جب ہم کوئی بھی مشین یا ڈیوائس خریدتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک کاغذ یا کتابچہ پر ہدایات لکھی ہوتی ہیں کہ اس کا استعمال کیسے کرنا ہے اور اس کو کیسے جوڑنا ہے کتنی دیر کام لینا ہے کیسے صاف کرنا ہے اس چیز سے متعلق تمام اہم باتیں درج ہوتی ہیں ۔
جوتوں اور کپڑوں پر care labels /care tags /laundry instructions لگے ہوتے ہیں جن کے مطابق عمل کرنے سے اس چیز کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے
کسی بھی مرض کہ علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جایا جاتا ہے ڈاکٹر مرض کا پتہ لگا کر اسی کے مطابق دوائی دیتا ہے اور مریض وہ دوائی کھا کر صحتیاب ہوتا ہے
اگر مریض ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی لینے کے بجاۓ پہلے اس پر ریسرچ کرے کہ یہ کن کیمیکلز سے بنی ہے؟ کیا یہ میرے لیے مفید بھی ہے کہ نہیں ؟کیا یہ میرے مرض کی دوا بن سکتی ہے یا پھر مجھے نقصان دےگی ؟اسے کس نے بنایا ہے ؟ڈاکٹر کے بتاۓ ہوۓ دوائی کے اوقات کے بجاۓ اپنی مرضی سے کسی بھی وقت لینا اور اس طرح شک میں پڑھنے اور اپنی مرضی کرنے پر اس کا مرض ٹھیک ہونے کے باوجود مزید بڑھتا جائے گا
اگر مشین کے ساتھ دی ہوئی ہدایات کو چھوڑ کر اسے اپنی مرضی سے زبردستی چلائی جائے تو وہ جلد خراب ہو جائے گی اس کے پرزے ٹوٹ جائیں گے اور کام کرنے کے قابل نہ رہ سکے گی
دوائیاں ہو ، جوتے کپڑے ہو یا مشین اور ڈیوائسز ہوں یہ سب تخلیق انسان کی ہے اور جو جس برینڈ , پروڈکٹ اور شعبے کامتخصص ہو وہ اپنے فن کا ماہر ہوتا ہے وہ اپنی بنانے والے اشیاء کے نقصان اور فائدوں دونوں سے آگاہ ہوتا ہے اور انکی بناوٹ کے مطابق اصول اور طریقہ کار فراہم کرتا ہے ہم صرف ان ہدایات کو فالو کرنے والے ہیں نہ کہ اس پر اعتراضات اور بحث کرنے والے
کیونکہ ہم ان کا اس طرح علم نہیں رکھتے جس طرح اسکا تخلیق کرنے ولا ۔۔
ان اشیاء کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی مثال بھی ایک برینڈ ، پروڈکٹ یا مشین کی مانند ہے جس کے ساتھ اس کی ہدایات کا کتابچہ بھی موجود ہے اب وہ ہدایات کیا ہیں ؟وہ کس نے لکھی ہیں ؟ اور وہ کہاں ہیں ؟
جس طرح کسی بھی شے یا مادے کا خود بخود وجود میں آنا ناممکن ہے بالکل ایسے ہی انسان کے وجود اور اس کی تخلیق کے پیچھے بھی ایک سبب ہے اور وہ سبب ہے ذات الہی یعنی خدا
انسان اس کی تخلیق ہے اللہ نے اپنی اس عظیم تخلیق کے لۓ بشکلِ قرآن ہدایت نامہ بھی بھیج دیا ہے اور اسکی نفسیات، جذبات، احساسات، عقل ،خواہشات ضروریات، صلاحیتوں اور کمزوریوں کے مطابق اس قران پاک میں ہدایات فرمائی ٹھیک جس طرح طبیب مریض کو دوائی اس کے مرض کے مطابق تجویز کرتا ہے۔
لیکن ان ہدایات کو ہم تک پہنچانے والے اور ہمیں ان کے بارے میں تعلیم فرمانے والے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات ہے وہی ہمارے اور اللہ کے بیچ میں اک رابطہ ایک وسیلہ اور ایک ذریعہ ہیں اگر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نہ ہوتے تو ہم تک یہ ہدایت نہ پہنچ پاتی اور اگر پہنچ بھی جاتی تو ان پر خود سے عمل کرنا ہمارے لیے ناممکن ہوتا ،اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میرے حبیب کی حیات سے سیکھو اور یہی وسیلہ ہے گمراہی سے نکل کر راہ راست پر چلنے کا:،
اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریںo(سورہ النحل ۴۴)
ایک اور مقام پر فرمایا :بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے(سورۂ ال عمران 164)
ان آیات میں اللہ نے صاف صاف اس بات کا ذکر کردیا ہے کہ قرآن کےاحکامات اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے اولین اور سب سے اہم ذریعہ اور وسیلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے اللہ پاک نے اس آیت میں احسان کا لفظ استعمال کیا احسان کے لغوی معانی ہوتے ہیں : نیکی، اچھا سلوک، مہربانی کا برتاؤ، اچھے سلوک کا بار ۔ عمل خیر وغیرہ۔ یعنی اللہ نے ہم مسلمانوں پر مہربانی فرمائی کہ ہمارے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذریعہ بنایا قرآن کا محض اپنی عقل سے سمجھنا ناممکن ہے اسی لیے اللہ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا وسیلہ دیا ۔
اپ کو وسیلہ اور ذریعہ کیوں بنایا گیا ہے اس کا جواب اللہ تعالی خود قران پاک پر یوں فرماتا ہے:
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (القلم، 68: 4)
حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا:اے ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا! مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلا ق کے بارے میں بتائیے؟حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں نے عرض کی، کیوں نہیں؟ تو آ پ نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔
(مسلم کتاب صلوة المسافرین و فعرھا، الحدیث ۱۳۹۔ ص۳۷۴)
شاعر نے کیا خوب لکھا :
وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
آج ہماری زندگی اور طرز معیار حضور کی حیات مبارکہ کے بجائے مغربی تہذیب و فکر کے رنگ میں رنگ گئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ حضور کی سنتوں سے دوری اور مغربی تہذیب اور طرز زندگی سے انسیت اور وابستگی بڑھتی جا رہی ہے آخرکیا وجہ ہے کہ جن کے وسیلے سے ہمیں اسلام اور عرفان الہی ملا جن کے وسیلہ سے قرآن پاک کی سورت میں ہدایت ملی جن کے وسیلہ سے عذاب ٹال دیئے گئے ہم سے جن کے وسیلے سے ہم پر رحمتوں کا نزول ہو رہا ہے وہ جو چودہ سو سال پہلے ہماری خاطر اللہ سے گریہ و زاری کرتے رہے وہ جنہوں نے ہمارے اس دنیا میں آنے سے قبل ہم سے محبت کا اظہار کیا وہ جن کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوجاتا بادل سایہ کرتے صحابہ آپ پر جاں نثار کرتے کفار جن کی صداقت کا اعتراف کرتے جن کی بشارت ہر پیغمبر نے دی وہ جن پر موسی علیہ السلام نے رشک کیا وہ جن کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت بخشی گئی جن کے صدقے سے قیامت میں شفاعت نصیب ہوگی جو سیدالمرسلین اور وہ جو محبوب الٰہی ہے آج ہم نے ان غمخوار امت کو کس کے عوظ بھلا دیا؟
آج ہم جن مغربی خیالات کے اسیر ہیں جن کے غلام ہیں ان کے بارے میں چند باتیں قابل غور ہیں
مغربی فکر و خیال رنگ و تہذیب اور قوانین سے متاثر ہونا اور اسکو عملی جامہ پہنانے میں کوئی غلط بات نہیں لیکن ایک حد تک اور وہ حد رسول اللہ ہمیں بتائیں گے کوئی مفکر کوئی سائنسدان کسی عالم کسی فلسفی کسی لیڈر کی پیروی نہیں ہوسکتی کوئی کچھ بھی کہے approval رسول اللہ ہی دینگے ہمارے درمیان جو بہت بڑا فرق ہے وہ ہے تصور خدا ان کے ہاں خدا کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے خدا ان کے لئے ایک مزاحیہ بحث اور موضوع بن گیا ہے لا دینی کا ریشو بڑھتا جارہا ہے نوجوانوں میں Atheism عروج پر ہے اور سب سے اہم نکتہ یہ کہ ان کے نزدیک موت کے بعد کوئی زندگی نہیں جو ہے بس یہی دنیا ہے تمام باتوں پر کچھ بھی دلائل دے دیا جائے جو بھی سمجھوتہ کر لیا جائے لیکن آخرت کے انکار کا کوئی جواز قابلِ منظور نہیں جب آخرت کا تصور نہ ہو تو اعمال کا احتساب بھی نہیں اور جہاں اعمال کا حساب نہیں وہاں آزادی ہی آزادی ہے کوئی حد کوئی قید نہیں نہ سوچ کی نہ خواہشات کی ۔
جسمانی سکون و آسائش اور نفسانی خواہشات کا پورا کرنا ان کا نصب العین ہے موت کے بعد کوئی زندگی نہیں اس دعوے کی بنیاد پر اللہ کی جنت سے نا امید ہو کر اس دنیا کو جنت بنانے میں دن رات کوشاں ہیں لیکن اس کا لطف اور لذت بہت عارضی ہیں جس کا نتیجہ ذہنی بے سکونی اور زندگی میں بے اعتدالی ہے دن رات نفس کو خوش کرنے کے بعد جب روح کو اس کی غذا نہ ملے تو پھر اندر کا سکون ختم ہوتا جاتا ہے بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل جس لائف سٹائل کی تمنا رکھتی ہے اس کی جڑیں بہت ہی کمزور ہے۔
ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ دین سے بیزاری بڑھتی جا رہی دین کومحض پانچ نمازوں کا نام سمجھتے کچھ رسومات میں دین کی ضرورت کو اہم سمجھ کر اس کے بعد تمام اہم شعبوں میں اپنی رائے اور اپنی خواہش کے مطابق فیصلے کرتے ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت سے لا آگہی اور کم علمی کے باعث دین پر عمل کرنے سے شرم محسوس کرتے ہیں جھجکتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو چودہ سو سال پرانا طرز زندگی سمجھ کر اکتا ہٹ کا اظہار کرتے ہیں اسلام کو old fashioned اور اس کی اشاعت و تبلیغ کے لیے کام کرنے والوں کو narrow minded سمجھا جاتا ہے.
دین اور دنیا کو دو مختلف راستے سمجھتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات مبارکہ زندگی کے ہر جہد ہر شعبے اور ہر نقطے کے مطابق خوبصورت مکمل اور جامع ہے تو پھر ہماری جوان نسل میں ہمارے معاشرے میں سنت رسول کے آثار اور خوشبو کیوں موجود نہیں؟
اسکو سمجھنے کے لیے تربیت کا جائزہ لینا پڑےگا بچے کا ذہن سات سال کی عمر تک ایک ٹیپ ریکارڈر کی مانند ہوتا ہے اپنے ارد گرد کے ماحول میں ہونے والی ہر چیز ہر آواز ہر ہر عمل کو وہ ریکارڈ کرتا جاتا ہے بچے کے لیے سب سے اولین اور اہم رول ماڈل اس کے ماں باپ ہیں وہ بچے کے سامنے جو کچھ کرتے ہیں بچہ وہی نقل اتارتا ہے اور یہ سب کچھ اس کے ذہن میں save ہوتا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی عادت کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ رنگ اسکی شخصیت سے جھلکنے لگتا ہے۔
یہاں ماں باپ کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان کی بچوں کی تربیت میں اس بات کے علاوہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے آخری پیغمبر ہے کوئی اور تعلیم موجود ہیں؟
انکی چھوٹی چھوٹی سنتوں کے بارے میں بتانا کر کے دکھانا پانی کیسے پینا ہے کھانے کے آداب لوگوں سے کیسے ملنا ہے خوشی میں کیسے react کرنا ہے غصہ آۓ تو کیسے کنٹرول کرنا ہے دوسروں کا خیال رکھنا ضرورت مندوں میں اشیاء بانٹنا اور اس طرح کی بہت سی باتیں جس سے انکی اخلاقی نشو نما ہوگی
آپ کی کوششوں کے بارے میں آپ کے غزوات کے متعلق آپ نے اپنی امت کے لیے کیا ؟ آپ نے کیا چیلنجز دیکھیں انہیں کس طرح سے handleکیا اس طرح بچوں کی mental growth ہوگی ۔
کیا ان سب کی تعلیم دی گئی ہے ؟ کیا کبھی ان کے ہاتھوں میں آپ کی سیرت کی کتاب تھمائی گئی ہیں؟

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں