گلابی نمک اور سبز باغ۔۔۔آصف خان بنگش

ڈیم کا معاملہ ٹھنڈا ہونے اور سمندر میں تیل کی تلاش میں ناکامی اور ڈالر کے بائیکاٹ کر کے ریٹ دو روپے کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ پاکستان سے گلابی نمک (Himalayan Salt) بھارت دو روپے کلو بیچا جاتا ہے اور وہ اسے پچاس یورو فی کلو بیچتے ہیں جس سے سالانہ 128 ارب امریکی ڈالر کماتے ہیں۔ ہمیں بھی تشویش ہوئی کہ یہ تو بہت گھاٹے کا سودا ہے اس پر کچھ معلومات اکٹھی کی جائیں اور اس قضیہ کو حل کیا جائے تا کہ مہم چلانے میں آسانی ہو۔ دو دن مختلف رسائل و جرائد پڑھ کر جو معلومات اکٹھی ہوئیں وہ آپ سے بانٹ  رہا ہوں۔

برٹش جیولاجیکل سروے کے مطابق چین اس وقت نمک کی پیداوار میں سرفہرست ہے جو سالانہ 68 ملین ٹن نمک پیدا کرتا ہے اور اس کیلئے CNSIC کا ادارہ جس کے ملازمین کی تعداد صرف 50 ہزار ہے اور اس ادارے کے کل اثاثے 7 ارب ڈالر ہیں سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ 44 ملین ٹن کے ساتھ دوسرے اور بھارت 27 ملین ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جہاں قریب 12 ہزار نمک پیدا کرنے کے یونٹس ہیں جو سالٹ کمشنر کے تحت کام کرتے ہیں جو ان کی پالیسی وضع کرتا ہے۔ پاکستان کا اس لسٹ میں نمبر 21واں ہے جو دنیا میں نمک کی پیداوار کا 1 فیصد حصہ ہے۔

اگر برآمدات کی بات کی جائے تو نیدرلینڈز 277 ملین ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے، جرمنی 205 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے اور چلی 189 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ امریکہ کا نمبر پانچواں اور بھارت 129 ملین ڈالر کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان نمک کی برآمد میں سال 2014 میں کافی پیچھے تھا لیکن اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور سال 2018 میں یہ نمبر 16 ملین ڈالر سے بڑھ کر 52 ملین ڈالر ہو گیا ہے جو خوش آئند ہے۔

بھارت چونکہ نمک کا تیسرا بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے وہاں نمک کی انڈسٹری پاکستان کے مقابلے میں بڑی ہے جو کہ سالانہ پیدا ہونے والے 20 ملین ٹن میں سے قریب 4 ملین کو واشنگ پلانٹس میں صفائی کے بعد اسے عالمی منڈی میں بیچتا ہے۔ بھارت سے زیادہ تر نمک قطر، جاپان، ملائشیا، انڈونیشیا اور نیپال جاتا ہے جس میں منافع کا اندازہ 15 سے 16 امریکی ڈالر فی ٹن لگایا گیا ہے۔ جبکہ خام نمک کی قیمت ہی 20 ڈالر فی ٹن تک لگتی ہے۔

پاکستانی نمک کی اگر بات کی جائے تو کھیوڑا سے حاصل ہونے والا نمک 99 فیصد تک پاک ہوتا ہے اور اسے بین الاقوامی منڈی میں بھیجنے کیلئے صرف 99 اعشاریہ 5 فیصد تک پاک کر کے بیچا جا سکتا ہے لیکن یہاں نہ تو پیداوار اتنی ہے اور نہ سہولیات جس کی وجہ سے خام نمک ہی برآمد کیا جاتا ہے۔ جو ممالک پاکستان سے نمک برامد کرتے ہیں ان میں امریکہ، بھارت، چین، یو کے اور جرمنی شامل ہیں جو اسے پراسیس کرتے ہیں۔ کھیوڑا کی سالانہ پیداوار صرف تین لاکھ پچاس ہزار ٹن ہے اور اس کان کی کل پیداواری صلاحیت 80 سے 600 ملین ٹن تک ہے جسے سست روی سے نکالا جا رہا ہے اگر یہ صلاحیت بڑھائی جائے تو اس سے کچھ نہ کچھ بہتری کی توقع ہے کہ زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ پاکستان اگر 100 فیصد بہتری بھی لے آئے تو بھی اس کی نمک کی برآمدات50 سے بڑھ کر 100 ملین ڈالر ہو جائیں گی۔

آخری بات یہ ہے کہ گلابی نمک کے بارے میں جو تاثر قائم ہے اس پر ایک سکالر (Dr. Kieth Pearson) جو کہ پی ایچ ڈی ہیں نے تحقیق کی کہ یہ سب مبالغہ آرائی ہے۔ گو کہ گلابی نمک میں عام نمک سے زیادہ منرلز ہیں جس میں کیلشیم، آئرن، پوٹاشئم اور میگنیشئم ہے لیکن یہ صرف 1 فیصد ہے باقی کا 99 فیصد سوڈیم کلورائیڈ ہی ہے۔ سو اس سے آپ کی ڈائیٹ پر فرق نہیں پڑتا اور اس کے کھانے کے علاوہ استعمال کے بارے میں کوئی تحقیق موجود نہیں جو اس کے فوائد کو ثابت کرے یہ صرف گھڑی گئی کہانیاں ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہ تو ہمارا 2 روپے کا نمک 50 یورو میں بکتا ہے اور نہ ہی اس سے 128 ارب ڈالر آنے ہیں۔ اگر اس ضمن میں اصلاحات ہوتی ہیں، فارن انوسٹمنٹ آتی ہے، حکومت پرائیویٹ اداروں کو سہولیات دیتی ہے اور پڑوسی ممالک سے دو طرفہ تجارت بحال ہوتی ہے تو 128 ارب ڈالر تو نہیں لیکن بھارت کے مقابل 128 ملین ڈالرز کمائے جاسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:یہ تحریر آصف صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply