بنیادی ضروریات اور پاکستان۔۔اظہر احمد

مختلف طرزِ حیات کے اعتبار سے ہماری دنیا چار حصوں میں منقسم ہے۔ جنہیں ہم عموماً پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک کہتے ہیں۔ اس طرزِ حیات کا زیادہ تر انحصار بنیادی ضروریات پر ہوتا ہے جن میں غذا، رہائش، تعلیم اور لباس شامل ہیں، جبکہ اب ترقی یافتہ ممالک میں ان بنیادی ضروریات میں انٹرنیٹ سہولیات کا اضافی شمار کیا جاتا ہے۔
اس طرزِ حیات کی بنا پر کی گئی تقسیم میں پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں وہ تمام ترقی پذیر ممالک شامل کیے جاتے ہیں جہاں کم سے کم فی کس آمدنی تین سو ڈالر یا اس سے زائد ہے۔ لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیاء کے بیشتر ممالک اس زمرے میں پائے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں خواندگی کا تناسب اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ اکثر عوام متوسط اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس کے باعث بنیادی ضروریات تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات کا گھیرا روٹی (غذا)، کپڑا (لباس) اور مکان (رہائش) تک محیط ہے۔ اگرچہ تعلیم اس نعرے کا حصہ نہ بھی ہو اسکے باوجود تعلیم بتدریج اپنا مقام بنارہی ہے اور حکومتی سطح پر ‘کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا’ کے تحت کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے۔ مگر اس قلیل امور میں سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے پھر ستم برائے ستم یہ ہے کہ اساتذہ کا غیر معیاری ہونا مستقبل کے معماروں کیلئے ایسا زہر بن چکا ہے جسکا تریاق نہیں مل رہا جبکہ دوسری جانب نجی اسکولوں میں نا مناسب نصاب، بے وجہ کی سرگرمیوں اور فیس مافیا نے وبال مچا رکھا ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 57 فیصد ہے۔ ناخواندگی کی اہم وجوہات آبادی میں اضافہ، کم تعلیمی بجٹ، عوام کی رسائی میں انے والت تعلیمی اداروں کی کمی اور وسائل کی کمی ہے۔ تعلیمِ نسواں بھی کچھ علاقوں میں اب تک ایک مسئلہ ہے جبکہ اسلام نے تعلیم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا ہے۔ مزیدیکہ تعلیمی بحران کی ایک اور وجہ اردو اور انگریزی زبانوں کی دو کشتیاں ہیں جس نے نہ اِدھر کا چھوڑا ہے، نہ اُدھر کا رکھا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 40 فیصد طبقہ غربت کی حد سے پیچھے زندگی گزار رہا ہے۔ اس طبقے کی آمدنی نہایت قلیل ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم سے زیادہ اپنی مادی ضروریات کی تکمیل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، ان کے نزدیک تعلیم سے زیادہ اہم ضروریات کی تکمیل ہے، لہٰذا غربت بھی شرح خواندگی میں کمی کی اہم وجہ ہے۔ ان مسائل کے حل یا ان میں بہتری کیلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ، آمدورفت کی سہولتیں، تعلیم نسواں کا باقاعدہ اہتمام، غربت کا خاتمہ، تعلیم پر خرچ میں اضافہ، طلبہ کے لئے درست میڈیم کا چناﺅ ،زیادہ سے زیادہ اساتذہ کا تقرر، والدین میں تعلیمی شعور بیدار کرنا، نصاب میں یکسانیت پیدا کرنا وغیرہ جیسے اقدامات اٹھائے۔
تعلیم، رہائش اور لباس سے بڑھ کر سب سے بنیادی ضرورت انسانی تاریخ میں غذا ہے جسے بالفاظِ دیگر ‘بھوک’ کہتے ہیں اور کسی نے سچ کہا ہے کہ ‘بھوک سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے’ اور اسکا عملی جائزہ پاکستان میں بڑھتے جرائم ہیں جو کہ پاکستان میں گَھٹتی ملازمت کی وجہ سے عروج کی طرف جارہے ہیں۔
غیر سرکاری جرمن تنظیم ‘ورلڈ ہنگر ہیلپ’ کی طرف سے جاری کردہ ‘ورلڈ ہنگر انڈیکس-2019’ کے مطابق پاکستان 28.5 پوائنٹس کے ساتھ غذائی قلت کے شکار ممالک میں شامل ہے، اس طرح دنیا بھر میں غذائی قلت اور بھوک کے شکار 117 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 94 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے جون 2019 میں جاری کردہ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ بلوچستان کی 50 فی صد آبادی جب کہ فاٹا میں 54.6 فی صد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ 78 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
مسائل میں اضافہ کی ایک اور وجہ آبادی کا تیزی سے بڑھنا ہے۔ ماہرین اپنی رائے سے مستقبل کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی میں تقریبا ہر آٹھ سیکنڈ کے بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر اس رفتار میں کمی نہ آئی تو ہماری آبادی 2070 میں 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی بےہنگم آبادی پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے کئی سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ جبکہ حکومتی ایجنڈا ‘دو بچے ہی اچھے’ عوام کے سروں سے اوپر جاتا ہے۔ (ناچیز کی یہاں عوام سے مراد متوسط اور غریب طبقات ہیں) ویسے شرعی لحاظ سے اولاد کی کثرت باعثِ برکت ہوتی ہے اور اسلامی ریاست کا نظامِ معاشرت جہاں زکوٰۃ، مساوات، دردِ دل جیسے ماہتاب اصول پیش کرتا ہے وہاں یہ باتیں سمجھ بھی نہیں آتی ہیں البتہ پاکستان اسلامی ریاست عملاً کتنی ہے یہ سوچنا ‘لمحہ فکریہ’ ہے۔ کیونکہ ریاست کا مذہب سے کسی طور بھی ٹکراؤ غیر موزوں ہے کیونکہ ہم مذہب کو بطور آفاقی دین تسلیم کرتے ہیں لیکن نافذ العمل کرنے سے گھبراتے ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے یہ رجحان بھی پیدا ہوچکا ہے کہ اس دوا سے حکومت آنے والی نسل کو جنسی طور پر کمزور بنارہی ہے جسکی زائد تعداد ہمیں دیہی علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں ملتی ہے۔ اسکے علاوہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اولاد کی کثرت انہیں وسائل کی کثرت کا ثمر دیں گی کیونکہ انکے فہم و ادراک میں روزگار کا چلتا پہیہ ہوتا ہے۔ مگر اگر وسائل کی کمی کا عمیق جائزہ لیا جائے تو حالیہ صورتحال میں وسائل کی کمی شہری علاقوں میں ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور علاقوں میں قدرتی آفات کے باعث زراعت کی تباہ کاریاں ہونے کی وجہ سے ہے جسکے باعث غربت پروان چڑھ رہی ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے۔ غربت کی اس بڑھتی شرح نے پاکستان کے تقریباً ہر نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔ کراچی سن 2014 اور 2015 میں پاکستان کا تیسرا امیر ضلع شمار ہوتا تھا تاہم اس کے باوجود یہاں غربت کی شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد ہے۔ یہاں ملک کے ڈھائی فیصد غریب عوام رہتےہیں جبکہ لاہور چھٹا امیر شہر ہونے کے باوجود دو اعشاریہ دو فیصد غریب عوام کا مسکن ہے۔ غربت اور مفلسی کے خاتمے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں مگر افسوس ہے کہ یہ پالیسیاں اتنے سالوں میں بھی سمندر کے کچھ قطروں کو ہی محظوظ کرسکی ہیں۔ غلط فیصلے اور کرپشن کے ہتھکنڈوں نے عوام کو جہاں بنیادی ضروریات کیلئے ترسائے رکھا ہے وہیں غریب کو مزید غریب کردیا ہے۔ امید ہے کہ حکومت کی پالیسیاں عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں کارگر اور کارامد ثابت ہونگی اور انشاءاللہ ‘ہم دیکھیں گے۔۔۔’ جب پاکستانی عوام خوشحال زندگی بسر کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply