ایک ناکام ریاست اور کیا ہوتی ہے؟/امتیاز احمد

یہ سن  2008 یا2009  کی بات ہے۔ بون یونیورسٹی میں ایک ساؤتھ ایشیا کانفرنس تھی۔ ایک پروفیسر صاحب نے کہا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یا بڑی تیزی سے اس جانب گامزن ہے۔ یونیورسٹی کا دور تھا، دماغ پر جذبات حاوی رہتے تھے۔ میں اٹھا اور اس سے بحث شروع کر دی کہ آپ کیسے ہمارے ملک کو ایک ناکام ریاست کہہ سکتے ہیں؟

یہ وہ دور تھا جب کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرتا تھا، جب کوئی ڈرون حملہ نہ ہوتا ہو یا کسی مارکیٹ میں کسی دھماکے کی خبر آ جاتی تھی۔

آج اس بات کو تقریباً  پندرہ برس گزر چکے ہیں۔ بم دھماکے تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں، قبائلی پٹی کے علاوہ عسکریت پسندی کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جا چکا ہے۔ امن و امان بڑی حد تک بحال ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے اب اس پروفیسر کی بات کچھ کچھ صحیح لگنا شروع ہو چکی ہے۔

دو روز قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ ایک نوجوان موٹر سائیکل کھڑا کرتا ہے، اپنی نیکر اُتارتا ہے اور دن کی روشنی میں گلی سے گزرتی ایک لڑکی کو پیچھے سے پکڑتا ہے اور جنسی زیادتی کی کوشش کرتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان بھر میں بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ یومیہ جنسی زیادتی کے درجنوں واقعات پیش آتے ہیں۔ کیا یہ ایک کامیاب ریاست کی نشانی ہے؟

کچھ دیر پہلے بڑے بھائی کا پیغام موصول ہوا کہ شیخوپورہ میں رہنے والی بڑی بہن کے گھر تین لوگوں نے رات ڈاکہ ڈالا ہے۔ ساری عمر کی جمع پونجی لے گئے ہیں۔ بیٹی کی شادی کے لیے رکھا زیور، نقدی اور موبائل تک نہیں چھوڑے۔ وہ جاتے جاتے کچھ بھی کر سکتے تھے، گھر میں جوان بیٹی تھی، بہو تھی۔ خدانخواستہ کسی کو مزاحمت پر گولی مار سکتے تھے لیکن اللہ کا  شکر ہے ایسا نہیں ہوا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کیوں کسی کی جان یا مال محفوظ نہیں ہے؟

دن دہاڑے سینکڑوں ڈکتیاں ہوتی ہیں، قتل ہوتے ہیں اور ملزم دندناتے ہوئے فرار ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی کو پولیس کے نظام پر اعتبار نہیں، کسی کو عدالتی نظام پر اعتبار نہیں۔ کیا یہ ایک کامیاب ریاست کی نشانی ہے؟

یہ چھوٹے لیول کی کارروائیاں ہیں۔ بڑے لیول پر اس سے بڑی وارداتیں ہیں۔

جب دل چاہتا ہے آئین معطل کر دیا جاتا ہے۔ عدالت لوگوں کو رہا کرتی ہے لیکن اسے عدالت سے باہر قدم رکھتے ہی دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یعنی آپ نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ لولے لنگڑے عدالتی نظام کو مزید مفلوج کیا جا سکتا ہے۔

جس دن کرپشن پر فرد جرم عائد ہونا تھی، اس سے ایک روز قبل آپ شہباز شریف صاحب کے تمام کیسز ختم کرتے ہوئے انہیں وزیر اعظم بنا دیتے ہیں۔

کہتے ہیں بادشاہ کسی باغ سے ایک پھل توڑے تو اس کے ماتحت پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ بڑے سیاستدان اپنے مقصد کے لیے راتو رات نیا قانون بنا لیتے ہیں، اپنی مراعات بڑھا لیتے ہیں، اپنے کیسز معاف کروا لیتے ہیں، عدالتیں رات کو کھل جاتی ہیں، گاڑیاں امپورٹ ہو جاتی ہیں، ٹیکس معاف ہو جاتے ہیں، رہائشی کالونیوں کے پرمٹ جاری ہو جاتے ہیں اور شراب کی بوتلوں سے شہد برآمد ہو جاتا ہے۔

جو ملک کے بڑے کر رہے ہیں، وہ ہی نچلی سطح پر پھیل رہا ہے۔ جب حکومت کی رٹ کمزور ہو جاتی ہے، تو ہر گلی میں ایک حکمران پیدا ہو جاتا ہے، جو اپنا ڈنڈا اور اپنا قانون لاگو کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔

آج سے دس پندرہ برس بعد کا پتہ نہیں، فوج کے اپنے منہ میں نوالے کم ہو رہے ہیں تو شاید کوئی نئی اسٹریٹجی آئے۔ جب کچھ بچے کا نہیں تو کھائیں گے کیا؟ جب تقسیم پر لڑائی ہوگی تو عوام ہر اس شخص کے کپڑے اتاریں گے، جس نے استری کردہ سوٹ یا وردی پہنی ہوگی۔

اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن کہیں سے امید نظر نہیں آتی۔ کسی بھی طرح دیکھیں آپ پاکستان کو کامیاب ریاست نہیں کہہ سکتے۔ ریاست کا نام و نشان دھندلاتا جا رہا ہے، ہر کوئی اپنی محنت سے بمشکل گزارا کر رہا ہے، ہر کوئی اپنے بازو طاقت سے اپنی اولاد کی حفاظت کر رہا ہے، ہر کوئی اپنی جمع پونجی سے بچوں کو پڑھا رہا ہے، ریاست کہیں بھی نظر نہیں آتی۔

کیا یہ لاقانونیت، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ہر چیز میں ملاوٹ، نقلی غذائیں، کیمیکل والا دودھ اور بچوں کے مرجھائے ہوئے چہرے ایک کامیاب ریاست کی نشانیاں ہیں؟

ایک ہی سڑک پر بھیک مانگتے بچے ہیں، موٹر سائکلیں ٹھیک کرتے بچے ہیں، ادھ موئے ریڑھیاں لگانے والے بچے ہیں اور اسی سڑک پر لینڈ کروزروں اور مہنگی گاڑیوں میں گزرنے والے بچے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا یہ واضح تقسیم ایک کامیاب ریاست کی نشانی ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply