کریں اور اپنے انقلاب کی کام یابی کے لیے جان کی بازی لگادیں۔ یہ عالمی انقلابی تحریک کے ارتقا کا بنیادی اُصول ہے اور عوام کی جدوجہد آزدی کے دوران قائم ہونے والی ایک شان دار روایت ہے۔
انقلابِ کیوبا عالمی انقلاب کا ایک اہم جزو ہے اور لاطینی امریکا میں انقلابی سلسلے کی یہ خاص طور پر ایک اہم کڑی ہے۔انقلابِ کیوبا کا تحفظ اور اس کی کام یابیوں کا استحکام اور فروغ صرف کیوبائی عوام کا ہی فرض نہیں بل کہ لاطینی امریکا کے مظلوم عوام اور تمام دنیا کے انقلابی عوام کا ایک بین الاقوامی فریضہ بھی ہے۔جس طرح روس میں اکتوبر انقلاب نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پہلا شگاف ڈالا تھا ،اس کی حاصلات کا تحفظ عالمی انقلاب کے ارتقا کے لیے ایک فیصلہ کن مسئلہ تھا،اسی طرح انقلابِ کیوبا جس نے لاطینی امریکا میں امریکی سام راج کے نوآبادیاتی نظام میں پہلا شگاف ڈالا ہے اس کی منفعتوں کی حفاظت بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے لاطینی امریکا کے انقلاب کی قسمت وابستہ ہے۔
انقلابِ کیوبا کے تحفظ کے لیے یہ امر انتہائی اہم ہے کہ کیوبا کے ہم سایہ ممالک میں انقلابی تحریک کو فروغ دیا جائے۔اگر انقلاب کے تند وتیزشعلے لاطینی امریکا کی مختلف ریاستوں میں بھڑک اٹھیں گے جہاں امریکی سام راجیت نے قدم جما رکھے ہیں تو امریکی سام راج کی قوت بکھر کا انتہائی کم زور ہو جائے گی اور امریکی سام راجیوں اور ان کے پٹھوؤں کی یہ کوششیں کہ وہ اپنی تمام قوتیں مجتمع کر کے کیوبا کو ختم کر دیں، ناکام ثابت ہو جائیں گی۔مزید برآں اگرلاطینی امریکا کے چند دیگر ممالک میں انقلاب کام یاب و کام ران ہو جائیں تو کیوبا سام راجیت کے اس نرغے سے باہر نکل آئے گا جو کہ اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور کیوبا اور لاطینی امریکا کے انقلابات میں ایک خوش گوار دور کا آغاز ہوجائے گا اور عالمی انقلاب کی رو تیز تر ہو جائے گی۔

انقلاب برپا کرنے کے لیے مناسب حال موضوعی اور مقصودی حالات پید ا کیے جانے چاہیں ۔ انقلاب ہر ملک کے ان مخصوص حقائق کے مناسبِ حال لانا چاہیے جن میں مقصودی انقلابی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔تاہم، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انقلاب خود بہ خود برپا ہوسکتا ہے۔انقلاب کی کام یابی اور ترقی انقلابیوں کی مسلسل سخت جدوجہد پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر انقلاب کے کٹھن اور دشوار ہونے کے باعث محض ساز گار حالات پیدا ہونے کا انتظار کیا جائے اور مؤثر جدوجہد کو نظر انداز کر دیا جائے تو انقلابی قوتیں نشوونما نہیں پاسکیں گی۔انقلابی قوتیں بغیر کسی جدوجہد کے ازخود تیار نہیں ہوتیں ، انھیں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے انتھک کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر دشمن کے جبرو تشدد کے مقابل انقلابی قوتوں کو تیار کرتے ہوئے انقلاب کے فیصلہ کُن لمحے کا خیر مقدم کر نے کی تیاری نہ کی جائے اور اس کے ساتھ ہی انقلابی قوتوں کو مثبت جدوجہد کے ذریعے یک جا اور مضبوط نہ کیا جائے تو انقلاب کی کام یابی ناممکن ہوگی،خواہ مقصودی قوت ہی کیوں نہ پیدا کی جا چکی ہو ۔خون خرابے سے بچنے کے بہانے انقلاب سے منہ پھیرنے کا حقیقتاََ مطلب یہ ہوگا کہ عوام ہمیشہ سرمائے کے غلام رہیں اور بے چون وچرا ظالمانہ جبر وتشدد ہمیشہ برداشت کرتے رہیں، لٹتے رہیں، ذلت وخواری برداشت کریں اور ظلم سہتے سہتے جان دیتے رہیں۔یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ انقلاب کی خاطر وقتی قربانی فرسودہ معاشرے کے ناسور کی اندوہ ناک مستقل تکالیف کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوتی ہے۔معاشرتی انقلاب کا برپا کرنا اس قدر آسان نہیں جیسے کہ روز روشن میں شاہراہ کا سفر اور نہ ہی یہ ہوا کے رُخ بہنے والی کشتی کی طرح پر سکون ہوتا ہے۔ انقلاب کے راستے پر کٹھن موڑ بھی ہوتے ہیں اور خار دار جھاڑیاں بھی۔اس منزل کے سفر میں عارضی ناکام یاں بھی پیش آ سکتی ہیں اور قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔لیکن قربانیوں سے ڈر کر یا مشکلات سے گھبرا کر انقلاب کے راستے سے ہٹ جانا ایک انقلابی کو کبھی زیب نہیں دیتا۔
ہر ملک کے انقلابیوں کا فرض ہے کہ حقیقت بینی اور دور اندیشی سے داخلی اور خارجی حالات کا درست طور پر جائزہ لے، دوست اور دشمن کی طاقت کے توازان کا بہ خوبی اندازہ لگائیں ،انقلاب کی کٹھالی میں آزمائے ہوئے بنیادی عناصر اور عوام کو بیدار کریں اور ان ہی بنیادوں پر سائنسی انداز میں احتیاط سے ایک سرگرم جدوجہد کی تنظیم اور ابتدا کریں۔لیکن جدوجہد کے دوران عام طور پر غیر متوقع رکاوٹوں اور غیر ضروری قربانیوں سے اجتناب کریں اور عظیم انقلابی لمحے کے خیر مقدم کے لیے پوری طرح تیاری کریں اور جب ایک بار انقلابی حالات پیدا ہو جائیں تو انھیں اس موقع کو ضائع کیے بغیر رجعت پسند حکومت کو فوراََ پاش پاش کر دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
انقلابی جدوجہد کی نوعیت اور طریق کار کا فیصلہ افراد کی خواہشات سے نہیں ہوتا بل کہ پیدا کردہ موضوعی و مقصودی کیفیات اور رجعت پسند حاکم طبقے کی قوتِ مدافعت سے ہوتا ہے۔ انقلابی عناصر کو ہر قسم کی جدوجہد کے لیے تیار رہناچاہیے اور جدوجہد کی تمام امکانی صورتوں اور طریقہ ہائے کار کو مناسب رنگ میں یک جا کر کے انقلابی تحریک کو مستعدی سے آگے بڑھانا چاہیے ۔اس میں سیاسی ،اقتصادی جدوجہد، متشدد اور غیر متشدد جدوجہد ،قانونی اور غیر قانونی جدوجہد جیسے ہر قسم کے حربوں سے کام لینا چاہیے۔
اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے انقلاب مخالف تشددتمام استحصالی طبقات کاایک ناگزیر وسیلہ ہے۔ انسانی تاریخ میں ابھی تک تو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں حاکم طبقے نے بہ رضا ورغبت یا اطاعت شعاری کے جذبے کے تحت اپنی حاکمیت چھوڑ دی ہو ،یا کوئی رجعت پسند طبقہ انقلاب مخالف تشدد کو بروئے کار لائے بغیر اپنے اقتدار سے دست بردارہو گیا ہو اور خاص طور پر جب سام راجیوں کا انجام قریب تر آ جاتا ہے تو وہ اور بھی مجنونانہ انداز میں تشدد کا سہارا لے کر اپنی حاکمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ سام راجی اپنے ملکوں میں عوام کو دبانے کے ساتھ ساتھ محکوم قوموں کی تمام انقلابی کوششوں کو بھی اپنی فوجی جارحیت کے بل بوتے پر انتہائی سفاکی سے کچل دیتے ہیں اور دوسرے ممالک کے خلاف لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں۔
ان حالات میں مظلوم عوام کی جدوجہدِ آزادی اس وقت تک کام یاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ غیر ملکی سام راجیوں کو کچلنے کے لیے اور درونِ ملک استحصالی طبقات کے رجعت پسند آمرانہ نظام کا تختہ الٹنے کے لیے انقلابی تشدد سے کام نہ لیں ۔کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔تشدد کا تشدد سے اور انقلاب دشمن مسلح فوجوں کا انقلابی مسلح فوجوں سے ہی جواب دینا ضروری ہے۔
لاطینی امریکا میں اس وقت جو انقلاب کے تند وتیزشعلے بھڑک رہے ہیں یہ اس علاقے میں پیدا شدہ انقلابی حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں۔
لاطینی امریکی ممالک کی بھاری اکثریت مکمل طور پر امریکی سام راج کی غلامی اور گرفت میں ہے۔ لاطینی امریکا کے بیش تر ممالک میں امریکا نواز آمریتیں قائم ہیں اور وہاں کی معیشت مکمل طور پر امریکی اجارہ داریوں کے تابع ہے۔ امریکی سام راجیوں کی لوٹ کھسوٹ ،ظلم و تشدد اور جارحیت کی پالیسی نے لاطینی امریکا میں معاشرتی ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی ہے اور اس علاقے کے عوام کو مفلسی اور مصیبتوں کے اتھاہ غار میں دھکیل دیا ہے۔لاطینی امریکا میں امریکی سام راج اور امریکا نوازآمریتوں نے فوج اور پولیس سمیت مختلف النوع جابرانہ اور ظالمانہ ذرائع وسیع پیمانے پر قائم کر رکھے ہیں اور عوام کی ہر قسم کی انقلابی کوششوں کو انتہائی سفاکی سے کچل دیتے ہیں۔یہ بات واضح رہے کہ جب تک لاطینی امریکا کے نیم برہنہ اور فاقہ کش مظلوم عوام ان ظالموں کے خلاف بہادری سے مسلح جدوجہد کا آغازنہیں کرتے اس وقت تک وہ آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔

ان حالات میں چے گویرا کی جدوجہد نہ صرف حق بہ جانب تھی بل کہ قابلِ ستایش بھی تھی۔ پرولتاری بین الاقوامیت کے پرچم تلے اور سام راج دشمن ،امریکا مخالف جدوجہد کے علم کے نیچے کامریڈ چے گویرا نے لاطینی امریکی انقلابیوں کے ہم راہ مختلف لاطینی ممالک میں شان دار انقلابی جدوجہد کا آغازکیا۔وہ قربانیوں سے بے نیاز ہو کر انقلابِ کیوبا کے تحفظ اور اس علاقے کے مظلوم عوام پر صبح آزادی جلد طلوع کرنے کے لیے مسلح ہو کر اٹھ کھڑاہوا تھا۔دنیا بھر کے انقلاب پسند عوام چے گویرا کی اس جا ں بازی سے گہری ہم دردی رکھتے ہیں جس نے لاطینی امریکا کے انقلابیوں کے دوش بہ دوش بہادرانہ مسلح جدوجہد شروع کی ۔ چے گویرا کی شان دار مثال نہ صرف لاطینی امریکا کے عوام کی انقلابی جدوجہد کے لیے ایک شان دار نمونہ ہے بل کہ تمام ایشیائی اور افریقی عوام کے لیے بھی ان کی آزادی میں ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ان میں عظیم کارنامے سر انجام دینے کے لیے بھی جوش و خروش پیدا کرتی ہے۔
چے گویرا اب ہم میں موجود نہیں لیکن اس کا خون کبھی رایگا ں نہیں جائے گا۔ اس کا نام اور اس کے زندہ جاوید انقلابی کارنامے بنی نوعِ انسان کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے اور اس کی عظیم انقلابی روح وقت کی آغوش میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ایشیا ،افریقہ اور لاطینی امریکا کی انقلابی جدجہدوں کے فیصلہ کن معرکوں میں ہزاروں ،لاکھوں چے گویرا پیدا ہوں گے ،جو انقلابی مقصد اس نے چھوڑا ہے اسے لاطینی امریکا اور تمام دنیا کے انقلابی عوام اپنی جدوجہد سے پورا کریں گے۔
آج ایشیا، افریقہ اورلاطینی امریکا ایک زبردست سام راج دشمن محاذ بن چکے ہیں۔ سام راجیت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے عوام کی شدید مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے گہرے زخم کھا رہی ہے ، لیکن پھر بھی ان علاقوں میں اپنے قدم جمائے رکھنے اور اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل کرنے کی سخت کوششیں کر رہی ہے۔
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں عوام کی آزادی کا مقصد ابھی تک پوری طرح حاصل نہیں ہوا ۔ جب تک دنیا میں سام راجیت کا وجود باقی ہے اور یہ عوام پر جبرو تشدد روا رکھے ہوئے ہے اور انھیں لوٹنے میں مصروف ہے، اس وقت تک عوام ایک لمحے کے لیے بھی سام راجیت کے خلاف جدوجہد ترک نہیں کر سکتے۔یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک کہ استعماریت کی تمام اقسام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹا نہیں دی جاتی اور تمام مظلوم و مقہور اقوام اپنی آزاد ریاستیں قائم کر کے معاشرتی ترقی اور قومی خوش حالی حاصل نہیں کر لیتیں۔
سام راجیت اس وقت تک کبھی بھی نوآبادیات اور محکوم ممالک پر اپنی حکم رانی سے دست بردار نہیں ہوگی جب تک کہ اسے ٹھوکریں مار کر نہ نکالا جائے۔لوٹ کھسوٹ اور ظلم و تشدد سام راجیت کی فطرت میں داخل ہیں۔اگر کہیں ایسی سام راجیت ہے جو جارحیت پسند نہیں ہے تو وہ اب سام راجیت ہی نہیں رہی۔سام راجیت موت سے پہلے اپنی فطرت نہیں بدل سکتی۔ بنا بریں ہر ایک کو سام راجیت کے متعلق تمام خوش فہمیاں ذہن سے نکال کر اس کے خلاف برسرِ پیکار ہو جانا چاہیے۔صرف اسی صورت میں مظلوم اقوام آزادی و خودمختاری حاصل کر سکتی ہیں اور وہ عوام جو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو چکے ہیں صرف اسی وقت سام راجی جارحیت کو روک سکتے ہیں اورقومی آزادی کو مستحکم اور قوم و ملک کو خوشحال کر سکتے ہیں جب وہ سختی کے ساتھ سام راجیت کے خلاف جدوجہد کریں اور اس خلاف کے ایک اصولی مؤقف پر قائم رہیں۔
امریکی سام راج موجودہ دور کا سب سے وحشی اور ظالم سام راج ہے اور یہ عالمی سام راجیت کا سرغنہ ہے۔ امریکی سام راجی جارحیت سے صرف افریقی، ایشائی اورلاطینی امریکی ممالک ہی کی آزادی وخود مختاری اور علاقائی سا لمیت کو خطرہ لاحق نہیں ہے بل کہ دنیا کا کوئی بھی خطہ امریکی سام راجیت کے جارحانہ پنجوں کی زد سے محفوظ نہیں ہے۔جہاں بھی امریکی سام راجیت نے اپنے منحوس قدم رکھے وہاں عوام کو اپنا خون بہانا پڑا۔امریکی سام راجی پوری دنیا کو اپنی غلامی کے حلقے میں لینے کے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔اسی مقصد کے حصول کے لیے امریکی سام راجی نو آزاداور اشتراکی ممالک کے خلاف تخریبی سرگرمیوں اور مسلح حملوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور ایشیا ،افریقہ اورلاطینی امریکا کے عوام کی آزادی کی جدوجہد کو انتہائی سفاکی سے کچل دیتے ہیں۔امریکی سام راج کے وحشیانہ منصوبوں کوقطعی طور پر ختم کرنا ضروری ہے، یہ امر مسلمہ ہے کہ امریکی سام راجیت کے خلاف جنگ کیے بغیر نہ توعالمی امن کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی قومی آزادی و خود مختاری کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بغیر جمہوریت اور اشتراکیت کی فتح ہی ممکن ہے۔ دنیا بھر کے عوام کا یہ اولین مشترکہ فریضہ اور اہم ترین انقلابی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی سام راجیت کے خلاف جنگ کریں۔
امریکی سام راجیت کو فیصلہ کن شکست دینے کے ضروری ہے کہ اس کی عالمی حکمتِ عملی کا پوری طرح تجزیہ کیا جائے۔موجودہ مرحلے پر امریکی سام راجیت کی بنیادی حکمتِ عملی یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے اور منقسم انقلابی اشتراکی اور نو آزاد ممالک کو فوجی طاقت کے ذریعے یکے بعد دیگر تباہ و برباد کر دیا جائے اور بڑی قوتوں سے اپنے تعلقات حتی الامکان خراب نہ کیے جائیں اور جہاں تک ممکن ہوان سے تعارض بھی نہ کیا جائے۔جو ممالک نظریاتی اعتبار سے کم زور ہیں اور انقلاب نہیں لانا چاہتے بل کہ عوام میں سام راجیت کے بارے میں خوش فہمیاں پھیلا رہے ہیں اور سام راجیت کے ساتھ صرف غیر اصولی بقائے باہمی کے لیے شور مچا رہے ہیں اور سام راجیت کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کے خلاف نظریاتی و سیاسی حملوں کو تیز کیا جائے۔

اسی حکمتِ عملی کی بنیاد پر امریکی سام راجی اپنے فوجی ہتھیاروں میں وسیع پیمانے پر اضافہ کر رہے ہیں اور اپنے فوجی اڈوں کو مضبوط بنا رہے ہیں اور جارحانہ فوجی معاہدو ں کو مستحکم کر رہے ہیں تاکہ اشتراکی اور ترقی پسند ممالک پر حملہ کر سکیں۔امریکی سام راجی ’’مقامی جنگ‘‘ اور’’خصوصی جنگ‘‘ کے نام سے ویت نام اور کچھ دوسرے علاقوں میں انسانی خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر مکمل ایٹمی جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی امریکی سام راجیوں نے سرد جنگ کا نیا حربہ بھی اختیار کیا ہے تاکہ وہ بعض ممالک میں ’’پابندیاں ہٹالینے‘‘ اور’’جمہوری قدروں کے فروغ‘‘ کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔علاوہ ازیں وہ محنت کش طبقے کی تحریک کی صفوں میں سے ان بزدلوں کو جو انقلاب سے خوف زدہ ہیں رشوتیں دے کر مارِ آستین بنانے کی دیوانہ وار کوششیں کر رہے ہیں۔وہ ’’انتہائی محبوب قوم‘‘ کے سے سلوک اور مشرق کے قریبی تعلقات اور تبادلوں کی توسیع کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ان حربوں کے ذریعے اپنے رجعت پسند انہ نظریات اور تمدن کو ان میں پھیلا کر ان کی معاشی ترقی اور نظریاتی قدروں کو تباہ کرنا اور اندر ہی اندر سے ان ممالک کی جڑیں کھوکھلی کر کے انھیں کم زور کر دینا چاہتے ہیں ۔نوآزاد ممالک کو ایک ایک کر کے سام راج دشمن محاذسے الگ کرنے کے لیے سام راجی توڑ پھوڑ اور دیگر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔وہ کھلے بندوں طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ’’امداد‘‘ کا جال پھیلا کر نوآزاد ممالک میں سرائیت کرتے ہیں اور ان کے اندروانی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔امریکی سام راجی دائیں بازو کے رجعت پسندوں کو یک جا کر کے انھیں ترقی پسند طاقتوں کے مقابلے میں کھڑا کر دیتے ہیں اور بعض نوآزاد ممالک کو انقلاب دشمن راستوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
امریکی سام راجی ایک ہاتھ میں امن کا تحفہ اور دوسرے ہاتھ میں زہر آلود خنجرلے کر انقلابی ملکوں کو یکے بعد دیگرے مسلح جارحیت کے ذریعے ہڑپ کرنے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ ممالک جو نظریاتی طور پر مضبوط نہیں ہیں ان کے خلاف نظریاتی اور ثقافتی جارحیت کے ذریعے تخریبی کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔وہ بہ یک وقت ایٹمی بلیک میل کے ساتھ ساتھ’’پر امن اثر ونفوز‘‘ اور ظلم و تشدد کے دوش بہ دوش پُر فریب وعدوں اور تسلی تشفی سے بھی کام لیتے ہیں۔پوری دنیا کے عوام کو امریکی سام راج کے ان ہتھ کنڈوں اور ریشہ دوانیوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور دشمن کی ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار رہنا چاہیے۔
سام راج دشمن ،امریکا دشمن جدوجہد کو پوری قوت سے فروغ دینے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ تمام علاقوں، تمام ملکوں ، تمام پارٹیوں اور تمام سام راج دشمن عوام اور طاقتو ں کے حربی اتحاد کو جہاں تک ممکن ہو ٹھوس اور مضبوط بنایا جائے۔ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے عوام کی انقلابی جدوجہدیں ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں کیوں کہ ان کی امنگیں اور آرزوئیں ایک ہی جیسی ہیں۔جب لاطینی امریکا سام راجی جوئے تلے پس رہا ہو تو ایشیائی اور افریقی عوام چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ امریکی سام راجیت ایشیائی اورافریقی ممالک میں شکست کھاتی ہے تو لاطینی امریکا کے عوام کی قومی آزادی کی تحریک کے لیے بھی ساز گار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی عوام کے قریبی روابط اور ٹھوس اتحاد سام راج دشمن اور امریکا دشمن انقلابی قوتوں کو کئی گناہ زیادہ کر دیں گے ۔یہاں تک کہ اس کی متحدہ قوت ناقابلِ تسخیر ہو جائے گی اور اس کے بل پر سام راجیوں کی جارحیت اور عالمی رجعت پسندی کے متحدہ محاذ کو کام یابی کے ساتھ کچلا جا سکے گا۔لہذا جن علاقوں میں امریکی سام راج کے قدم جمے ہوئے ہیں وہاں کے عوام کو چاہیے کہ اپنی پوری قوتوں کو مجتمع کریں اور اس پرکاری ضربیں لگائیں۔
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں اشتراکی اور غیر جانب دا ر ممالک بھی ہیں اور چھوٹے اور بڑے ملک بھی ہیں۔سام راجیوں کی کٹھ پتلی حکومتوں اور ان کی حاشیہ بردارر یاستوں کے علاوہ یہ تمام ممالک سام راج دشمن اور امریکا دشمن قوتوں کی تشکیل کرتے ہیں۔مذہبی عقائد ،سیاسی نظریات اور سرکاری ،سماجی وسیاسی نظاموں کے اختلافات کے باوجود ان علاقوں کے ممالک کے عوام چوں کہ ان اقوام کا حصہ تھے جو سام راجیوں اور استعماریت پسندوں کے ہاتھوں استحصال اور جبر وتشدد کا شکار ہوئی تھیں لہذا ان سب کا یہ ایک مشترکہ مقصد اور آرزو تھی کہ وہ سام راجیت اور نئی اور پرانی استعماریت کے خلاف قومی خودمختاری اور خوشحالی حاصل کریں۔مذہبی عقائد ،سیاسی نظریات اور سرکاری ،سماجی وسیاسی نظاموں کے اختلافات امریکی سام راج کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول اور مشترکہ دشمن کو پامال کرنے کے لیے ایک متحدہ سام راج دشمن محاذ تشکیل دیں اور امریکا کے خلاف مشترکہ اقدام کریں۔
بلاشبہ سام راج دشمن محاذپر مختلف قسم کے لوگ ہوں گے ان میں سے کچھ سام راج کے خلاف سرگرم عمل ہوں گے کچھ سام راج کے خلاف جدوجہد میں پس وپیش کر رہے ہوں گے اور کچھ اپنے عوام اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ کے تحت بد دلی سے سام راج دشمن جدوجہد میں شریک ہوں گے۔تاہم، ان کے اسباب ومحرکات کچھ ہی کیوں نہ ہوں، یہ ضروری ہے کہ سام راج کے پٹھوؤں کے علاوہ ان تمام قوتوں کو امریکا کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے متحد کرنا چاہیے۔اگر امریکی سام راجیت کو زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ کرنے کے لیے مشترکہ اقدام کے ذریعے اس پر کاری ضربیں لگانے کے لیے امریکا مخالف مشترکہ جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قوتیں شامل کر لی جائیں خواہ وہ غیر مستقل مزاج اور بے میل ہی کیوں نہ ہوں تو یہ امر کسی بھی طرح مضرنہیں ہو گا بل کہ یقیناََ مفید ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جولوگ سام راج دشمن جدوجہد سے گریز کرتے ہیں ،انھیں اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی سام راجیت کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیں اور وہ لوگ جو سست روی اختیار کیے ہوئے ہیں انھیں جرات دلا کر سام راج دشمن جدوجہد میں مثبت انداز میں حصہ لینے پرآمادہ کرنا چاہیے۔امریکا دشمن متحدہ محاذمیں انتشار پھیلانا یا امریکا کے خلاف مشترکہ کارروائی میں حصہ نہ لینا یقیناََ سام راج دشمن اور امریکا دشمن جدوجہد کو کم زورکرنے پر منتج ہوگااور اس کا نتیجہ انتہائی سنگین ہوگا۔
امریکی سام راج کو شکست دینے کے لیے چھوٹے بڑے سب ملکوں کو متحد ہو کر امریکی سام راجیت پر کاری ضربیں لگانی چاہیں۔یہاں یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ ایشیا ،افریقہ اور لاطینی امریکا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو بڑی طاقتوں پر تکیہ کرنے کے غلامانہ رحجان کو ترک کر دینا چاہیے اورامریکا کے خلاف جدوجہدمیں سرگرم حصہ لینا چاہیے۔یہ خیال سراسر غلط ہے کہ جب تک بڑی اقوام جنگ میں شریک نہ ہوں امریکی سام راج کو شکست نہیں دی جا سکتی۔بلاشبہ یہ بہتر ہوگا اگر بڑے ملک بھی امریکی سام راج کے خلاف چھوٹے ملکوں کے ساتھ شریک ہوں۔یہی وجہ ہے کہ چھوٹے ملکوں کو بڑے ملکوں کے ساتھ متحد ہونے کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے،لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب تک کوئی ملک بڑا نہ ہو وہ امریکی سام راج کے خلاف جنگ کر کے اسے شکست نہیں دے سکتا۔یہ تو پوری طرح عیاں ہے کہ اگر کوئی بڑے ملکوں پر ہی انحصار کرے اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے تو وہ انقلاب برپا نہیں کر سکتا،اوریہ بھی واضح ہے کہ دوسرے اس کے لیے انقلاب برپا نہیں کر سکتے۔اگر چھوٹے ممالک جوچے قائم کریں ،عوام کو متحد کریں اور قربانیوں کے باوجود جنگ کے لیے پوری بہادری سے اٹھیں تو وہ بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔یہ ہمارے زمانے کی ایک انتہائی واضح حقیقت ہے جو عملی زندگی کے تجربات سے ثابت ہو چکی ہے۔کوریا کی جنگ کے تجربات نے اس حقیقت کو ثابت کیا،کیوبا کے انقلاب کی فتح نے اس حقیقت کی توثیق کی اور ویت نامی عوام کی امریکی سام راجیت کے خلاف قومی آزادی کے لیے عظیم مزاحمتی جنگ نے بھی اس حقیقت پر تصدیق کی مہر ثبت کی ہے۔
مزید برآں جب بہت سے ملک خواہ چھوٹے چھوٹے ہوں، سام راج سے لڑنے کے لیے اپنی قوتوں کو یک جا کر لیتے ہیں توعوام اپنی بے پناہ قوت سے طاقت ور دشمن پر بھی فتح حاصل کر سکتے ہیں۔جوممالک انقلاب برپا کر رہے ہیں ان کے عوام کو چاہیے کہ متحدہ کوششوں سے جہاں کہیں بھی امریکی سام راجیت اپنی عیاری وجارحیت کادست دراز کرے اس کے بازوکاٹ دیں ،ٹانگیں توڑ دیں اور آخر کاراس کا سر قلم کر کے اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ امریکی سام راجی بہت بڑھ بڑھ کر ڈینگیں ہانک رہے ہیں لیکن جب دنیا کے انقلابی عوام ان کے خلاف متحدہو کر ان کے ہاتھ پیر توڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے تو امریکی سام راجی ناکارہ ہو جائیں گے اور آخر خاک چاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ہم جیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو متحد ہو جانا چاہیے تاکہ امریکی سام راجیت کی سب کو یکے بعد دیگرے نگل جانے کی اس حکمتِ عملی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اس کے ہاتھ،پیر اور سر قلم کر دیں۔امریکی سام راج کوشکست دینے کے لیے چھوٹے ملکو ں کی یہی حکمتِ عملی کارگر ہو سکتی ہے۔
کوریا کے عوام بیس سال سے زائد عرصے سے امریکی سام راجیوں کے لاطینی کوریا پر قبضے کے خلاف اور ملک کو متحد کرنے کی خاطر برسرِ پیکار ہیں۔کوریا کا انقلاب عالمی انقلاب کا ایک حصہ ہے۔کوریا کے عوام کی انقلابی جدوجہد امن وجمہوریت اور قومی خودمختاری اور اشتراکیت کے لیے دنیا بھر کے عوام کی مشترکہ جدوجہد کے درمیان نشوونما پا رہی ہے۔کوریا کے عوام اپنی قومی آزادی حاصل کرنے کے لیے دل وجان سے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی عالمی انقلابی تحریک کو مجموعی طورپرفروغ دینے کے لیے حتی المقدور کوششیں کر رہے ہیں۔ہمارے عوام امریکی سام راج کے خلاف تمام قوتوں کے ساتھ متحد ہیں اور امریکی سام راج کے خلاف جدوجہد میں تمام ممالک کے عوام کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔ہم انقلابِ کوریا کی کام یابی کے لیے اس امر کو اہم عامل سمجھتے ہیں۔
سام راجیت نزع کے عالم میں ہے اور اس کے دن گِنے چُنے رہ گئے ہیں۔جب کہ عوام کی جدوجہد آزادی ایک اُبھرتی ہوئی نئی قوت ہے جس کی آرزو انسانیت کا عروج ہے۔عوام کی جدوجہدِآزادی کا راستہ پُرخطر بھی ہو سکتا ہے اورپُر خار بھی ،اس میں کٹھن مراحل اور نازک موڑبھی آ سکتے ہیں لیکن یہ تاریخی ارتقا کا ایک اٹل فیصلہ ہے کہ سام راجیت کی تباہی ناگزیر ہے اور عوام کی جدوجہدِ آزادی کا کام یاب و کام ران ہونایقینی امر ہے۔اگرچہ سام راجی امریکی سام راجیت کی سرکردگی میں عوام کی ابھرتی ہوئی جدوجہدِ آزادی کو روکنے کے لیے دیوانہ وار کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں دمِ نزع کے سنبھالے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں کیوں کہ تباہی وبربادی ان کا مقدر بن چکی ہے۔امریکی سام راجی جس قدر دیوانگی سے کام لیتے ہیں اتنی ہی زیادہ ان کی حالت دگرگوں ہوتی ہے۔امریکی سام راجیت زوال پذیر ہے اور ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح یہ بھی اپنے آخری انجام کو پہنچ رہی ہے۔عوام کی جدوجہدِ آزادی یقیناََ امریکی سام راجیوں کو ایشیا ،افریقہ اور امریکا سے نکال پھینکے گی۔ ایشیا ،افریقہ اور لاطینیامریکا کے عوام کا سام راج دشمن عظیم انقلابی نصب العین ناقابلِ تسخیر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply