اٹینڈنٹ سروس منافع بخش کاروبار کیوں؟/ثاقب لقمان قریشی

ہمارے پیارے دوست ندیم حیات گوندل صاحب مسکولر ڈسٹرافی کا شکار تھے۔ ندیم صاحب لمبے عرصے تک اپنے سارے کام خود ہی کر لیتے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ مرض بڑھتا چلا گیا۔ زندگی کے آخری پندرہ سالوں میں نہ تو وہ خود سے بیٹھ سکتے تھے اور نہ  ہی دیگر امور سرانجام دے سکتے تھے۔ انھیں ہر کام کیلئے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔ بہن کا گھر نزدیک ہی تھا۔بہنوئی اور بچے انکی مدد کر دیا کرتے تھے۔ پھر بچے یونیورسٹی اور نوکری کے چکر میں پھنس گئے۔ جس کی وجہ سے انکے پاس ٹائم کم ہی ہوتا تھا۔

اٹینڈینٹ سروس والوں سے بات کرتے تو وہ اتنے پیسے بتاتے کہ ہم سُن کر چپ ہو جاتے۔ ندیم صاحب اپنے گاؤں اور جاننے والوں سے اٹینڈینٹ کا ذکر کرتے رہتے۔ لوگ آتے چند روز کام کرتے، کوئی چوری کر کے بھاگ جاتا، کوئی ادھار لے کر جاتا تو واپس ہی نہ آتا، کوئی انکے محنت طلب کام کی وجہ سے انکار کر دیتا۔

پھر کسی جاننے والے نے گاؤں سے طارق نامی لڑکا بھیج دیا۔ جو آخری پانچ سال انکے ساتھ رہا۔ یہ لڑکا ندیم صاحب کا بہت خیال رکھتا تھا۔ لیکن ہر دو ماہ بعد دس دنوں کیلئے گاؤں جاتا تھا۔ وہ دس دن ندیم صاحب کیلئے عذاب سے کم نہ ہوتے۔ انھیں رات میں تین چار مرتبہ کروٹ دلوانا اور صبح تیار کر کے دفتر بھیجنا ہوتا تھا۔ میں مختلف اٹینڈینٹ سروسز کے نمبر  ملاتا۔ جس سروس کے ریٹ کم ہوتے اسے بلا لیتا۔ ندیم صاحب کی وفات کو تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس وقت بھی ہمیں دو ہزار روپے ایک رات پر بندہ نہیں ملتا تھا۔

شاہد جمیل صاحب ناروے میں مقیم پاکستانی بزنس مین ہیں۔ ملک بھر میں معذور افراد کی بحالی کے مختلف پراجیکٹس چلا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہد صاحب نے مجھے کہا کہ وہ ایک نیوز ویب سائٹ بنانا چاہتے ہیں۔ آئی-ٹی کے ایکسپرٹ کی خدمات چاہتے ہیں۔ میں نے دو تین لوگوں کے نمبرز شیئر کر دیئے۔ شاہد صاحب کو لاہور کے واصف اسلام کا کام پسند آیا۔ واصف کو دو ماہ ہی کام کا موقع  ملا اسکے بعد وہ فوت ہوگیا۔ میں نے شاہد صاحب سے پوچھا کہ آپ کی واصف سے کیا ڈیل ہوئی تھی۔ واصف کے کام کی تعریف کرتے ہوئے شاہد صاحب نے کہا کہ اٹینڈینٹ کی فیس پر بات ہوئی تھی۔ وہ اٹینڈینٹ کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔ کہتا تھا کہ اٹینڈینٹ فیس کے بدلے میں ہر کام کرنے کیلئے تیار ہوں۔

رضیہ صاحبہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں سپائنل انجری کا شکار ہوئیں۔ حادثے کے بعد سرکاری نوکری چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد شوہر نے بھی طلاق دے دی۔ رضیہ نے پنجاب کے کسی گاؤں کی ایک لڑکی کو ساتھ رکھا ہوا تھا۔ جو اٹینڈینٹ کا کام کرتی تھی۔ لڑکی کافی عرصہ انکے ساتھ رہی۔ اسکی شادی کا وقت قریب آیا تو رضیہ پریشان ہوگئیں۔ کیونکہ رضیہ کو اسکی عادت ہوچکی تھی۔ گھر والوں نے ایک اور بچی کو رضیہ کی خدمت کیلئے بھیج تو دیا۔ لیکن وہ بچی عمر میں بہت کم تھی۔ رضیہ کو اٹھانا بٹھانا اسکے لیے ناممکن تھا۔

تحریر میں، مَیں نے جن تین خصوصی دوستوں کا ذکر کیا ہے۔ انکا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے ہے۔ شہروں میں رہنے والے کم آمدن والے گھرانوں کے معذور افراد کے بارے میں سوچتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں کہ وہ کیسے گزارا کرتے ہونگے۔ انکی تکالیف کس قدر سنگین ہونگیں۔ گاؤں، دیہات میں تو ویسے ہی وسائل اور سہولیات کا فقدان ہے۔ وہاں مشکلات کا کیا عالم ہوگا۔ معذور لڑکیوں کو ان سب مسائل کے ساتھ جنسی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ایک اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ پنڈی اسلام آباد میں جتنی بھی اٹینڈینٹ سروسز ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی انکے پاس تربیت یافتہ عملہ ہے۔ تمام سروسز کا عملہ کرسچن اور ہندو برادری پر مشتمل ہے۔ مجھے دکھ ہے کہ ہم دین اسلام کے ماننے والے کسی بیمار یا معذور انسان کی خدمت کو بُرا کیوں تصور کرتے ہیں۔؟

اٹینڈنٹ سروس شدید معذوری کے شکار افراد کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ موجودہ صدی کی قیمتی چیز وقت ہے۔ زندگی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ہر طرف ہنگامی صورتحال نافذ ہے۔ والدین کے پاس بچوں کیلئے وقت نہیں، بچے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ خاندان اور برادریاں ختم ہو رہی ہیں۔ کسی کے پاس دوسرے کیلئے وقت نہیں۔
اٹینڈنٹ سروس صرف معذور افراد کا مسئلہ نہیں، بزرگ، فربہ افراد، بیمار اور حادثات کا شکار بھی اسی قبیلے کا حصہ ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی عمر، بیماری یا حادثے کی وجہ سے اس قبیلے کا حصہ بن سکتا ہے۔

مجھے اس چیز کی خوشی ہے کہ اپنی کم معلومات کے باوجود میں ہر مسئلے کا حل لازمی تجویز کرتا ہوں۔ میری تجاویز میں بہت کچھ شامل کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن میں کوشش ضرور کرتا ہوں۔

الف) سب سے پہلے حکومت موبائل فون پر بنی غیر رجسٹرڈ اٹینڈینٹ سروسز کو رجسٹرڈ کرنے کی کوشش کرے۔ انھیں یہ باور کروایا جائے کہ وہ ایک عظیم کام کر رہے ہیں۔ پھر انھیں ٹریننگ دینے کا اہتمام کیا جائے۔

ب) اٹینڈینٹ سروس بہت سے لوگوں کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسے جہاں تک ممکن ہو ٹیکس فری رکھا جائے۔ تاکہ اسکے ریٹ مناسب رہیں۔

پ) سروس کے ریٹ متعین کیے جائیں تاکہ ہر ضرورت مند اس سے باآسانی مستفید ہوسکے۔

ت) کم ریٹ لینے والی کمپنیوں اور والنٹیرز کو معاشرے کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔ اس سے اس فیلڈ میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افرائی ہوگی، جس مزید لوگ اس کام کی طرف راغب ہوسکیں گے۔

ث) آپ خون کے عطیات جمع کرنے والے کسی سینٹر یا کیمپ میں چلے جائیں۔ وہاں بڑی تعداد نوجوانوں اور اسٹوڈنٹس کی ملے گی۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اس مقدس کام کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو اس سروس کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں بتایا جائے۔

ج) سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں باقاعدہ ٹریننگز کا اہتمام کر کے اس حوالے سے مزید آگہی عام کی جائے۔

چ) اگر مولوی حضرات اس مسئلے پر لیکچرز دے کر لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی کوشش کریں تو مسائل میں کافی کمی لائی جاسکتی ہے۔

ح) مشہور ایکٹوسٹ ماریہ قریشی نے کچھ عرصہ قبل اس مسئلے پر ہمیں ایک تجویر دی تھی۔ ماریہ کا کہنا تھا کہ اگر خواجہ سراء برادری کو اس کام کی طرف راغب کیا جائے تو انھیں روزگار کا نیا ذریعہ، سر چھپانے کیلئے چھت اور معاشرے میں کھویا ہوا مقام مل سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری تجاویز پر عمل کرنے سے ایک طرف لاکھوں مجبور افراد کا سب سے اہم مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ تو دوسری طرف معاشرے میں پیار، محبت اور انسانیت کے جذبے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply