احوال ہم گندے بچوں کی عید کا۔۔۔علی اختر

راقم کو قارئین جانتے نہیں سو راقم بیان کر سکتا ہے کہ وہ ایک اعلی ، امیر و ادبی گھرانے کا چشم و چراغ ہے جو سونے کا چمچ منہ میں لیے  دنیا میں آیا ، ابا حضور سول سرونٹ، پروفیسر یا ڈاکٹر وغیرہ تھے ۔ کراچی گرامر اسکول سے تعلیم مکمل کی ۔ کرکٹ، باسکٹ بال، لان ٹینس کھیلا ۔ ماہر استادوں کے زیر نگرانی سوئمنگ اور گھڑ سواری کی تعلیم لی ۔ عید کے پر مسرت موقع پر وہ بچپن سے ہی غریب بچوں میں کپڑے و کھلونے تقسیم کیا کرتا اور دلی سکون حاصل کرتا آیا ہے۔

افسوس کہ  ایسا کچھ نہیں ۔ راقم کا بچپن کراچی کے علاقے ملیر سعود آباد کی تنگ گلیوں میں ننگے پیر ٹائر چلاتے بسر ہوا ۔ بارش کے دوران سریا گاڑ کھیلنا پڑوس میں واقع آرمی کے ڈیری  فارم کے ٹیوب ویل پر نہانا ، بارش کے بعد کی کیچڑ سے مینڈک کے بچے تھیلی میں جمع کرنا، درختوں سے جنگل جلیبی اور جامن توڑتے شہد کی مکھیوں کا شکار ہونا ۔ راقم کے بچپن کی کچھ یادیں ہیں ۔ امی اچھے گھرانے کی تھیں لیکن قسمت کچھ ایسی کہ  اولاد کو پچانوے روپے سالانہ کے سرکاری اسکول سے زیادہ کا اسٹینڈرڈ فراہم ہو ہی نہ سکا ۔ صد شکر کہ  اللہ نے اسکی بھی توفیق دی ۔ راقم اپنے والدین کی اس مہربانی اور اسکے ساتھ ساتھ دیگر مہربانیوں پر بھی ہمیشہ انکے حق میں دعا گو رہے گا ۔

ایسا نہیں کہ  اس زمانے کے سب بچے ہی راقم کی طرح کے گندے شوق اور گھٹیا معیارات رکھتے تھے بلکہ اس دور میں بھی صاف ستھرے یونیفارم، ایئر کنڈیشنڈ کلاسز ، فر فر انگلش بولتی ٹیچرز والے اسکول اور لمبی لمبی کاروں اور ڈرائیورز والے بچے بھی ماڈل کالونی اور ملیر کینٹ کے بڑے بنگلوں میں رہتے ، کرکٹ کھیلتے اور ریموٹ کنٹرول ہوائی  جہاز اڑاتے نظر آتے ۔ مگر انکے مقابلے میں راقم کا اسکول، علاقہ، دوست وغیرہ بلو دین مڈل کلاس تھا اور ان اچھے بچوں کی رائج زبان میں ہم گندے بچے تھے سو ہماری عید بھی گندے بچوں والی ہوتی تھی ۔ زیر نظر مضمون انہی گندے بچوں کی عید کا کچھ احوال بیان کرے گا ۔

عید کے دن کی شروعات ابو کے ساتھ عید گاہ جانے سے ہوتی ۔ نئے کپڑے اور چپلیں پہنے ، عطر لگائے ، کندھوں پر جائے نماز اٹھا کر ہم عید گاہ کی جانب رواں دواں ہوتے ۔ عید گاہ کی ایک خوبی یہ تھی کہ  آپ جتنی بھی جلدی پہنچ جائیں جگہ  آپ کو باہر  سڑک پر ہی ملنی ہے ۔ پتا نہیں لوگ رات سے ہی میدان والی جگہیں گھیر کے بیٹھتے تھے یا کوئی  اور وجہ تھی آج تک علم نہ ہو سکا ۔ نماز کے دوران دوسرا مسئلہ تکبیروں کا تھا ۔ پتا ہی نہ چلتا کہ  کس پر ہاتھ باندھنے ہیں ، کس پر چھوڑنے اور کس پر رکوع میں جانا ہے ۔ ہمیشہ غلطی ہوتی اور واپسی پر ابو سے ڈانٹ پڑتی کہ  “تو پتا نہیں کب نماز سیکھے گا ” ۔

واپسی گھر کے دروازے پر آکر راقم کی نظر سامنے کے گھر کے چبوترے پر کھڑی اس بچی پر ضرور پڑتی جس کا نام تو کوئی  بھاری سا “شہر بانو” ٹائپ تھا لیکن سارے علاقے میں وہ “بے بی ” کے نام سے پہچانی جاتی تھی ۔ غریب علاقوں میں پائی  جانے والی اکثر بچیوں کی طرح “بے بی” بھی ساڑھے بارہ کلو وزن اور پونے چار فٹ ہائٹ پر مشتمل تھی ۔ عید کی مناسبت سے میک اپ کے نام پر وہ چہرے پر بہت سا ٹالکم پاؤڈر اور اپنی اماں کی کوئی  ایکسپائر لپ اسٹک لگائے ، ہاتھوں میں اپنے وزن سے زیادہ چوڑیاں پہنے ، چھوٹا سا بیگ کندھے سے لٹکائے کھڑی ہوتی ۔ عید کے موقع پر تیار “بے بی ” کی نظر کا غرور اور چہرے سے ٹپکتا تکبر راقم مرتے دم نہیں بھلا پائے گا ۔ سنا ہے اب “بے بی” کے بھی چھ بچے ہیں ۔ راقم حوصلہ و ہمت کی داد دیتا ہے ۔ “بےبی ” کی ہمت کی نہیں اسکے شوہر کی۔

گھر پہنچ کر عید ملنا ، شیرخرما، نمکو وغیرہ پر ہاتھ صاف کرنا ۔ امی کی جانب سے عیدی ایڈجسٹمنٹ کہ  بیٹا ہمیں بھی تو آگے دینے ہوتے ہیں نا ۔ ان ساری کاروائیوں کے بعد بھی راقم اچھی خاصی ہنڈسم اماونٹ یعنی کم و بیش سو روپے کی خطیر رقم جیب میں ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ۔ اب اگلی منزل دوستوں کے ساتھ مرکزی چوک ہوتا جہاں عید پر میلے کا سماں ہوتا ۔

غریب کی اصل دولت اسکی انگنت اولاد ہوتی ہے تو کسی بھی غریب علاقے کی طرح ہمارے مرکزی چوک میں بھی کوئی  پچیس  ہزار  کے قریب بچہ مل کر عید منا رہا ہوتا ۔ راقم کو میلے میں جانے سے پیشتر امی کی جانب سے کچھ ہدایات بھی ملتیں جس میں سر فہرست بانس پر لپٹی ہوئی چپچپی رنگ برنگی ٹافی سے دور رہنے کی ہوتی۔ بقول امی کے ٹافی والا گندے ہاتھوں سے کھینچ کر ٹافی کا مور یا چڑیا بناتا ہے ۔ بیٹا خود سوچو کہ  کتنے جراثیم ہوتے ہونگے ۔ راقم پر یہ ہدایت سننے کے بعد تو گویا فرض عین ہو جاتا کہ  سب سے پہلے دو روپے میں چڑیا یا حقہ گندے ہاتھوں والے آدمی سے اس ٹافی کا بنوایا جائے اور پھر آگے کی کچھ پلاننگ ہو ۔ چھوٹے مائیکرو سائز سموسے جس پر آلو کی کھٹی ترکاری ڈال کر دی جاتی ہے اور کون پر چمچ سے لگائی  ہوئی  گلابی آ ئسکریم کھانے کے بعد اگلا مرحلہ جھولوں کا ہوتا ۔

لکڑی کا عمودی سمت گول چکر کھاتا جھولا جس پر تین ڈولیاں فٹ ہوتی ہیں راقم کا فیورٹ تھا ۔ جھولے پر بیٹھنے   سے پہلے ویٹنگ ایریا کے مناظر بھی بہت  پُر لطف  ہوتے ۔ زیادہ تر بچوں کو سال میں ایک ہی بار نئے ، صاف کپڑے پہنا کر عزت دی گئی  ہوتی لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ  عزت ہر کسی کو راس نہیں تو ان میں سے بعض انہی صاف کپڑوں میں ملبوس مٹی میں لوٹنیاں لگا کے رو رہے ہوتے اور توتلی آواز میں فریاد کرتے کہ “آپی ! میرے کو جھولے میں نہیں بیٹھنا ، میرے کو چٹر (چکر)آتے ہیں ” اور ساتھ ہی چھوٹی سی، زیورات و چوڑیوں سے لدی پھندی آپی چپیڑوں کی برسات کر رہی ہوتی کہ “کتے ! تو گھر چل تیرے کو بتاتی ہوں ” ۔

میلے میں بچوں کی سواری کے واسطے تین طرح کے جانور لائے جاتے ۔ اونٹ ، گھوڑا اور گدھا گاڑی۔ راقم کو بچپن میں ہی اسکے کزن “شاہد بھائی  ” کی کہانی سنائی گئی تھی جسے اونٹ والا اغواء کر کے لے جا رہا تھا اور اس نے بروقت چلتے اونٹ سے چھلانگ لگا کر جان بچائی ۔ اب راقم کوئی  کمانڈو تو تھا نہیں سو اونٹ اور گھوڑے کے بجائے وہ عزت سے گدھا گاڑی کی شاہی سواری کو ترجیح دیتا ۔ ایک تو اس پر ایک ہی وقت میں پچیس بچے سوار ہوتے تو اغوا ء کے چانسز نہ ہونے کے برابر تھے دوسرا اگر بائی چانس اغواء ہونا پڑ بھی جائے تو گاڑی سے کود کر فرار ہونا آسان تھا۔ انکے علاوہ بھی لاٹری ، ائر گن سے غبارے پھاڑنا ، پلاسٹک کے رنگ پھینک کر انعام جیتنا وغیرہ جیسے گیم بھی میلے کی جان ہوتے  تھے ۔

درج بالا چیزوں کے ساتھ ساتھ کچھ ناپسندیدہ زہر قسم کی چیزیں بھی  سٹالز پر موجود ہوتیں جس میں سر فہرست پانچ روپے والا ربر بینڈ اور گتے سے بنا وہ چشمہ ہوتا جس   میں شیشوں کی جگہ لال ، نیلی ، پیلی پنیاں لگائی  گئی  ہوتیں جسے پہن کر بچے نابینا بنے گھوم رہے ہوتے ۔ دوسرے نمبر پر باجا فٹڈ وہ غبارہ ہوتا جس میں پھونک مارنے پر بھری ہوئی  ہوا پااااں کی گندی سی آواز کے ساتھ واپسی باہر آتی ۔ تیسرے نمبر پر وہ خانہ بدوش عورتیں جو بچوں کے ہاتھ پر ٹھپہ کی مدد سے نقش و نگار بنا دیتی تھیں ۔ خیر اوور آ ل میلہ بہت ہی اعلی ہوتا اور مغرب تک راقم سو روپے لٹا کے  مکمل مطمئن  حالت میں گھر پر موجود ہوتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے ۔ راقم بھی بیس برس پہلے ملیر کی تنگ گلیوں سے نارتھ ناظم آباد کے پوش علاقے میں شفٹ ہو گیا ۔ راقم اب اپنے گھر کے بچوں کو اے سی چلا کر ٹیبلٹ اور موبائل پر گیم کھیلتے عید مناتے دیکھتا ہے ۔ پھر سعود آباد میں لگنے والے عید میلے کو یاد کرتا ہے ۔ سوچتا ہے کہ  یہ تمیزدار اچھے بچے شاید زندگی میں کبھی بھی ہم گندے بچوں والی عید کا لطف نہیں اٹھا پائیں گے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply