داستان زیست ۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط6

تعارف:

محمد خان چوہدری کا تعلق چکوال کے ، بجنگ آمد کے  مصنف کرنل محمدخان کے قبیلہ سے ہے، جن کی چھاپ تحریر پر نمایاں ہے، میجر ضمیر جعفری بھی اسی علاقے سے ہیں انکی شفقت بھی میسر رہی، فوج میں تو بھرتی نہ ہو سکے لیکن کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کر کے پہلی ملازمت فوج کے رفاعی ادارے میں کی، پھر اِنکم ٹیکس کی وکالت کی، لیکن داستان نویسی میں چکوال کی ثقافت حاوی ہے، مکالمہ  پر  ان کی دو درجن کہانیاں چھپ چکیں ہیں  ، آج کل داستان زیست قسط وار بیان کر رہے ہیں۔

گزشتہ قسط:

سفیر صاحب نے بیل بجائی  تو ان کا سفید وردی میں ملبوس بیرا چائے، بسکٹ ،کیک اور یونائیٹڈ بیکری کی چکن پیٹیز  لایا اور ٹیبل سجا دی، ہم نے چائے پیتے عرض کیا، ایکسیلینسی تین دن کی مہلت عطا کریں، مجھے استعفی دینے اور چارج چھوڑنے کے لئے اتنا ٹائم چاہیے۔
سفیر صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
لیڈی سیکرٹری کو طلب کیا، اور اس  بار حکم دیا کہ مجھ سے کوائف لے کر  تقرری کا لیٹر ٹائپ کرے، فرسٹ سیکرٹری سے  سائن کروا کے ، سفارت خانے کی مہر لگا کر  مجھے دے ، اس کے ساتھ سفیر صاحب اٹھ کے کھڑے ہوئے۔۔۔سب کو سلام کیا اور اپنے دفتر میں چلے گئے، ہم لیڈی سیکرٹری کے آفس میں آئے، لیٹر لینے کی ذمہ د اری دوست نے لی۔
ہم نے میڈیم کا شکریہ ادا کیا، اور ہنستے ہوئے کہا،، چکن پیٹز سنبھال رکھیے گا، وہ بولی۔۔۔بڑے سمارٹ ہو، تین دن بعد جب آنا تو خالی ہاتھ مت آنا، بیکری سے پیٹز اور مٹھائی  لیتے آنا ، مل کے کھائیں گے۔

چھٹی قسط:

سفارت خانے میں سفیر صاحب کے مشفقانہ پروٹوکول، سیکرٹری صاحبہ کی بے تکلفی اور طارق محمدخان کی اپنائیت نے بہت حوصلہ دیا، واپس آتے طارق کا کچھ مزید بریفنگ دینے کا موڈ تھا لیکن ہمارے دوست کو آفس پہنچنے کی جلدی تھی۔۔۔
بازار روڈ سے آبپارہ کی ڈرائیو میں ہمارے دوست جن کا نام رحمت اللہ خان تھا، جو ہمارے ہیلی کالج میں کلاس فیلو اور ہاسٹل کے دو درجن سے زائد انُ دوستوں میں سے ایک تھے جو چار سال میرے گارڈین تھے، یہ قسمت کا کھیل تھا کہ میں ان سب سے چھ ماہ، سال یا دو سال چھوٹا تھا، ساتھ میرا چُلبلا پن، اور حرکتیں، جیسے ہاسٹل کی پہلی رات ڈنر کے لئے میس میں سب لڑکے پراپر ڈریس پہنے تھے اور میں کرتا تہمند اور کھُسا پہنے۔ پریفیکٹ صاحب نے اعتراض کیا۔
جواب میں کھڑے ہو کے میں نے تہبند پکڑ کے کہا، یہ بھی اتار دوں ؟۔۔۔ ڈائننگ حال میں قہقہہ پڑا، پریفیکٹ جھینپ  گئے ، کہا چلو بیٹھ کے کھانا کھاؤ۔
رحمت اللہ خان نے اسی ہاسٹل سٹائل میں کار چلاتے مجھ پر مشوروں اور ہدایات کی بوچھاڑ جاری رکھی۔
آبپارہ پہنچ گئے ، بجائے لنچ کی آفر کے ارشاد فرمایا، سیدھے دفتر جاؤ، آج ہی استعفی لکھو، اپنے فائنل واجبات کا  حساب کر لینا، ہاں نوٹس پیریڈ کی معافی کی رعایت مانگنا، بنکس اور دیگر اہم امور کی لسٹ بنانا ، تاکہ کل تک تم چارج چھوڑ سکو۔۔
ہم پہلے اسلام آباد آتے تھے لیکن اجنبیت لگتی تھی، آج لگا کہ یہ شہر ہمارے نام لگ گیا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام آباد ڈیکوریشن آف ویڈنگ ہال
اسلام آباد ڈیکوریشن آف ویڈنگ ہال

واپس آفس پہنچ گئے، جی ایم صاحب کے دفتر میں حاضری لگوائی ، رئیداد سفر سنائی  ، انکے پی اے کو وہیں  بلوا کے استعفی لکھوایا، اور تھُرو پراپر چینل ، فارورڈ کرنے کے لیے باس کو پیش کر دیا۔
پہلی بار ان کے چہرے پر ملال نظر آیا ۔ دستخط کرتے بھرائی  آواز میں بولے، او کے تو تم ہمیں چھوڑ کے جا رہے ہو! میرے آنسو بہہ نکلے، دن بھر کا ہیجان، خوف، وسوسے ، سب نمودار ہو گئے،
اتنے بڑے ادارے میں اتنی اہم پوسٹ اور مہربان سینئر افسران اور کولیگز سے جدا ہونا آسان منزل نہیں  ہوتی۔۔
باس نے اٹھ کے گلے لگایا، دعا دی، چپڑاسی کو بلا کے چائے اور بسکٹ لانے کو کہا۔
ایکدم موڈ بدل کے کہنے لگے تم اسلام آباد جا رہے ہو تو فرحی کمپنی کا کیا بنے گا۔ مجھے بھی ہنسی آ گئی۔۔۔
استعفی سپیشل میل میں ڈسپیچ رائڈر کے ہاتھ ہیڈ آفس بھجوایا ،اپنے آفس میں آ کے بیٹھے تو ایک ایک کر کے سارا سٹاف ملنے لگا، ماحول میں کسی دلہن کی میکے سے رخصتی کا سماں بندھ گیا۔
ہیڈ آفس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر اور فنانس ڈائرکٹر صاحب سے پہلے بات ہو چکی اور ان سے اجازت لے لی تھی،وہاں سے جی ایم صاحب کو فون پر استعفے کی زبانی منظوری بھی مل گئی، لیکن حکم آیا کہ اگلی صبح مینیجنگ ڈائریکٹر  جنرل صاحب کے پاس ذاتی طور پیش ہونا ہے۔
دفتر میں چارج کے امور کی لسٹ مرتب کرتے  کرتے چھٹی کا ٹائم ہو گیا،باس کا موڈ تھا کہ انکی رہائش پر چلیں ، لیکن میں ذہنی طور پر اسلام آباد کی سڑک پر تھا۔۔۔
مجھے ایک دم تھکن اور ناتوانی محسوس ہوئی ، ان سے اجازت لی۔۔اور ڈنر پر ملاقات طے پائی ، گھر جاتے راستے میں بشیر کو کلینک سے ساتھ لیا اور گھر پہنچ گئے۔
گیٹ کھول کے گاڑی پارک کروا کے مین ڈور کھولنے تک بشیر کا چُپ رہنا خلاف عادت اور باعث تشویش لگا۔
وہ تو ہر وقت میری درستی کے لئے فرمان جاری کرنا فرض سمجھتا، ہاں اس دوران اس کے ہونٹ ہلتے رہے آواز ندارد۔۔
اس نے میرا کمرہ کھولا، میں نے نکٹائی  ڈھیلی کی، کوٹ اتارنے میں اس نے مدد کی، اسے ہینگر پر چڑھاتے بولا ،
“صاحب مجھے یقین ہے خداوند یسوع مسیح نے سفارش کی ہے  ، میری دعا قبول ہوئی ہے  ، آپ انٹرویو میں کامیاب ہو گئے ”۔۔۔۔مجھے لگا کوئی  بہت پہنچا ہوا پیر یا درویش بول رہا ہے، اسے غور سے دیکھا تو اس نے مزید کہا۔۔۔
ہم آپ کے مذہب کو بھی مانتے ہیں آپ کے پیمبر پر ایمان ہے اللہ تو ہم سب کا ایک ہے ناں ۔
ویسے میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے بھی آپکے لئے دعا کروائی  تھی، بڑی اللہ والی ہیں ، اسی لئے ہاتھ میں شفا ہے۔
کبھی کوئی  کیس خراب نہیں  ہوتا، انکے تو ابا پیر صاحب بھی حکیم تھے۔
تھوڑی دیر تو ہم سر پکڑ کے بیٹھ گئے، یہ بشیر کہاں پڑھتا رہا ہے، اتنی دانش اور یہ عام سا کرسچن بندہ ۔۔
اُس نے میرے شوز اور موزے اتارے ، پاؤں تھوڑے دبائے ، مسلے اور سلیپر لا کے رکھتے بولا۔۔۔صاحب آپ نے لگتا ہے کھانا نہیں  کھایا، آپ شاور لیں، کپڑے بدل لیں ، دھوبی صبح دھلائی لایا تھا ، ایک جوڑا  شلوار قمیض ، ناڑا ڈال کے باتھ میں لٹکا دیا ہے، میں آپکے لئے کچھ کھانا بناتا ہوں،
باتھ روم سے نکلے ، ٹیبل پر آملیٹ، فرنچ ٹوسٹ ، اور گرم سلائس کے ساتھ کافی کا مگ پڑا  تھا ۔
بشیر کچن میں شاید اپنے لئے چائے بنا رہا تھا، ہم کھانا کھاتے اس کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ہو سکتا ہے یہ پہنچا ہوا بزرگ ہو، پھر سوچا ایک چُوہڑا کیسے درویش ہو سکتا ہے، بچپن سے جو سنتے آئے اسے دماغ سے نکالنا  آسان نہیں  تھا۔
باہر لان میں ٹہلنے لگے، بشیر کچن سمیٹ کے جانے لگا ، تو اسے روک لیا، کرسیاں منگوا کے ساتھ بٹھا لیا۔۔
اس سے کہا، کل کے لئے دعا کرو دفتر کے کام سارے آرام سے ہو جائیں ، اسلام آباد میں گھر کی دعا بھی کرنی ہے تم نے اور ہاں تمہاری لیڈی ڈاکٹر سے بھی شاید ملنا پڑے۔
وہ بولا اور کچھ ؟ ہم نے کہہ دیا آج مائی  رحمت سے بھی دعا کرانا، میرا سلام بھی کہنا، وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
کہنے لگا، صاحب آپ کے پاس کسی مجبور کا کام ہے جو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں ، اسکی مدد کرنے کی کوشش کریں آپکے تو سب کام ہو جانے ہیں   اماں جتنی دعا آپکو اور کرنل صاحب کو دیتی ہے ، کسی اور کو نہیں دیتی ۔
وہ چلا گیا ہم سوچتے رہ گئے کہ یہ نام، ذات، مذہب، عقیدہ،نسل ، یہ سب کیا ہیں نیک تو کوئی  انسان بھی ہو سکتا ہے۔
بشیر کی فرمائش اب سمجھ آئی  اور کل کی فرحی سے طے ملاقات کی طرف دھیان پھر گیا۔
جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply